جھوٹے مقدمات کو روکنے میں پاکستان کا قانون کتنا موثر؟


پاکستان

پاکستان میں ایسے ہزاروں مقدمات ہیں جن میں ملزمان سالہا سال جیلوں میں گزارتے ہیں اور اس کے بعد اعلیٰ عدلیہ اُن مقدمات میں شواہد کی عدم موجودگی کی وجہ سے ملزمان کو بری کر دیتی ہیں۔

توہین مذہب کے مقدمات کی ہی مثال لے لیں تو حال ہی میں سپریم کورٹ نے ایک ملزم وجیہہ الاحسن کو رہا کیا ہے جو گذشتہ 20 سال سے جیل میں قید تھا۔ اس کے علاوہ گذشتہ برس توہین مذہب کے مقدمے میں رہائی پانے والی آسیہ بی بی کو بھی نو سال بعد آزادی ملی۔

ان دنوں مقدمات کے مدعیوں کے خلاف ابھی تک ریاست کی طرف سے کوئی کارروائی نہیں ہوسکی۔

ایک مقدمے کے مدعی خود وکیل ہیں جبکہ دوسرے مقدمے کے مدعی مقامی مسجد کے امام ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ ان دونوں مقدمات کے مدعیوں کا تعلق ایسے شعبوں سے ہے جن کے خلاف کارروائی کرنا شاید کسی بھی حکومت کے بس کی بات نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیے

آسیہ بی بی کو کیوں بری کیا گیا؟

بیوی زندہ مگر شوہر قتل کے الزام میں جیل میں

’میں بہت خوش ہوں کہ شاہ زیب جیلانی آزاد ہیں‘

جو افراد جھوٹے مقدمات میں اپنی زندگی کا ایک حصہ جیلوں میں گزار دیتے ہیں تو پاکستان کی کوئی بھی عدالت یا کوئی بھی قانون جیل میں گزاری جانے والی اس مدت کا ازالہ نہیں کرسکتا۔

تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا پاکستان میں ایسا کوئی قانون موجود ہے جس کے تحت جھوٹے مقدمات درج کروانے والوں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جاسکے۔

پاکستان

ایسا مقدمہ جس میں کسی ملزم کو مقامی عدالت نے موت کی سزا سنائی ہو یا سزا ہوسکتی ہو اور مقامی عدالت یا اعلیٰ عدالتوں نے اُنھیں ان الزامات سے بری کردیا گیا ہو تو ایسے مقدمے کے مدعی کو سات سال قید کی سزا ہے

تعزیرات پاکستان کی شق 182

تعزیرات پاکستان کی ایک شق 182 ہے جو کہ غلط مقدمہ درج کروانے سے متعلق ہے، یعنی اگر کسی نے اپنے کسی مخالف کے خلاف مقدمہ درج کروایا ہے اور عدالت میں یہ مقدمہ ثابت نہیں ہوا تو مدعیِ مقدمہ کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔

پاکستان کی ماتحت عدلیہ کی تاریخ میں دو درجن سے زیادہ سنگین نوعیت کے مقدمات ایسے ہیں جن میں جھوٹا مقدمہ درج کروانے پر مدعی مقدمہ کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی گئی ہے لیکن اس میں کسی بھی شخص کو تین ماہ سے زیادہ سزا نہیں سنائی گئی۔

یہ وہ مقدمات ہیں جن میں ماتحت عدالتوں نے ملزم کو سزائے موت یا عمر قید کی سزا سنائی اور اعلیٰ عدلیہ نے ملزموں کو ان الزامات سے بری کر دیا۔

دفعہ 182 کے تحت کارروائی کیسے عمل میں لائی جاتی ہے؟

قانون میں اس شق کی تشریح کچھ اس طرح کی گئی ہے کہ اگر کوئی شخص کسی سرکاری ملازم کو کسی کے خلاف کوئی معلومات دے اور وہ سرکاری ملازم اس شخص کے خلاف اپنے اختیارات استعمال کرے اور بعدازاں یہ اطلاع جھوٹی ثابت ہو تو اس شکایت کرنے والے کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

ضابطہ فوجداری کی دفعہ 154 کے تحت پولیس مقدمے کا اندراج کرنے کی پابند ہے اور مقدمے کے اندراج کے بعد پولیس تفتیش کرنے کی پابند ہے۔

اگر پولیس کسی وجہ سے کسی شخص کی درخواست پر مقدمہ درج نہ کرے تو ضابطہ فوجداری کی دفعہ 22 اے کے تحت عدالت میں درخواست دائر کی جاسکتی ہے اور عدالتی حکم پر پولیس مقدمہ درج کرنے کی پابند ہے۔

جیل

جو افراد جھوٹے مقدمات میں اپنی زندگی کا ایک حصہ جیلوں میں گزار دیتے ہیں تو پاکستان کی کوئی بھی عدالت یا کوئی بھی قانون جیل میں گزاری جانے والی اس مدت کا ازالہ نہیں کرسکتا

مقدمہ درج ہونے کے بعد ملزم کے خلاف تفتیش کا عمل شروع کیا جاتا ہے اور تفتیش کے بعد مقدمہ عدالتوں میں زیر سماعت ہوتا ہے۔ اگر عدالت ملزم کو بری کردیتی ہے اور ملزم پر لگائے گئے الزامات جھوٹے ثابت ہوتے ہیں تو قانون کے مطابق اس مقدمے کا تفتیشی پولیس افسر مدعیِ مقدمہ کے خلاف کارروائی کے لیے ایک قلندرہ بنا کر علاقہ مجسٹریٹ کی عدالت میں بھجوا دیتا ہے۔

علاقہ مجسٹریٹ اس بارے میں شکایت کندہ کو نوٹس جاری کرتا ہے اور بعدازاں فرد جرم عائد ہونے کے بعد اُنھیں اس سزا سنائی جاتی ہے۔ دفعہ 30 کے مجسٹریٹ کے پاس زیادہ سے زیادہ تین ماہ کی سزا دینے کا اختیار ہے۔

قانون میں اس بات کا بھی ذکر ہے کہ ایسا مقدمہ جس میں کسی ملزم کو مقامی عدالت نے موت کی سزا سنائی ہو یا سزا ہوسکتی ہو اور مقامی عدالت یا اعلیٰ عدالتوں نے اُنھیں ان الزامات سے بری کردیا گیا ہو تو ایسے مقدمے کے مدعی کو سات سال قید کی سزا ہے جبکہ ایسا مقدمہ جس میں کسی شخص کو عمر قید کی سزا سنائی گئی ہو یا ہوسکتی تو ایسے مدعیِ مقدمہ کو پانچ سال کے لیے جیل جانا ہوگا۔

ضابطہ فوجداری میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر کسی بھی درخواست پر تفتیش کرنے کے بعد مقدمہ درج کیا گیا ہو تو پھر ضابطہ فوجداری کی دفعہ 182 کا اطلاق نہیں ہوگا۔

قانون کے مطابق یہ ایک قابل ضمانت جرم ہے جبکہ قابل راضی نامہ نہیں ہے۔

کیا قانون میں ملزم کی داد رسی کا اور بھی کوئی طریقہ ہے؟

فوجداری مقدمات کی پیروی کرنے والے افتخار شیروانی کا کہنا ہے کہ کسی بھی مقدمے اور بلخصوص توہین مذہب کے جھوٹے مقدمات کے خلاف کارروائی ضابطہ فوجداری کی دفعہ 194 کے تحت بھی عمل میں لائی جاتی ہے جس میں زیادہ سے زیادہ سزا 7سال ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ اگر علاقہ مجسٹریٹ پولیس کی جانب سے بھیجے گئے قلندرے پر کارروائی کرے تو وہ شخص جس نے جھوٹا مقدمہ درج کروایا ہو وہ اس مجسٹریٹ کے دائرہ اختیار کو چیلنج کردیتا ہے اور اس طرح یہ معاملہ لٹک جاتا ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ اگر توہین مذہب کے مقدمے میں کوئی شخص سالہا سال جیل میں رہتا ہے اور پھر اعلیٰ عدالتوں سے بری ہو جاتا ہے تو پاکستان کے قانون میں اس کے مداوے کے لیے ضابطہ فوجداری کی دفعہ 182 کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے۔

افتخار شیروانی کا کہنا تھا کہ اگر کسی شخص پر لگایا گیا الزام جھوٹا ثابت ہو جائے اور پانچ، دس سال اسی مقدمے میں جیل میں بھی گزار کر آئے تو اس کے مداوے کے لیے ریاست کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔

وکیل

ملک میں ایسا کوئی قانون نہیں ہے جس میں ماتحت عدلیہ کے کسی جج کے خلاف اس کے فیصلے سے متعلق اس کا مواخذہ کیا جائے

اُنھوں نے کہا کہ ایسا شخص اپنے مداوے کے لیے جھوٹی ایف آئی آر درج کروانے والے شخص کے خلاف سول عدالت میں ہتک عزت کا دعویٰ دائر کرسکتا ہے اور ایسے مقدمات پر فیصلے آنے میں دہائیاں لگ جاتی ہیں۔

پنجاب پولیس کے سابق ایس پی چوہدری سلمان کا کہنا ہے کہ عمومی طور پر تفتیشی افسران ایسے مقدمات میں جن میں الزام ثابت نہ سکا ہو مدعی مقدمہ کے خلاف علاقہ مجسٹریٹ کو قلندرہ نہیں بھجواتے۔

نہ ہی الزام بھگتنے والے اس بارے میں تفتیشی افسر کو کہتے ہیں چونکہ ان کے خلاف لگائے گئے الزامات جھوٹے ثابت ہوئے ہیں اس لیے مدعی مقدمہ کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے۔

اُنھوں نے کہا کہ تفتیشی افسر کے علاوہ پولیس افسران بھی اس جانب توجہ نہیں دیتے کہ جھوٹے مقدمات کے اندراج کے رجحان کو روکنا چاہیے۔

اسلام آباد پولیس کے تفتیشی افسر توقیر حسین کے مطابق ایک تفتیشی افسر کے پاس 40، 50 مقدمات کی تفتیش ہوتی ہے تو ایسے حالات میں وہ بمشکل مقدمے کے فیصلے سے آگاہ ہوتے ہیں اور نہ ہی ان کے پاس اتنا وقت ہوتا کہ قلندہ بھجوایا جائے۔ اُنھوں نے کہا کہ قلندرہ بھجوانے کے لیے متعقلہ عدالت کی طرف سے بھی اس ضمن میں نوٹس نہیں بجھوایا جاتا۔

اُنھوں نے کہا کہ ایک مقدمے کا فیصلہ آنے میں کم از کم چار سے پانچ سال کا عرصہ لگ جاتا ہے اور اس عرصے میں تفتیشی افسران کی ان تھانوں سے ٹرانسفر بھی ہوچکی ہوتی ہیں جہاں پر اُنھوں نے مقدمہ درج کیا تھا۔

پاکستان

پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں رمشا مسیح پر توہین مذہب کا مقدمہ اسلام آباد کی ایک مقامی مسجد کے خطیب حافظ محمد خالد نے اگست 2012 میں درج کروایا تھا تاہم رمشا مسیح کے کمسن ہونے اور شواہد نہ ہونے کی بنا پر اسے تو بری کر دیا گیا

اسلام آباد پولیس کی حالیہ تاریخ میں صرف ایک ایسا مقدمہ ہے جس میں مدعیِ مقدمہ کے خلاف کارروائی عمل میں لائی گئی ہے اور وہ مقدمہ کمسن مسیحی خاتون رمشا مسیح کے خلاف توہین مذہب کا مقدمہ تھا۔

سابق حکمراں جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں رمشا مسیح پر توہین مذہب کا مقدمہ اسلام آباد کی ایک مقامی مسجد کے خطیب حافظ محمد خالد نے اگست 2012 میں درج کروایا تھا تاہم رمشا مسیح کے کمسن ہونے اور شواہد نہ ہونے کی بنا پر اسے تو بری کردیا گیا۔ مقامی پولیس نے ڈپٹی کمشنر کی ہدایت پر مدعی مقدمہ کے خلاف قانونی کارروائی کرتے ہوئے اسے تین ماہ کے لیے جیل بھیج دیا۔

عمومی طور پر توہین مذہب کا مقدمہ ڈپٹی کمشنر کی مدعیت میں درج کروایا جاتا ہے لیکن پاکستان میں ایسے مقدمات کی تعداد زیادہ ہے جس کا مدعی کوئی سرکاری افسر نہیں بلکہ کوئی عام شخص ہے۔

ماہر قانون الیاس صدیقی کہتے ہیں کہ جھوٹے مقدمات کی حوصلہ شکنی کے لیے بنائے گئے قانون کے غیر موثر ہونے کی وجہ سے لوگوں کو جھوٹے مقدمات میں پھنسا کر جائیدادوں میں قبضہ کرنے کے واقعات میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ راولپنڈی میں ایک مقامی مسجد کے امام نے ایک شخص پر توہین مذہب کا مقدمہ درج کروایا جو آج بھی اڈیالہ جیل میں قید ہے جبکہ اس کے گھر والے خوف کے مارے بیرون ملک چلے گئے اور اس کی غیر موجودگی میں اس کی کروڑوں روپے کی جائیداد پر قبضہ کرلیا گیا ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ اسلام آباد میں جتنی بھی پرائیویٹ ہاوسنگ سوسائٹیاں ہیں ان میں بہت سے رقبے مخالفین کو پولیس کی مدد سے جھوٹے مقدمات میں پھنسا کر جائیدادوں پر قبضہ کر کے حاصل کیے جاتے ہیں اور پھر جھوٹے مقدمے کی آڑھ میں ملزموں کے ساتھ معاملات طے کرکے زمین اونے پونے داموں خرید لی جاتی ہے۔

جھوٹے مقدمہ پر سزا دینے والے جج کے خلاف کارروائی ممکن ہے؟

لاہور ہائی کورٹ کے سابق جج شاہ خاور کا کہنا ہے کہ ملک میں ایسا کوئی قانون نہیں ہے جس میں ماتحت عدلیہ کے کسی جج کے خلاف اس کے فیصلے سے متعلق اس کا مواخذہ کیا جائے۔

اُنھوں نے کہا کہ اگر ماتحت عدلیہ کا کوئی جج کسی مقدمے میں غلط فیصلہ کرتا ہے تو ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ اس فیصلے کو کالعدم قرار دینے کی مجاز ہیں۔

اُنھوں نے کہا کہ کسی بھی ماتحت عدلیہ کے جج کو غلط فیصلہ دینے کی بنا پر اس کے عہدے سے نہیں ہٹایا جاسکتا۔

شاہ خاور نے سلمان تاثیر قتل کے مقدمے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے مجرم ممتاز قادری کے خلاف درج مقدمے میں انسداد دہشت گردی کی دفعات کو ختم کردیا تھا تاہم سپریم کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے ریمارکس میں عدالت کے اس فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور ممتاز قادری کے خلاف مقدمے میں انسداد دہشت گردی کی دفعات کو برقرار رکھا تھا لیکن جسٹس شوکت صدیقی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں گئی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32297 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp