شام کی سرحد پر سیف زون کے لیے ترکی اور روس کا ‘تاریخی’ معاہدہ


اردوغان اور پوتن

ترکی اور روس نے شام کی جنگ میں اب تک مخالف دھڑوں کی حمایت کی ہے

ترکی اور روس کرد فورسز کو ترکی کے ساتھ شام کی سرحد سے دور رکھنے کے معاہدے پر رضامند ہو گئے ہیں۔ دونوں ممالک نے اس معاہدے کو تاریخی معاہدہ قرار دیا ہے۔

یہ معاہدہ ترکی کی جانب سے کرد افواج کو سرحد سے دور رکھنے اور اس علاقے میں ایک ‘سیف زون’ قائم کرنے کے لیے جاری جنگ میں تعطل کے دوران طے پایا ہے۔

اس معاہدے کے تحت روسی اور شامی افواج اس بات کی نگرانی کریں گی کہ کرد فورسز وہاں سے فوری نکل جائيں۔

کردوں کی جانب سے کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ہے۔ خیال رہے کہ ترکی کرد جنگجوؤں کو دہشت گرد کہتا ہے۔

اس معاہدے کے تحت آئندہ ہفتے ترکی اور روس کا سرحد کی مشترکہ نگرانی کا منصوبہ ہے۔

یہ بھی پڑھیے

ترکی کی شام میں زمینی کارروائی کا آغاز

شام میں ترکی کی اتحادی ’نیشنل آرمی‘ کون ہے؟

آزاد کُرد ریاست کا خواب اب تک ادھورا کیوں؟

اس معاہدے کا اعلان منگل کو ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان اور روسی میزبان ولادی میر پوتن کے درمیان بحر اسود کے شہر سوچی میں چھ گھنٹے کی بات چیت کے بعد کیا گیا۔

خیال رہے کہ امریکہ نے ترکی سے جو جنگ بندی کرائی تھی اس کی مدت منگل کی شام کو ختم ہونے والی تھی اور ترکی نے یہ دھمکی دی تھی کہ وہ پھر سے کرد جنگجوؤں کے خلاف حملے شروع کر دیں گے۔

لیکن ترکی نے کہا کہ ‘اب اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔’

شام

ترکی کا حملہ اس وقت شروع ہوا جب اچانک امریکہ نے شام سے اپنی فوج کے انخلا کا اعلان کر دیا۔ امریکی فوجی کرد جنگجوؤں کی حمایت کر رہے تھے جو کہ دولت اسلامیہ کے خلاف جنگ میں امریکہ کے اتحادی تھے۔

سوچی میں کس چیز پر رضامندی ہوئی؟

اپنے حملے میں ترکی نے اپنے ‘سیف زون’ بنانے کی کوشش میں راس العین اور تل ابیض شہر کے درمیان 120 کلومیٹر لمبی پٹی پر قبضہ کر لیا جس میں وہ کرد فوجیوں کو نکال کر وہاں 20 لاکھ پناہ گزینوں کی باز آبادکاری چاہتا ہے۔

معاہدے کے تحت روس نے ترک فوج کو وہاں رہنے اور اس علاقے کا مکمل کنٹرول رکھنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔

کرد جنگجوؤں کو بدھ کی دوپہر سے 150 گھنٹے دیے گئے ہیں کہ وہ سرحد سے 30 کلومیٹر دور پیچھے ہٹ جائيں یعنی کہ منبج کے مشرق میں دریائے فرات کے تقریباً تمام حصے کو خالی کرکے عراق کی سرحد کی طرف چلے جائیں۔

روسی اور شامی فوج فوری طور پر وہاں پہنچے گی تاکہ وہ انخلا کی نگرانی کر سکے۔

اس میں کرد کی وسیع آبادی والا علاقہ قامشلی شامل نہیں ہے اور فوری طور پر تفصیلات فراہم نہیں کی گئی ہیں کہ وہاں کیا ہوگا۔

29 اکتوبر کو جب 150 گھنٹے کی معیاد پوری ہو جائے گی اس کے بعد ترکی اور روس کی فوج وہاں مشترکہ گشت کرے گی۔ اس علاقے کو ترکی کے حملے والے علاقے کے ’مشرق و مغرب‘ کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ کرد فورسز کو منبج اور تل رفعت کے علاقے سے بھی ‘نکال دیا جائے گا’۔ تل رفعت منبج سے 50 کلو میٹر مغرب میں واقع ہے اور یہ دونوں علاقے آپریشن والے علاقے کے باہر آتے ہیں۔

کرد فورسز اور رہنماؤں نے فوری طور پر اس پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا ہے کہ آیا وہ اسے تسلیم کریں گے بھی یا نہیں۔

شام کے صدر بشار الاسد نے شام میں بیرونی مداخلت پر تشویش کا اظہار کیا ہے لیکن کرملن کا کہنا ہے کہ انھوں نے صدر پوتن کا شکریہ ادا کیا اور ‘کام کے نتائج کو اپنی مکمل حمایت کے اظہار کے ساتھ شام اور ترک سرحد پر روسی فوجی کے ساتھ شامی سرحدی گارڈز کی تعیناتی پر رضامندی ظاہر کی ہے۔’

ہم یہاں کس طرح پہنچے؟

شمالی شام میں گذشتہ چار سالوں کے دوران دولت اسلامیہ کے خلاف جنگ میں امریکی قیادت والے اتحاد نے کرد کی قیادت والی فوج پر بھروسہ کیا ہے لیکن اس میں کرد پیپلز پروٹیکشن یونٹ (وائی پی جی) کے جنگجوؤں کی اکثریت ہے جسے ترکی دہشت گرد تنظیم کہتا ہے۔

دو ہفتے قبل صدر ٹرمپ نے اعلان کیا کہ وہ شام سے اپنی فوج واپس بلا رہے ہیں۔ اس کے فوراً بعد ترکی نے کردوں کے خلاف حملہ کر دیا۔

سرحد کے پاس موجود روسی فوج نے تشویش کا اظہار کیا کہ شام کے علاقے پر بیرونی تجاوزات بڑھ رہی ہیں۔

گذشتہ ہفتے امریکی درخواست پر ترکی نے حملے بند کرنے پر رضامندی ظاہر کی تاکہ ‘ترکی کے قبضے والے سیف زون سے وائی پی جی فورسز کا انخلا ہو سکے۔’

امریکی اہلکاروں کی جانب سے چھوٹی موٹی جھڑپ کی بات کہے جانے کے باوجود مجموعی طور پر جنگی بندی پر عمل کیا گیا۔

ترکی کی حمایت والی شامی فوج

اس کی قیمت کیا رہی؟

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ گذشتہ دو ہفتوں میں شام کے شمال مشرقی علاقے سے پونے دولاکھ افراد کو جن میں 80 ہزار بچے شامل ہیں اپنا گھر بار چھوڑ کر نقل مکانی پر مجبور ہونا پڑا۔ اس علاقے میں 30 لاکھ افراد آباد ہیں۔

برطانیہ میں شام کے متعلق انسانی حقوق کی آبزرویٹری (ایس او ایچ آر) کے مطابق جنگ میں 254 کرد جنگجوؤں کے علاوہ، 196 ترکی کی حمایت والے شامی باغی اور سات ترکی فوجی کے ساتھ 120 شہری بھی ہلاک ہوئے ہیں۔

ترکی کے حکام کا کہنا ہے کہ ترکی کے علاقے میں وائی پی جی کے حملے میں بھی 20 شہری ہلاک ہوئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp