کراچی: محکمہ انسدادِ تجاوزات نے رکشے کیوں کچلے؟


رکشہ

اسلام شاہ کے مطابق انھوں نے رکشہ فٹ پاتھ پر اس لیے کھڑا کیا تھا کیونکہ سامنے جاننے والوں کی دکانیں تھی

40 سالہ اسلام شاہ منگل کو گلشن اقبال میں واقعے نجی ہسپتال میں والد کی تیمارداری میں مصروف تھے۔ رات جب وہ پٹیل پاڑہ میں واقع اپنے گھر پہنچے تو لوگوں اور میڈیا کا ہجوم گھر کے قریب موجود تھا۔

وہاں بہت سے آٹو رکشے ایک ملبے کے ڈھیر کا منظر پیش کر رہے تھے اور اس ڈھیر میں ان کا رکشہ بھی شامل تھا۔

کراچی میونسپل کارپوریشن کے محکمہ انسدادِ تجاوزات نے منگل کی دوپہر کو بزنس ریکاڈر روڈ پر کم از کم چھ آٹو رکشوں کو کرین کی مدد سے کچل دیا تھا اور اس واقعے کی ویڈیو منگل کی شب سے سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔

یہ بھی پڑھیے

کراچی کی ایمپریس مارکیٹ، کل اور آج

تجاوزات: جائز اور ناجائز

تجاوزات اور قبضے، نتیجہ کراچی زیر آب

کراچی سرکلر ریلوے کی راہ میں تجاوزات رکاوٹ

مانسہرہ سے تعلق رکھنے والے اسلام شاہ کے والد کا ہفتے کو گردے کا آپریشن ہوا تھا، ان کی رہائش پٹیل پاڑہ میں ہے جہاں وہ پانچ ہزار روپے ماہانہ کرائے پر رہتے ہیں۔

اسلام شاہ کے مطابق انھوں نے رکشہ فٹ پاتھ پر اس لیے کھڑا کیا تھا کیونکہ سامنے جاننے والوں کی دکانیں تھیں، رکشے کے تحفظ کے مدِنظر انھوں نے رکشہ وہاں چھوڑا اور والد کی تیماری داری کو چلے گئے۔

ابتدا میں اسلام شاہ رکشہ اور گاڑیاں دھونے کا کام کرتے تھے مگر سنہ 2010 میں انھوں نے قسطوں پر دو لاکھ ستر ہزار میں یہ رکشہ خرید لیا جس سے انھیں روزانہ ہزار سے بارہ سو روپے آمدن ہو جاتی تھی۔

وہ صبح نو بجے سے رات دس بجے تک رکشہ چلاتے تھے، اسلام شاہ کے مطابق اب انھیں گزر اوقات کے لیے پانچ سو روپے دہاڑی پر رکشہ چلانا ہو گا۔

اسلام شاہ

ابتدا میں اسلام شاہ رکشہ اور گاڑیاں دھونے کا کام کرتے تھے مگر سنہ 2010 میں انھوں نے قسطوں پر دو لاکھ ستر ہزار میں یہ رکشہ خرید لیا

بزنس ریکارڈر روڈ پر رکشہ کے شو رومز اور آٹو پارٹس کی دکانیں موجود ہیں جو تین ہٹی سے شروع ہوتی ہیں اور لسبیلہ تک پھیلی ہوئی ہیں۔ یہاں صرف رکشہ کے شو رومز کی تعداد 300 کے قریب ہے۔

سڑک کے دونوں اطراف گاڑیوں کی ورکشاپس بھی وجود ہیں جہاں رکشوں کی قطاریں لگی رہتی ہیں جس کی وجہ سے سڑک تنگ ہو جاتی ہے اور ٹریفک جام رہتا ہے۔

ایم اے جناح روڈ سے ناظم آباد، نیو کراچی، حیدری وغیرہ جانے کے لیے زیادہ تر اسی سڑک کا استعمال کیا جاتا ہے اور اسی پر گرین لائین کے لیے فلائی اوور بنایا گیا ہے۔ پہلے یہاں پر چھوٹا فٹ پاتھ تھا جو اب وسیع ہو گیا ہے۔

محسن زئی کے شوروم کے پاس ہوئے آپریشن میں دو رکشہ متاثر ہوئے ہیں جو اب قابل مرمت نہیں رہے۔ محسن زئی کا کہنا تھا کہ قانونی طریقہ تو یہ تھا کہ انھیں پہلے نوٹس دیا جاتا یا یہ ضبط کر لیے جاتے۔

’اس طرح کارروائی کرنا غیر قانونی اور غیر اخلاقی اقدام ہے‘۔ بقول ان کے انھیں دو لاکھ روپے کا نقصان ہوا ہے۔

محمد الیاس میمن بھی گذشتہ 15 برسوں سے آٹو رکشہ کی خرید و فروخت کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ شہر کے دیگر علاقوں میں تو کارروائیاں ہوتی رہی ہیں لیکن یہاں پر ایسا کبھی نہیں دیکھا، ان کے دو آٹو رکشے اس واقعے میں تباہ ہوئے ہیں۔

کارروائی سے لوگ ’خوش‘ بھی

میونسیپل کی اس کارروائی پر بعض مقامی رہائشی خوش بھی ہیں۔ ان میں جہانزیب حسن زئی بھی شامل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’فٹ پاتھ پر تجاوزات آمدورفت میں بڑی رکاوٹ ہیں، سکول کے بچے سڑک کراس نہیں کر سکتے جبکہ رکشہ کے قریب بیٹھ کر مستری اور ڈرائیور حضرات بعض اوقات پیشاب کرتے ہیں جس کی وجہ سے بدبو بھی پھیل جاتی ہے‘۔

رکشہ

ان کا کہنا ہے ’مسجد کے پیش امام بھی اپنے خطبوں میں یہاں کے دکانداروں کو تاکید کرتے رہے ہیں کہ راستہ صاف رکھیں، رکاوٹیں نہ کریں لیکن یہ لوگ نہیں مانتے، سڑک پر قبضہ کیا ہوا ہے‘۔

پٹیل پاڑہ سے منتخب تحریک انصاف کے رکن صوبائی اسمبلی جمال صدیقی نے متاثرین سے ملاقات کی ہے۔ اس موقعے پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ منقولہ ملکیت تھی جس کو قبضہ میں لیا جا سکتا تھا اور جرمانہ عائد کیا جا سکتا تھا یہ کوئی دکان یا مکان نہیں تھا جس کو گرایا جائے۔

’جن لوگوں سے حکام کی انڈر سٹینڈنگ ہو جاتی ہے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی صرف غریبوں پر ظلم کیا جا رہا ہے۔ ایم کیو ایم ہماری اتحادی جماعت ہے، میں میئر وسیم اختر کو متنبہ کرتا ہوں کہ آئندہ میرے حلقے میں ایسی کارروائی ہوئی تو لوگ کے ایم سی عملے کا گھیراؤ کریں گے۔‘

محکمہ انسداد تجاوزات کا ردعمل

دوسری جانب محکمہ انسداد تجاوزات کے انچارج بشیر صدیقی کا کہنا ہے کہ ’جب آپریشن شروع ہوا تو پولیس اور ڈی ایس پی ٹریفک بھی عملے کے ساتھ تھے، انھوں نے پہلے اعلانات کیے کہ اپنی اشیا اٹھالیں جب نہیں اٹھائی گئیں تو ظاہر سی بات ہے کارروائی کی گئی کیونکہ انھیں چھ ماہ سے نوٹس دیے ہوئے تھے۔

’رکشے مسمار نہیں کیے وہ رکشےجو ناکارہ تھے جن میں انجن یا سیٹیں کچھ بھی نہیں تھا صرف ڈھانچہ تھا، انھیں مسمار کیا گیا ہے۔‘

کراچی میں عدالت غیر قانونی تجاوزات کے خلاف کارروائی کا حکم دے چکی ہے، جس کے تحت ایمپریس مارکیٹ اور گارڈن سمیت متعدد علاقوں میں کئی سو دکانیں بھی منہدم کی گئی ہیں، حال ہی میں کچی آبادیوں میں قائم تین منزلہ عمارتوں کے خلاف کارروائی کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32494 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp