’’گورے ادیب، کالے ادیب اور کاملہ شمسی‘‘


ہمارے ادب میں تین قسم کے پاکستانی پائے جاتے ہیں، ایک وہ جو اپنی مادری زبانوں میں اس کے باوجود کہ ان کا کوئی چرچا نہیں ہوتا، شہرت اگر ہوتو محدود ہوتی ہے یہ لوگ اپنی سرزمین سے جڑے ہوئے لوگ پنجابی، پشتو اور سندھی میں بڑا ادب تخلیق کر رہے ہیں۔ دوسری قسم کے پاکستانیوں میں مجھ ایسے ہیں جنہوں نے اگرچہ فیض عام کی مانند کچھ نہ کچھ تو اپنی مادری زبان میں لکھا لیکن ان کا بنیادی ذریعہ اظہار اردو زبان ہے۔ ادب میں پائے جانے والے تیسری قسم کے وہ پاکستانی ہیں جنہوں نے انگریزی میں لکھ کر بین الاقوامی شہرت حاصل کی۔

اگرچہ یہ تینوں اقسام پاکستانی ادیبوں کی ہیں لیکن حیرت انگیز طور پر یہ ایک دوسرے سے سراسر مختلف جہانوں کے باشندے ہیں یہاں تک کہ ان کی تہذیب اور ثقافت میں بھی یگانگت نہیں اور ہاں یہ ایک دوسرے سے بھی زیادہ واقفیت نہیں رکھتے۔ مادری زبانوں میں لکھنے والوں کو اردو اور انگریزی میں اظہار کرنے والے ادیب اول تو جانتے ہی نہیں اور اگر جانتے ہیں تو انہیں ایک کم درجے کی مخلوق سمجھتے ہیں۔ اُدھر انگریزی میں لکھنے والے خواتین و حضرات، اردو ادیبوں کو بھی کم کم جانتے ہیں اور اگر جانتے ہیں تو ان کی تحریروں سے نا آشنا ہیں اور انہیں توجہ کے لائق نہیں سمجھتے۔

’’ہوم بوائے‘‘ کے مصنف ایچ ایم نقوی نے فی الحال لاہور میں مقیم ایک بین الاقوامی شہرت یافتہ انگریزی ادیب سے دوران گفتگو پاکستان کے ایک خاصے نامور ادیب کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے سرہلا کر کہا کہ میں ان کو نہیں جانتا۔ میں نے ان صاحب کی سب کتابیں پڑھ رکھی ہیں اور وہ بہت اعلیٰ لکھنے والے ہیں۔ ان کے ناولوں کے حوالے سے فلمیں بھی بن چکی ہیں۔ یہاں تک کہ مشل اوبامہ بھی ان کی مداح ہیں لیکن وہ ایسے اردو ادیب سے ناواقف ہیں جن سے شاید پورا پاکستان واقف ہے۔ گویا یہ سب ہیں تو پاکستانی لیکن ان کے مدار مختلف ہیں۔

مادری زبانوں میں لکھنے والے ادیب چاہے کتنے بڑے شاہکار تخلیق کر لیں وہ کسی شمار قطار میں نہیں آتے۔ اردو ادیب انہیں گھاس نہیں ڈالتے اور ان اردو ادیبوں کو انگریزی میں لکھنے والے گھاس نہیں ڈالتے۔ اردو ادیب دراصل ان سے بے حد حسد کرتے ہیں کہ یہ لوگ پاکستانی ثقافت اور روایت سے واقف ہی نہیں۔ ایک دو ناول انگریزی میں لکھ لیتے ہیں اور پوری دنیا کے ادبی میلوں میں مدعو ہوتے ہیں اور گھومتے پھرتے ہیں جب کہ ۔۔۔۔پھرتے ہیں میرؔ خوار کوئی پوچھا ہی نہیں۔ جیسے کہاوت ہے کہ مشرق مشرق ہے اور مغرب مغرب اور یہ دونوں کبھی نہیں مل سکتے، یوں اردو ادیب اور انگریزی میں لکھنے والے لوگ آپس میں کبھی نہیں مل سکتے بلکہ مل سکتے ہی نہیں کہ ان دنوں کئی ایسے لٹریری فیسٹول منعقد ہو رہے ہیں جن میں صرف انگریزی میں لکھنے والوں کو نمائندگی دی جاتی ہے، اردو ادیبوں سے شدید پرہیز کی جاتی ہے بلکہ ایک فیسٹول کا نام لاہور لٹریری فیسٹول ہے جس میں لاہور کے کسی ادیب کو مدعو نہیں کیا جاتا۔

اس فیسٹول میں کسی سیشن کے دوران ایک صاحب کھڑے ہو گئے کہ یہاں آپ ناول نگاری کے بارے میں گفتگو کر رہے ہیں تو انتظار حسین، عبداللہ حسین اور ایک اور حسین یہاں کیوں موجود نہیں اور وہ اس لیے موجود نہیں تھے کہ وہ تو اردو میں لکھتے ہیں۔ یوں جانئے کہ جیسے کسی زمانے میں جنوبی افریقہ میں نسلی امتیاز یعنی اپارٹیڈ کا چلن تھا کہ کالے لوگ ان ریستورانوں اور پارکوں میں قدم نہیں رکھ سکتے تھے جو گوروں کے لیے مخصوص تھے، ایسے ہی پاکستان میں لٹریری فیسٹیول منعقد ہوتے ہیں جہاں صرف ’’گورے‘‘ قدم رکھ سکتے ہیں، ہم جیسے ’’کالے‘‘ نہیں۔

یہ محض اتفاق ہے کہ ان ’’گورے‘‘ ادیبوں میں سے کچھ میرے قریبی دوست ہیں جن میں ’’اے کیس آف ایکسپلوڈنگ مینگوز‘‘ اور ’’ریڈبرڈز‘‘ کے محمد حنیف اور ’’ہوم بوائے‘‘ کے ایچ ایم نقوی شامل ہیں اور میں اقرار کرتا ہوں کہ میں ان کی بین الاقوامی شہرت سے شدید حسد کرتا ہوں اور اس کے باوجود محمد حنیف کے ناول کے اردو ترجمے ’’پھٹتے آموں کا کیس‘‘ کا فلیپ میں نے لکھا تا کہ میں بھی بین الاقوامی طور پر مشہور ہو جائوں۔ ویسے سید کاشف رضا کا یہ ترجمہ اس لائق ہے کہ اسے پڑھ لیا جائے۔ دراصل یہ تمہید کچھ زیادہ ہی طویل ہو گئی ہے جب کہ میرا اصل مقصد مشہور ناول نگار کاملہ شمسی کو دیا جانے والا وہ جرمن ایوارڈ ہے جو ڈارٹمنڈ شہر کی جانب سے نیلی ساک کے نام سے اعلان کیا گیا۔

یہ ایوارڈ یہودی شاعرہ نیلی ساک نوبل انعام یافتہ کی یاد میں کسی بھی خاتون ناول نگار کو جو بین الاقوامی سطح پر ایک تخلیقی جینئس کے طور پر ابھرے دیا جاتا ہے۔ایوارڈ کا اعلان ہوا تو یہودی لابی نے شدید احتجاج کیا کہ کاملہ شمسی نے نہ صرف اسرائیلی دہشت گردی کی مذمت کی ہے بلکہ فلسطین کاز کی حمایت کی ہے؛چنانچہ تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ بغیر کسی معذرت کے اس ایوارڈ کی واپسی کا فیصلہ کر لیا گیا۔ یہ ایسے ہی جیسے نوبل انعام کا اعلان کر کے کسی لابی کے احتجاج پر اسے کینسل کر دیا جائے۔ یہودیوں کے قتل عام کے بعد جرمن قوم کا احساس جرم اسے ہمیشہ نا انصافی کی جانب دھکیل دیتا ہے۔ وہ اب کسی ایک یہودی کو بھی نظرانداز کرنے کا خطرہ مول نہیں لیتے۔

کاملہ کا کمال یہ ہے کہ اس نے فلسطینیوں کے حق میں دیئے جانے والے بیان پر معذرت نہیں کی بلکہ اس پر فخر کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایوارڈ جائے بھاڑ میں، میں اپنے اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کر سکتی۔ یہ کتنے شرم کی بات ہے کہ ایوارڈ جیوری ایک مخصوص لابی کے دبائو تلے آ گئی ہے اور ایک ایسے ناول نگار کو ایوارڈ سے محروم کر دیا گیا ہے جس کا گناہ صرف یہ ہے کہ وہ اپنے ضمیر کی آواز پر دھیان دیتے ہوئے آزادیٔ اظہار کا مرتکب ہوا ہے۔ میں کسی حد تک کاملہ شمسی سے واقف ہوں۔ آکسفورڈ کے ادبی میلے میں اکثر اس سے ملاقات ہو جاتی ہے۔ نقوی کے گھر میں بھی اس کے ساتھ طویل نشستیں ہوئیں اور میں نے اسے ایک باوقار اور انتہائی ذہین خاتون پایا۔

اس ایوارڈ کی شرمناک واپسی پر دنیا کے بڑے بڑے ادیبوں اور دانشوروں نے احتجاج کیا اور کاملہ کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا اور ان میں ولیم ڈل امپل، نوم چومسکی اور بن اوکرے وغیرہ شامل ہیں۔ جب کہ حیرت انگیز طور پر پاکستان کے کسی بڑے ادیب نے یا کسی ادبی ادارے نے کاملہ کے حق میں بیان نہیں دیا۔ کاملہ ان دنوں لندن میں مقیم ہے لیکن وہ ایک خالص پاکستانی ہے اور کراچی کی پیداوار ہے اور اس کا انعام یافتہ ناول ’’ہوم فائر‘‘ ہر کسی نے پڑھ رکھا ہے اور اس کی بنیادی وجہ لاتعلقی یا بے اعتنائی نہیں ہے بلکہ انگریزی میں لکھنے والوں کا وہ رویہ ہے جو وہ اردو میں لکھنے والوں کے بارے میں رکھتے ہیں کہ دراصل وہ لاتعلق اور لا علم ہیں کہ یہ اردو والے کون ہیں اور یہ کیا لکھتے ہیں۔

جیسا کہ میں نے عرض کیا تھا کہ ان دونوں کے مدار الگ الگ ہیں، انہیں کچھ پرواہ نہیں کہ ان کے آس پاس کون گھوم رہا ہے تو پھر اردو ادیب کیوں پرواہ کرے کہ ان سے جو لوگ پرے پرے رہتے ہیں ان پر کیا بیت رہی ہے۔ بہرحال کاملہ شمسی کے اس جرمن ایوارڈ کی واپسی پر میں احتجاج کرتا ہوں، اگرچہ اس احتجاج پر کون کان دھرے گا کہ میں تو ایک اردو ادیب ہوں۔

بشکریہ روزنامہ نائنٹی ٹو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مستنصر حسین تارڑ

بشکریہ: روزنامہ 92 نیوز

mustansar-hussain-tarar has 181 posts and counting.See all posts by mustansar-hussain-tarar