پی ایم ڈی سی تحلیل: پاکستان میڈیکل کمیشن آرڈیننس کے تحت این ایل ای امتحان پر طبی ماہرین، میڈیکل طلبا نالاں


میڈیکل طلبا

نئے آرڈیننس کے تحت نیشنل لائسنسنگ ایگزیم (این ایل ای) کا امتحان سال میں صرف دو مرتبہ منعقد کیا جائے گا جسے پاس کر کے ہی میڈیکل کے تازہ گریجویٹس اپنے کریئر میں آگے بڑھ سکیں گے

پاکستان کی حکومت نے طبی شعبے کے نگراں ادارے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کو تحلیل کر کے ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے اسے ایک نئے ادارے سے بدل دیا ہے۔

پاکستان میڈیکل کمیشن آرڈیننس 2019 کے عنوان سے جاری ہونے والے اس آرڈیننس میں جہاں اس نئے ادارے کے خدوخال واضح کیے ہیں، وہیں اس کے ذریعے ایک نیا امتحان متعارف کروایا گیا ہے جسے پاس کرنا پریکٹس کے لیے تو دور، ہاؤس جاب کرنے کے لیے بھی لازم ہوگا۔

اس امتحان کو نیشنل لائسنسنگ ایگزیم (این ایل ای) کہا جائے گا اور اس کا اطلاق مارچ 2020 کے بعد گریجویٹ ہونے والے تمام میڈیکل طلبا پر ہوگا۔

یعنی مارچ 2020 میں گریجویٹ ہونے والے طلبا کو ہاؤس جاب شروع کرنے کے لیے ایک عارضی لائسنس درکار ہوگا جسے این ایل ای پاس کرکے حاصل کیا جا سکے گا۔ ہاؤس جاب کی تکمیل کے بعد ہی انھیں پورا لائسنس جاری کیا جائے گا۔

پاکستان میں این ایل ای کے مجوزہ امتحان کے خلاف ٹوئٹر پر WeRejectNLE# کا ٹرینڈ منگل کی رات سے بدھ کی صبح تک ٹاپ ٹرینڈ بنا رہا جس میں میڈیکل کے طلبا اور دیگر افراد نے اس معاملے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔

یہ بھی پڑھیے

نئی خواتین ڈاکٹر ہاسٹل میں کیوں نہیں رہ سکتیں؟

’ڈاکٹر اگر پکوڑے بیچیں تو کیا غلط‘

طبی عملے کی غفلت: ضابطہ اخلاق کیا ہے؟

دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ امتحان سال میں صرف دو مرتبہ منعقد کیا جائے گا جسے پاس کر کے ہی میڈیکل کے تازہ گریجویٹس اپنے کریئر میں آگے بڑھ سکیں گے۔

فوج کے کیڈٹس کے لیے ہاؤس جاب سے پہلے این ایل ای کا امتحان پاس کرنا لازم نہیں ہوگا لیکن انھیں اپنی سروس کے دوران فُل لائسنس حاصل کرنے کے لیے لازماً یہ امتحان پاس کرنا ہوگا۔

آرڈیننس میں اس تفریق کی وجوہات یا اس کے لیے طریقہ کار پر روشنی نہیں ڈالی گئی ہے۔

ملازمین کا احتجاج

اسلام آباد میں پی ایم ڈی سی کے ملازمین اپنے محکمے کی تحلیل کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں

پاکستان میڈیکل کمیشن آرڈیننس 2019 کے چیدہ چیدہ نکات

  • اس آرڈیننس کے تحت پاکستان میڈیکل کمیشن قائم کیا جائے گا جس میں تین ذیلی ادارے میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل، نیشنل میڈیکل اینڈ ڈینٹل اکیڈمک بورڈ، اور نیشنل میڈیکل اتھارٹی ہوں گے۔
  • آرڈیننس کی شق 22 کے تحت نیشنل ایکوئیلینس بورڈ قائم کیا گیا ہے جو غیر ملکی اداروں میں زیرِ تعلیم طلبا کی قابلیت جانچنے کے بعد انھیں پاکستان میں تعلیم جاری رکھنے کی اجازت دے گا۔
  • میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل میں تین ارکان سول سوسائٹی سے، کم سے کم 20 سالہ تجربہ رکھنے والے تین لائسنس یافتہ ڈاکٹرز، ایک لائسنس یافتہ ڈینٹسٹ (کم سے کم 20 سالہ تجربے کے حامل)، مسلح افواج کے سرجن جنرل یا ان کے نامزد کردہ رکن، اور کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز پاکستان کے صدر ہوں گے۔
  • کونسل کے اول الذکر چھ ارکان وزیرِ اعظم کے نامزد کردہ ہوں گے۔
  • شق 20 کے تحت یونیورسٹیوں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ خود سے ملحق کالجوں میں طلبا کی زیادہ سے زیادہ تعداد سمیت نصاب اور دیگر معیارات کی پابندی کو الحاق کے وقت اور اس کے بعد یقینی بنائیں۔
  • شق 21 کے تحت نیشنل لائسنسنگ ایگزیم (این ایل ای) کا پاس کرنا ہاؤس جاب شروع کرنے اور فُل لائسنس کے حصول کے لیے لازمی قرار دیا گیا ہے۔

ماہرین کی کیا رائے ہے؟

بی بی سی نے اس حوالے سے ماہرین سے بات کر کے اس معاملے پر ان کی رائے جاننے کی کوشش کی ہے۔

طبی شعبے سے منسلک ایک ماہر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ نجی طبی تعلیمی اداروں کی جانب سے ایسے آرڈیننس کا مطالبہ ایک طویل عرصے سے کیا جا رہا تھا تاکہ انھیں زیادہ سے زیادہ خود مختاری مل سکے۔

’پہلے میڈیکل کالجز میں سہولیات کی موجودگی اور ضوابط کی پاسداری کا جائزہ پی ایم ڈی سی براہِ راست خود لیتی تھی مگر اب یہ اختیار ان کالجز کا الحاق رکھنے والی متعلقہ یونیورسٹیز کو دے دیا گیا ہے۔‘

’اس آرڈیننس کے نفاذ کے بعد میڈیکل اداروں کو بہت زیادہ طلبا کو بھرتی کرنے کا اختیار مل جائے گا جس پر پہلے پی ایم ڈی سی کی جانب سے حد مقرر تھی۔ اس کے علاوہ جو پاکستانی طلبا بیرونِ ملک ڈگری حاصل کر رہے ہیں، انھیں آدھی ڈگری مکمل کرنے کے بعد پاکستان میں اپنی تعلیم منتقل کرنے کا آپشن دے دیا گیا ہے جس سے ہر کالج کے لیے سیٹوں کے مخصوص کوٹے کی خلاف ورزی ہوگی۔‘

این ایل ای کے بارے میں ان کا کہنا تھا زیادہ بہتر یہ تھا کہ جو پرانے ڈاکٹر ہیں ان کی رجسٹریشن کی تجدید کرنے سے قبل یہ ٹیسٹ لیا جاتا تاکہ وہ موجودہ زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ رہیں اور ’پرانی دوائیاں نہ تجویز کرتے رہیں۔‘

میڈیکل طلبا

میڈیکل کے طلبا کا کہنا تھا کہ چوں کہ یہ امتحان سال میں صرف دو مرتبہ ہوگا، اس لیے اگر وہ اس میں ناکام ہوجائیں تو ان کے لیے مالی مشکلات ہوسکتی ہیں

پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز) کی شہید ذوالفقار علی بھٹو میڈیکل یونیورسٹی اسلام آباد کے سابق وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرم نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس نئے آرڈیننس پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔

ڈاکٹر جاوید اکرم کے مطابق دنیا بھر میں ڈاکٹرز ہی خود کو ریگولیٹ کرتے ہیں اور یہ کہ سول سوسائٹی کے افراد کو اس کونسل میں شامل کرنا سمجھ سے باہر ہے۔

’جب ایک ڈاکٹر پاکستان بار کونسل کا رکن نہیں بن سکتا تو سول سوسائٹی کا کوئی رکن میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کا رکن کیونکر بن سکتا ہے؟‘

ڈاکٹرز کا احتجاج

این ایل ای امتحان کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ جتنے بھی امتحانات کا اضافہ کیا جائے گا، اتنے ہی مسائل ہوں گے۔ ان کے مطابق موجودہ امتحانی نظام کو ہی درست کرنا چاہیے۔

’جب آپ کے پاس ایم بی بی ایس کی تکمیل کا ایک امتحان موجود ہے، تو اس میں بھلے ہی خرابیاں ہوں، آپ ان خرابیوں کو دور کریں، بجائے اس کے کہ ایک اور امتحان لے آئیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اس سے بچوں پر دباؤ اور اخراجات میں اضافہ ہوگا جبکہ اس ‘غیر ضروری امتحان’ کے لیے بہت وسائل درکار ہوں گے۔

’کوئی بھی نظام پرفیکٹ نہیں ہوتا لیکن نیا نظام لانے کے بجائے اسے پرفیکٹ بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔‘

طلبا کے خدشات

بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے شہید ذوالفقار علی بھٹو میڈیکل یونیورسٹی اسلام آباد کے طلبا نے بھی اس مجوزہ امتحان کے حوالے سے اپنے خدشات کا اظہار کیا۔ طلبا کہنا تھا کہ چوں کہ یہ امتحان سال میں صرف دو مرتبہ ہوگا، اس لیے اگر وہ اس میں ناکام ہوجائیں تو ان کے لیے مالی مشکلات ہوسکتی ہیں۔

اس کے علاوہ طلبا نے پہلے سے موجود امتحانات کی موجودگی میں ایک اور امتحان متعارف کروانے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انھیں پہلے یہ امید تھی کہ انھیں ڈگری فوراً مل جائے گی مگر اب انھیں معلوم ہوا ہے کہ انھیں ایک اور امتحان سے گزرنا ہوگا۔

کچھ طلبا نے اس حوالے سے میمز کی صورت میں دلچسپ تبصرے بھی کیے۔

https://www.instagram.com/p/B39KNqCBtvq/

’کوئی بھی مشکوک قابلیت والے ڈاکٹر کے پاس نہیں جانا چاہتا‘

وزیرِ اعظم عمران خان کے معاونِ خصوصی برائے قومی صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے بدھ کے روز اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ 1962 میں پی ایم ڈی سی قائم کیا گیا جس میں اصلاحات لانے کی کئی کوششیں کی گئیں، جبکہ اسی سال 2019 میں پی ایم ڈی سی آرڈیننس جاری کیا تھا جو کہ قائم نہ رہ سکا۔

ان کا کہنا تھا کہ میڈیکل ٹریبونل آرڈیننس اور پاکستان میڈیکل کمیشن آرڈیننس میڈیکل کے ذریعے طبی پروفیشن، طبی تعلیم کے معیار، لائسنسنگ اور اس سب پر عملدرآمد زیادہ بہتر انداز میں ہو سکے گا۔

ڈاکٹر مرزا کا کہنا تھا کہ حکومت پر یہ ذمہ داری ہے کہ چونکہ بہت زیادہ میڈیکل کالجز کھل گئے ہیں، اس لیے ڈاکٹروں کی تربیت اور کچھ میڈیکل معیارات کو یقینی بنائے کیونکہ ’کوئی بھی نہیں چاہتا کہ وہ کسی ایسے ڈاکٹر کے پاس جائے جس کی تعلیم اور قابلیت کے بارے میں شکوک و شبہات ہوں۔‘

این ایل ای امتحان کے بارے میں انھوں نے کہا کہ پاکستان کے طبی شعبے میں لائسنسنگ کا تصور نیا ہے مگر پاکستان میں ہی دیگر کئی شعبوں، مثلاً ایئرلائن پائلٹس کے لیے ضروری ہے کہ نہ صرف وہ اپنی تعلیم کے آخر میں لائسنس حاصل کریں بلکہ اس کی تجدید بھی کروائیں کیونکہ ان دونوں شعبوں (طب اور ہوا بازی) کا لوگوں کی زندگیوں سے تعلق ہے۔

انھوں نے میڈیکل کالجز کے حوالے سے کہا کہ ’اگر آپ کے طلبا نیشنل لائسنسنگ کا امتحان پاس کر سکتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ انھیں اچھی تعلیم دے رہے ہیں۔ اگر وہ پاس نہیں کر پاتے تو آپ کو اپنے اداروں میں دوبارہ سرمایہ کاری کی ضرورت ہے تاکہ ان کی تعلیم و تربیت بہتر کی جا سکے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو یہ آرڈیننس اس لیے متعارف کروانا پڑا کیونکہ گذشتہ آرڈیننس کے زائد المیعاد ہونے کی وجہ سے میڈیکل کے شعبے میں نئے داخل ہونے والے طلبا کا کریئر داؤ پر لگ سکتا تھا مگر حکومت اسے جلد ہی پارلیمنٹ میں متعارف کروانے کا ارادہ رکھتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32541 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp