کوہستان میں پولیس کو تعلیم کے ضلعی افسر نواب علی کے قتل کے مقدمے میں رکن صوبائی اسمبلی مفتی عبیدالرحمن کی تلاش


صوبہ خیبر پختوںخوا کے ضلع کوہستان میں پولیس کا کہنا ہے کہ وہ کوہستان سے رکن صوبائی اسمبلی مفتی عبیدالرحمن کو تلاش کر رہے ہیں جو محکمہ تعلیم کے ضلعی افسر نواب علی کے قتل کے کیس میں پولیس کو مطلوب ہیں۔

مسلم لیگ ق سے تعلق رکھنے والے رکن صوبائی اسمبلی پر الزام ہے کہ انھوں نے ’محکمہ تعلیم میں بھرتیاں کرنے سے انکار پر محکمہ تعلیم کے افسر کو جان سے مار دیا ہے‘۔

پولیس نے اس مقدمہ قتل میں سات ملزماں کو گرفتار کر کے عدالت میں پیش کر دیا ہے جبکہ مقامی رکن صوبائی اسمبلی سمیت دو افراد کی تلاش جاری ہے۔

محکمہ تعلیم کے ضلعی افسر نواب علی کی نعش اٹھارہ اکتوبر کو محکمہ تعلیم پالس میں ان کے دفتر سے برآمد ہوئی تھی۔ ابتدا میں قتل کا مقدمہ نامعلوم افراد پر درج کیا گیا تھا۔

اس واقعے کے بعد صوبہ بھر میں اساتذہ کے احتجاج پر ڈی آئی جی ہزارہ مظہر کاکا خیل نے ایس پی شعبہ تفتیش عارف جاوید مانسہرہ کی سربراہی میں خصوصی تفتیشی ٹیم تشکیل دی ہے۔

مفتی عبیدالرحمن پولیس کی جانب سے لگائے جانے والے ان الزامات کا جواب دینے کے لیے دستیاب نہیں تھے تاہم ان کے قریبی عزیز خورشید کا کہنا تھا کہ مفتی عبیدالرحمن نے کوئی جرم نہیں کیا ہے اور وہ اپنی بے گناہی کو ثابت کریں گے۔

مفتی عبیدالرحمن کے عزیز خورشید کا دعویٰ ہے کہ ’جس وقت یہ واقعہ ہوا اس وقت مفتی عبید الرحمن مانسہرہ میں ایک جرگے میں تھے جس میں آٹھ، دس افراد موجود تھے اور اس واقعے پر بہت افسوس اور دکھ کا اظہار کرنے کے بعد اسمبلی اجلاس میں چلے گئے جہاں پر بھی انھوں نے تعزیتی دعا کروائی اور اسمبلی میں اس واقعے کی مذمت بھی کی تھی‘۔

پولیس کی تفتیشی ٹیم نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ’مقتول نواب علی پر مقامی ممبر صوبائی اسمبلی مفتی عبیدالرحمن اور ان کے حواریوں کی جانب سے محکمہ تعلیم میں بھرتیوں کے لیے سخت دباؤ تھا‘۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’وقوعہ سے ایک روز قبل مقتول کو ان کے دفتر میں محبوس رکھا گیا اور دفتر کو تالے لگائے گے تھے۔ وقوعہ سے کچھ دن قبل ان کو ایبٹ آباد لے جا کر ایک مکان میں حبس بے جا میں رکھا گیا جہاں پر ان پر تشدد بھی ہوا تھا‘۔

رپورٹ کے مطابق ’اسی دباؤ تلے پہلے 26 ستمبر کو مقتول نواب علی نے بھرتیوں کا حکم نامہ جاری کیا تھا جو کہ انھوں نے وقوعہ والے روز منسوخ کردیا تھا‘۔

پولیس افسر کوہستان محمد افتخار کے مطابق گرفتار ملزمان سے تفتیش جاری ہے جبکہ ممبر صوبائی اسمبلی کو گرفتار کرنے کے لیے چھاپے مارے جارہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پولیس اس مقدمے کی تفتیش جلد از جلد عدالت میں پیش کرنا چاہتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

’کوہستان میں 354 سکول چھت سے محروم‘

کوہستان: خواتین کے لیے موبائل فون موت کی علامت

کوہستان ویڈیو: پانچ لڑکیوں کے قتل پر تین ملزمان کو عمرقید

نواب علی شدید دباؤ کا شکار تھے

ایس پی شعبہ تفتیش مانسہرہ اور قتل کے مقدمے کی تفتیشی ٹیم کے انچارج عارف جاوید نے بی بی سی کو بتایا کہ جب جائے وقوعہ کا معائنہ کیا گیا تو اسی وقت واضح ہوگیا کہ یہ کسی بھی صورت میں خودکشی کا واقعہ نہیں ہے۔ مزید یہ کہ پولیس کی تفتیشی ٹیم کو نواب علی کے دفتر سے کئی خطوط، ذاتی ڈائری اور دیگر مواد دستیاب ہوا ہے۔

پولیس افسر کے مطابق ’ڈائری اور خطوط ذاتی اور گھریلو نوعیت کے ہیں جن کے مندرجہ ذیل امانت ہیں مگر ان ہی خطوط اور ڈائری کے کچھ اقتباس میں مقتول نے واضح طور پر کئی مقامات پر لکھا ہوا تھا کہ ممبر صوبائی اسمبلی اور بااثر افراد کی جانب سے ان پر غیر قانونی کاموں کے لیے شدید ترین دباؤ ہے‘۔

پولیس افسر عارف جاوید کے مطابق مقتول نے کئی مقامات پر لکھا کہ ’مجھے میرے ضمیر کے خلاف غیر قانونی کاموں کے لیے دباؤ کا شکار کیا جارہا ہے‘۔ ایک موقع پر انھوں نے لکھا کہ میں تنگ ہوچکا ہوں۔ مجھے ہر طرح سے ہراساں اور خوفزدہ کیا جارہا ہے۔ میں غیر قانونی کام نہیں کرنا چاہتا کسی بھی صورت نہیں کرنا چاہتا۔

ضلع شانگلہ کی تحصیل الپورہ کے سابق تحصیل ناظم شوکت علی نے جو کہ نواب علی کے چچا زاد بھائی بھی ہیں، بی بی سی کو بتایا کہ نواب علی کی جانب سے لکھا گیا خط انھوں نے بھی پڑھا ہے۔

ان کے مطابق ’اس خط میں نواب علی نے لکھا ہے کہ میں نے ساری زندگی ایمانداری سے نوکری کی ہے کبھی کوئی غلط کام نہیں کیا ہے۔ ہمیشہ حلال کی روزی کھائی ہے، اب کیسے میں غلط کام کرلوں‘۔

کوہستان شرح تعلیم میں سب سے پیچھے

غیر سرکاری ادارے الف اعلان کے مطابق سال 2017 میں کوہستان میں شرح تعلییم پانچ فیصد سے بھی کم تھی جو کہ پورے ملک میں سب سے کم ہے۔

الف اعلان کے حفیظ الرحمن کا کہنا تھا کہ ’کوہستان میں سابقہ ادوار میں کی گئی جعلی بھرتیاں بہت بڑا مسئلہ ہے۔ جس وجہ سے یہ اس علاقے میں تعلیم کی شرح بڑھ نہیں رہی ہے‘۔

ان کا دعویٰ ہے کہ ’گوسٹ اساتذہ بھرتی ہوتے ہیں۔ غیر مقامی اساتذہ کمیشن پر مقامی لوگوں کی خدمات حاصل کرلیتے ہیں‘۔

ممتاز قانون دان اور تعلیم کے لیے کام کرنے والے کارکن امان ایوب ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ ’یہ کوئی راز نہیں ہے کہ کوہستان میں محکمہ تعلیم کے اندر جتنی بڑی کرپشن ہے اتنی شاید ملک بھر میں موجود نہیں ہے۔ کوہستان میں لڑکوں کے تو چند ہی تعلیمی ادارے ہوں گے جہاں پر درس و تدریس کا کام ہو رہا ہوگا ورنہ اکثریت تعلیمی ادارے ’گوسٹ‘ ہیں جبکہ دوسری جانب لڑکیوں کے تو شاید ہی کسی سکول میں پڑھائی ہوتی ہوگی‘۔

ان کے مطابق ’تعلیمی اداروں کا اکثریتی عملہ اور اساتذہ تنخواہیں تو لیتے ہیں مگر تعلیمی اداروں میں نہیں جاتے ہیں۔ اس سارے کام میں مقامی لوگ ملوث ہیں جو ملازمتیں حاصل کر کے گھروں میں بیٹھ جاتے ہیں اور ہر ماہ گھر بیٹھے تنخواہ وصول کرلیتے ہیں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’شاید کوہستان کی تاریخ میں نواب علی پہلے افسر تھے جنھوں نے مقامی بااثر افراد کے ایما پر غیر قانونی کام کرنے سے انکار کیا‘۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32558 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp