نواز شریف صاحب، کچھ عقل کریں


سابق وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف کی صحت سے متعلق مبہم اطلاعات دم توڑ چکی ہیں۔ انہیں لاحق بیماری کی تشخیص کر لی گئی ہے لیکن آئی ٹی پی  نامی یہ بیماری اپنی نوعیت میں خاصی سنگین ہے اور اس کا علاج بھی کافی پیچیدہ۔ طبی ماہرین کے مطابق یہ بیماری انسانی جسم کی قوت مدافعت کو براہ راست متاثر کرتی ہے۔کہا یہ جارہا ہے کہ میاں نواز شریف کے خون میںپلیٹ لیٹس کی تعداد دوہزار تک رہ گئی تھی لیکن طب کی تاریخ میں یہ ایک انوکھا واقعہ ہے۔

 طبی ماہرین کے مطابق کسی بھی صحت مندانسان کے خون میں پلیٹ لیٹس کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے چارلاکھ تک ہونی چاہیے۔ اگر کسی بھی وجہ سے یہ تعداد تیس ہزار سے کم ہوجائے تو ڈاکٹر پلیٹ لیٹس مریض کے جسم میں داخل کرنا شروع کردیتے ہیں (جیسا کہ میاں نواز شریف کے ساتھ بھی کیا گیا)۔کسی بھی انسان کے خون میں پلیٹ لیٹس کی تعداد اگر بارہ یا دس ہزار تک گر جائے تو اس کے ناک،منہ، کان اور آنکھوں سے خون نکلنے لگتا ہے اور دماغ سے بھی خون نکلنے کا امکان ہوتا ہے جو کہ ظاہر ہے نظر نہیں آتا اور اس صورت میں مریض کی فوری موت واقع ہوجاتی ہے۔ اسی بنا پر میں یہ کہنے پر مجبور ہوں (مسلم لیگ ن کے ڈاکٹر سعید الہی نے دنیا ٹی وی پر اسے معجزہ قرار دیا ہے) کہ یہ طب کی دنیا کا ایک انوکھا واقعہ ہے۔ دوسرا امکان یہ ہے کہ پلیٹ لیٹس کی رپورٹ میں کسی غلطی کا امکان موجود ہو سکتا ہے۔ بہرحال زیر نظر تحریر میں یہ ہمارا موضوع نہیں ہے۔ قصہ مختصرتمام تر حالات اس بات کی دلیل ہیں کہ میاں صاحب کی طبیعت بہرحال تشویش ناک ہے۔

 اس سے پہلے سوموار کی رات بارہ بجے سے ٹیلی ویژن چینلز اور سوشل میڈیا پر بعض حلقوں کی طرف سے میاں نواز شریف کی بیماری سے متعلق جو رویہ اپنایا گیا وہ اس سے قطعاََ مختلف نہیں تھا جو محترمہ کلثوم نواز کی بیماری سے متعلق اپنایا گیاتھا۔بحیثیت قوم یہ ہمارے لئے انتہائی شرم کا مقام ہے۔ ڈاکٹر فردو س عاشق اعوان نے جو کچھ اس دوران فرمایا کاش وہ پاکستانی تاریخ میں ان کے نام سے منسوب نہ ہوتا لیکن ہونی کو کون روک سکتا ہے۔ ایک طرف تو صورتحال یہ تھی لیکن دوسری طرف اصل صورتحال کا علم ہوتے ہی اقتدار کے ایوانوں میں موجود بعض افراد کے ہاتھ پاو ¿ں حقیقتاََ پھول چکے تھے۔ وہ یہ سوچ کر ہی ہلکان ہورہے تھے کہ اگر سچ مچ میاں نواز شریف کو’کچھ‘ ہو گیا تو اس کے نتائج وہ کیسے بھگتیں گے ؟۔

اس دوران میاں نواز شریف کی صاحبزادی نے جو العزیزیہ کیس میں نیب کے زیر حراست ہیں عدالت سے درخواست کی کہ انہیں دوران حراست ہی جاںبلب والد سے صرف ایک گھنٹے کے لئے ملنے کی اجازت دی جائے لیکن آبدیدہ بیٹی کی یہ درخواست رد کر دی گئی۔ پھر چند ہی گھنٹوں بعد اسی مریم نواز کو جیل سے ہسپتال لانا پڑا۔ نہیںمعلوم پھر کیا جلدی ہوئی کہ علی الصبح اسی مریم نواز کو جیل واپس لے جایا گیا۔

یہ سطور تحریر کرتے وقت تک صورتحا ل یہ ہے کہ میاں نواز شریف کی طبی بنیادوں پر ضمانت کے لئے دائر کی گئی درخواست جو اعتراض لگا کر خارج کر دی گئی تھی اسلام آباد ہائی کورٹ نے نہ صر ف اسے منظور کر لیا ہے بلکہ اسے جمعہ کے دن سماعت کے لئے مقرر بھی کر دیاہے۔ ممکن ہے جب آپ یہ سطور پڑھ رہے ہوں تب تک میاں نواز شریف کی ضمانت منظور ہوچکی ہو اور وہ رہا بھی ہو چکے ہوں۔

لیکن میڈیا خبریں یہ دے رہا ہے کہ میاں نواز شریف اپنے علاج کے لئے ملک سے باہر جانے کو تیار نہیں اور مسلسل انکار کر رہے ہیں۔ ان کے ذہن میں شاید یہ ہے کہ اگر وہ ملک سے باہر گئے تو ان کے خلاف ڈیل کا تاثر ان کی سیاسی موت کا باعث بن جائے گا۔

یہاں میاں صاحب سے میری ایک گزارش ہے۔ میاں صاحب! اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ ایک آمر ضیاءالحق کے کندھوں پر بیٹھ کر مخصوص سیاسی اشرافیہ کا نمائندہ بن کر اقتدار میں پہنچے۔ انیس سو اٹھاسی تک آپ کاعوام سے اور عوام کا آپ سے اگر کوئی تعلق تھا بھی تو نہایت واجبی سا۔ نوے کی دہائی میں آپ کا عوام سے تعلق پیدا ہونا شروع ہوا لیکن آپ نے اور محترمہ بینظیر بھٹو نے نہ صرف جمہوریت کو بلکہ اس ملک کو بھی اپنی ذاتی انا کی لڑائی میں بہت نقصان پہنچایا۔

لیکن میاں صاحب آپ نے اس ملک اور قوم کے لئے کچھ اچھے کام بھی کئے۔آپ کا آمر مشرف کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہونا قوم کو پسند آیا۔ آپ نے محترمہ بینظیر بھٹو کے ساتھ مل کر چارٹر آف ڈیمو کریسی بھی کیا لیکن بدقسمتی سے اس پر بھی پوری طرح عمل نہ ہوسکا۔ پھر بھی کسی نہ کسی طرح آپ نے اورآپ کی حریف پیپلزپارٹی نے غلطیوں کے باوجود اس ملک میں دس برس تک جمہوریت کی گاڑی کو چلائے رکھا۔ آپ کی جماعت نے دوہزارتیرہ سے اٹھارہ تک جو کارکردگی دکھائی وہ یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ تاریخ کا حصہ بن چکی ہے۔

لیکن میاں صاحب آپ کے مخالفین آپ پر ایک الزام لگاتے ہیں کہ آپ میں عقل بالکل نہیں ہے اور یہ الزام مجھے آج سو فیصد سچ لگ رہا ہے۔ بھلا کیسے ؟آپ نے کبھی سر سری ہی سہی تاریخ کا مطالعہ کیا ہے؟ تو سنئے میں آپ کی خدمت میں عرض کرتا ہوں۔

اس ملک کا بانی، اس قوم کا باپ محمد علی جناح، جسے اس قوم نے قائد اعظم کا خطاب دیا تھا۔ ایک کھٹارہ ایمبولینس میں چند قطرے پٹرول کے انتظارہ میں ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر مر گیا لیکن آج تک کسی نے نہیں پوچھا کہ اس کا ذمہ دار کون تھا۔ قائد ملت لیاقت علی خان کو روالپنڈی میں گولی مارکر قتل کرنے کامعاملہ ہم نے اس خوبصورتی سے دبایا کہ اس جگہ کا نام ہی لیاقت باغ رکھ دیا۔ حسین شہید سہروری، خواجہ ناظم الدین اور خواجہ خیرالدین کا نام کیالینا یہ تو تھے ہی غدار بنگالی۔آپ نے دیکھا نہیں ہم نے خواجہ خیرالدین نے بیٹے پروفیسر ڈاکٹر خواجہ علقمہ کو کیسے ہتھکڑیاں لگا کر نیب کی جیل میں ٹھونسا؟۔

بھٹو جیسابھی تھا سیاسی رہنما تھا اور اس ملک کے لئے اس کی کچھ خدمات بھی تھیں لیکن اس کو عدالت کے ایک حکم پر پھانسی لگایا گیا۔آج اس ملک کی کوئی عدالت اس فیصلے کو ماننے کے لئے تیار نہیں، اس فیصلے کو غلط قرار دلوانے کے لئے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے والے بابر اعوان اب اس کیس کو شاید بھول چکے ہیں۔بھٹو کو بیٹی کو دن دیہاڑے کھوپڑی میں گولی مار کر قتل کیا گیا، جائے وقوعہ کو فورا دھوکر پاک صاف کر دیا گیا۔ پیپلزپارٹی پانچ برس اقتدار میں رہی لیکن آج بھی انصاف کی متلاشی ہے۔ بگٹی اور مینگل جیسے نام تو ہمارے حافظے میں ویسے ہی زیادہ دیر نہیں ٹھہرتے تاریخ میں کیسے محفوظ ہوں گے ؟۔

یہ تو ہوئے سیاستدان، اب ایک اور مخلوق کی بھی سنئے۔اس ملک میں ایوب خان نام کا ایک جرنیل تھا جوبانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی ہمشیرہ فاطمہ جناح کو بھارت کی ایجنٹ کہا کرتا تھا آپ کو یاد ہے اس کی قبر کو بھی سیلوٹ پیش کئے گئے تھے ؟وہی جس کا بیٹا آپ کی پارٹی کا سپیکر قومی اسمبلی اور پوتا وزیر تھا، جی ہاں وہی جو آج موجودہ حکومت میں وزیر ہے۔ پھر یحییٰ خان نامی ایک جرنیل نے پاکستان کو دو لخت کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ آپ کو کیا معلوم اس کی لاش بھی سبز ہلالی پرچم میں لپیٹ کر دفن کی گئی تھی۔ ضیاالحق کی آخری آرام گاہ تاریخ کا حصہ ہے اور اس کا بویا ہم آج بھی کاٹ رہے ہیں۔ وہی کبھی جس کا مشن آپ کا مشن تھا لیکن پھر آپ نے جمہور کو عزیز جانااوراس کی قبر پر جانا چھوڑ دیا۔ مشرف کو آپ کیسے بھول سکتے ہیں اور اس دن کو آپ کیسے بھول سکتے ہیں جب عدالت جاتے ہوئے اچانک اس کی کمر میں درد اٹھا اور اسے دل کے امراض کے ایک ہسپتال میں لے جایا گیا اور پھر عدالت نے اسے ملک سے باہر جانے کا پروانہ عطا کیا۔

 میاں صاحب آج آپ پر مشکل وقت ہے، آپ شدید بیمار ہیںڈاکٹرز نے شاید آپ کو ٹی وی اور اخبارت سے دور رکھا ہو۔ میں آپ کو دو تازہ ترین خبریں سناتا ہوں۔ پچھلے برس ساہیوال میں ایک بے گناہ انسان اپنی بیوی اور معصوم بیٹی سمیت دن دیہاڑے قانون نافذ کرنے والے ادارے کے اہلکاروں کے ہاتھوں مارا گیاتھا۔ اس واقعے کی ویڈیو بائیس کروڑ پاکستانیوں سمیت آپ نے بھی دیکھی ہوگی۔ وہی جس کے بارے میں وزیراعظم نے کہا تھا کہ ذمہ داروں کو عبرت ناک سزا ملے گی۔ آج انسداد دہشتگردی کی عدالت نے اس کے تما م ملزموں کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کردیا ہے۔ یہ ہوتی ہے عبرت ناک سزا؟

دوسری خبر یہ ہے کہ پرویزمشرف کے خلاف سنگین غداری کا جو مقدمہ آپ نے دائر کیا تھا اس میں پرویز مشرف کے وکیل تھے ایم کیو ایم والے فروغ نسیم۔ فروغ نسیم صاحب آج کل وزیر قانون ہیں اور انہوں نے سنگین غداری کے اس مقدمے میں سرکار کے وکیلوں کو عین اس وقت گھر بھیجنے کا حکم نامہ جاری کیا ہے جب انہوں نے پرویزمشرف کے خلاف حتمی دلائل دینے تھے۔

 اس لئے میاں صاحب عقل کریں اور ملک سے باہر جا کر علاج کرائیں۔ جان ہے توجہان ہے۔ پاکستان کے لئے سندھ کا بھٹو کافی ہے، پنجاب کا میاں برداشت سے باہر ہو جائے گا۔

پس تحریر:کالم ختم کر چکا تو خبر آئی ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے گورنرپنجاب چودھری سرورکو فون کر کے ہدایت دی ہے کہ میاں نواز شریف کو بہترین طبی سہولیات فراہم کی جائیں۔ یہ خبریں بھی آرہی ہیں کہ محترمہ مریم نواز کو والد کے ساتھ رہنے کی اجازت دی جار ہی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کا یہ جذبہ قابل قدر ہے لیکن شاید اب وقت ان کے ہاتھ سے نکل چکا اور کاتب تقدیر کچھ فیصلے صادر کر چکا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).