معیشت کی بہتری: تحریک انصاف کے دعووں کی حقیقت کیا ہے؟


روپے

ورلڈ بینک کے مطابق پاکaتان کی معیشت موجودہ سال میں صرف 3.4 فیصد سے بڑھے گی اور اگلے سال تک صرف 2.7 فیصد سے

تحریک انصاف کی حکومت دعویٰ کر رہی ہے کہ معیشت اب بہتری کی طرف گامزن ہے۔ گذشتہ ہفتے وزیر اعظم عمران کے ایک ٹویٹ کے بعد وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سمیت سوشل میڈیا پر حکومتی وزرا اور ترجمان اپنی حکومت کی معاشی کارکردگی کو حوصلہ افزا قرار دے رہے ہیں۔

عمران خان نے اپنے ٹویٹ میں دعویٰ کیا کہ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، جس سے تجارتی خسارہ تیزی سے کم ہوا ہے۔

عمران خان کے مطابق پاکستان کی درآمدات میں کمی جبکہ برآمدات اور ترسیلات زر میں اضافہ ہوا ہے۔

https://twitter.com/ImranKhanPTI/status/1185272783598739457

یہ بھی پڑھیے

’پیسہ ہے مگر حکومت تک نہیں پہنچ رہا‘

پاکستان کی عوام پر بیمار معیشت کا کتنا بوجھ ہے؟

نئے پاکستان پر قرض، واجبات کے بوجھ کا نیا ریکارڈ

بہتری کن شعبوں میں آئی؟

حکومت کے مطابق پاکستان میں برآمدات میں 5.9 فیصد اضافہ جبکہ درآمدات میں 18.6 فیصد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ اس سال ستمبر کے مہینے میں ترسیلات زر میں 17.6 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ اس بہتری سے ’کرنٹ اکاؤنٹس ڈیفیسٹس‘ یعنی رواں کھاتوں کا خسارے میں کمی آئی ہے۔

معاشی امور کے ماہرین اس دعوے کو تسلیم کرتے ہیں کہ حکومت نے ‘جاری کھاتوں کا خسارہ’ کم کرنے میں کامیاب ملی ہے۔ یہ کامیابی ترسیلات زر اور برآمدات میں اضافے جبکہ درآمدات میں کمی کی صورت میں ملی ہے۔

جہاں حکومت نے دیگر کچھ شعبوں میں اپنی کارکردگی بہتر بنائی ہے تو وہیں پیداواری شعبے میں بھی کچھ سیکٹرز میں بہتری آئی ہے جہاں گذشتہ سال کے مقابلے میں پیداوار میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

پاکستان کے ادارہ شماریات کے اعداوشمار کے مطابق جولائی، اگست 2019 میں فرٹیلائزر سیکٹر کی پیداوار میں 16 فیصد جبکہ الیکٹرانکس کی پیداوار میں 37 اعشاریہ 85 فیصد اضافہ ہوا۔ اسی طرح انجینئرنگ مصنوعات کی پیداوار میں 23 اعشاریہ 33 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔

عام آدمی پر اس کے کیا اثرات ہو سکتے ہیں؟

معاشی امور کے ماہر ثاقب شیرانی نے بی بی سی کو بتایا کہ وزیر اعظم عمران خان اور ان کی حکومت کے دعوے کسی حد تک درست ہیں لیکن جہاں بہتری دیکھنے میں آئی ہے وہ معیشت کا ایک محدود حصہ ہی بنتا ہے۔

ثاقب شیرانی کا کہنا ہے کہ یہ ایسی مدات ہیں کہ جن کا عام آدمی سے براہ راست تعلق نہیں بنتا کیونکہ نہ تو اب حکومت اس سے کوئی نیا کاروبار یا ملازمتوں کے مواقع پیدا کرسکتی ہے اور نہ ہی کسی قسم کی کوئی اور رعایت دے سکتی ہے۔

ان کے خیال میں اصل بہتری تو تب ممکن ہو گی جب ’ریئل سیکٹر اکانومی‘ یعنی پیداواری شعبے میں کوئی بہتری آئے گی جس کے ثمرات عام عوام تک منتقل ہوں گے۔

پیداواری شعبے کی کارکردگی پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ملک میں فیکٹریاں بند ہو رہی ہیں، کاروبار ٹھپ ہو رہے ہیں، روزگار کے نئے مواقع پیدا نہیں ہو رہے ہیں جبکہ حالات زیادہ خراب ہو رہے ہیں۔

’حکومت کا ان امور میں (پیداواری شعبے) دخل زیادہ نہیں ہے اور اب آئی ایم ایف کی وجہ سے مزید خرابی واقع ہو سکتی ہے کیونکہ اس پروگرام میں شرح پیداوار میں اضافے کے امکانات زیادہ نہیں ہوتے ہیں۔‘

پیداوری شعبہ کہاں کھڑا ہے؟

ماہرین کا کہنا کہ ملک میں لارج اسکیل مینوفیکچرنگ انڈسٹریزیعنی پیداواری شعبہ مسلسل انحطاط کا شکار ہے۔ ثاقب شیرانی کا کہنا ہے کہ فیکٹریاں بند ہو رہی ہیں، بیروزگاری میں اضافہ ہورہا ہے یعنی پیداواری شعبہ ابھی تنزلی کی طرف گامزن ہے۔

ان کے خیال میں آئی ایم ایف پلان کے ہوتے ہوئے پیداوار کو نہیں بڑھایا جا سکتا ہے۔

سرکاری اعداوشمار

سرکاری اعدادوشمار کے مطابق جولائی اور اگست 2019 میں ایل ایس ایم آئی کی پیداوار میں 6 اعشاریہ 4 فیصد کمی ہوئی۔ خیال رہے کہ یہ کمی گذشتہ سال جولائی، اگست 2018 کے مقابلے میں ریکارڈ کی گئی ہے۔

گذشتہ سال مارچ میں 182 فیصد سے زائد لارج اسکیل مینوفکریکچرنگ پروڈکشن میں اضافہ ہوا تھا جبکہ اگست 2019 تک لارج سکیل مینوفیکچرنگ کی پیداور میں 7 اعشاریہ 6 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔

ان اعدادو شمار کے مطابق آٹوموبیل سیکٹر کی پیداوار 30 اعشاریہ 26 فیصد گر گئی۔

پاکستان کے ادارہ شماریات کے مطابق ادویات سازی کے شعبے کی پیداور 14 اعشاریہ 36 فیصد، آئرن اور اسٹیل سیکٹر کی پیداوار 16 اعشاریہ 58 فیصد، مشروبات اور تمباکو کے شعبے کی پیداوار 12 اعشاریہ 62 فیصد، کوک اور پیٹرولیم سیکٹر کی پیداوار میں 17 اعشاریہ 77 فیصد کی کمی دیکھنے میں آئی۔

اسی طرح کیمیکلز سیکٹر کی پیداوار میں 8 اعشاریہ 30 فیصد جبکہ لکڑی کی مصنوعات کی پیداور میں 32 اعشاریہ 97 فئصد کمی ہوئی۔ یہ کمی جولائی، اگست 2018 کے مقابلہ میں ریکارڈ کی گئی یعنی یہ ایک سال بعد کے نتائج ہیں۔

’معاشی استحکام کے لیے عرصہ اہم ہوتا ہے‘

’پاکستان انسٹیٹیویٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس‘ کے ڈاکٹر غلام صمد نے بی بی سی کو بتایا کہ معاشی استحکام کے لیے عرصہ اہمیت رکھتا ہے۔ ان کے خیال میں بعض دفعہ کچھ سیکٹرز میں اعشاریے اچھے ہوجاتے ہیں لیکن ان میں استحکام رکھنا بڑا چیلنج ہوتا ہے۔

ان کے خیال میں حکومت کو رواں کھاتوں اور کسی حد پیداواری شعبے میں جو بہتری نظر آ رہی ہے اس کی وجہ روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے درآمدات کا کم ہو جانا بھی ہے۔

ڈاکٹر صمد کا کہنا ہے مانیٹری پالیسی کی کارکردگی جانچنے کے لیے سال سے ڈیڑھ سال کے عرصے کے اعداوشمار کو دیکھا جاتا ہے اور پھر اس میں استحکام کو یقینی بنانا ہوتا ہے۔

ان کے خیال میں ابھی حکومت کے سامنے ریئل سیکٹر اکانومی کے بڑے بڑے چیلنجز ہیں جہاں مینوفیکچرنگ، کنسٹرکشن، آٹو موبیل اور سٹیل انڈسٹری کے شعبوں میں استحکام درکار ہے، جو اس وقت تسلی بخش حالت میں نہیں ہیں۔

’معیشت کی خرابی گذشتہ حکومت کے پانچ برس میں ہوئی‘

وزیر اعظم عمران خان کے علاوہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی خارجہ امور سے کچھ وقت نکال کر خزانے میں ہونے والی ’بہتری‘ کا جائزہ پیش کیا ہے۔

https://twitter.com/SMQureshiPTI/status/1186018151450009600

ان کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کو ورثے میں جو معیشت ملی وہ زبوں حالی کا شکار تھی اور دعویٰ ہے کہ اس کے باوجود موجودہ حکومت اس میں بہتری لے کر آئی ہے۔

ڈاکٹر صمد وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے اس موقف سے متفق نظر آتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت کو ایک ’فریجائل اکانومی‘ ملی جس پر ابھی بہت کام ہونا ہے۔

ثاقب شیرانی کا کہنا ہے کہ معیشت کی سب سے زیادہ خرابی گذشتہ حکومت کے پانچ برس میں ہوئی ہے۔

’ہم خرابیوں کی نشاندہی کرتے آئے ہیں لیکن ان پر توجہ نہیں دی گئی اور تحریک انصاف کی حکومت کو انتہائی تباہ حال معیشت ملی۔‘

یہ بھی پڑھیے

پیپلز پارٹی، مسلم لیگ کی حکومتوں نے کتنا قرضہ لیا؟

تحریکِ انصاف: پہلے سال کی بڑی کامیابیاں اور ناکامیاں

تحریکِ انصاف کی حکومت کے 100 دن، کیا کھویا کیا پایا

’وسیع پیمانے پر تبدیلیاں درکار ہیں‘

پلاننگ کمیشن کے سابق ڈپٹی چیئرمین اور پاکستان انسٹیٹیویٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کے سربراہ ڈاکٹر ندیم الحق ان کامیابیوں کو معمولی قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اکانومی جتنی بھی خراب ہو کچھ نہ کچھ ریکوری تو ضرور ہوتی رہتی ہے لیکن معاشی سمت درست کرنے کے لیے اس شعبے میں وسیع پیمانے پر تبدیلیاں درکار ہیں۔

ان کے خیال میں ہر آنے والی حکومت گذشتہ حکومت کو معیشت کی خرابی کا سبب بتاتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ابھی تک ہم نے اپنی پالیسی، طریقہ کار اور اداروں کو ہی نہیں بدلا۔ میرے خیال میں انگریز جو معیشت اور جو ادارے چھوڑ گئے تھے ہم ان پر ہی چل رہے ہیں کچھ طویل عرصے کی پلاننگ نہیں کررہے ہیں۔

ثاقب شیرانی کے مطابق یہ حکومت ٹیکس کے شعبے میں سنجیدہ دکھائی دے رہی ہے اور کسی بھی حکومت سے زیادہ اس طرف توجہ دے رہی ہے۔

تجزیہ نگار قیصر بنگالی کہتے ہیں کہ ’جب میں بہتری کی باتیں سنتا ہوں تو مجھے ایسا لگتا ہے کہ جیسے میں کسی اور ملک کے بارے میں یہ سب سن رہا ہوں۔ ان کے خیال میں جسے عمران خان اپنی معاشی کارکردگی بتا رہے ہیں وہ کساد بازاری کی علامتیں ہیں‘۔

وزیر تجارت رزاق داؤد کے ایک میڈیا بیان کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’جو بہتری ہوئی ہے وہ درآمدات میں کمی کی وجہ سے ممکن ہو سکی ہے‘۔

قیصر بنگالی کے خیال میں ’حکومت ایسے دعوے آئی ایم ایف کو بتانے کے لیے کر رہی ہے لیکن وہ ہوم ورک کرکے آتے ہیں، اس طرح کی باتوں کا وہ زیادہ اثر نہیں لیتے‘۔

’معیشت میں برآمدات کا حجم دس فیصد سے بھی کم‘

ڈاکٹر صمد کے خیال میں اس وقت افراط زر ہے اور شرح پیداوار نیگیٹو میں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ترسیلات زر کا اکانومی میں بڑا اہم رول ہوتا ہے، ان میں اضافہ اکانومی میں بہتری کی نشاندہی کرتا ہے۔

وہ اس رائے سے متفق ہیں کہ جس وقت سرمایہ کار کو بے یقینی کی کیفیت سے باہر نہیں نکالا جاتا تو اس وقت تک معیشت میں بہتری کے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کیے جا سکتے۔

ثاقب شیرانی کا کہنا ہے کہ ’ابھی تک اکانومی میں ایکسپورٹ سیکٹر ہی سب سے اچھا ہے۔ لیکن یہ معیشت کا کل سات سے آٹھ فیصد تک بنتا ہے‘۔ ان کے خیال میں ’جس طرح کا بحران ہے، ابھی بہتری آنے میں وقت لگے گا‘۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32548 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp