’گستاخِ اقبال‘ سے چند گزارشات


برادرم جمشید اقبال کے حالیہ مضمون سے معلوم ہوا کہ شہر میں ایک بار پھر اقبال کا قدوقامت ماپنے کے لیے دقیقہ شناسانِ فلسفہ و سائنس کی محفل سجائی گئی۔ سچ بات ہے کہ بحث کا عنوان ہی اس کی فرسودگی کی چغلی کھاتا تھا کیوں کہ اس قبیل کی بحثیں کم ہی تسکین کا سامان ہوتی ہیں۔ بہرحال یوٹیوب پر موجود پر پوری گفتگو اور سوال و جواب دیکھنے کے بعد یقیناً علم میں کچھ نہ کچھ اضافہ ہوا۔

اول نئی بات تو یہ معلوم ہوئی کہ پروفیسر ہودبھائی اقبال کو نہ صرف ایک ’ذہین‘ شخص مانتے بلکہ خود کو اس کے ’مداحوں‘ میں شمار بھی کرتے ہیں۔ یہ نکتہ پھر بھی تشنہ رہا کہ آخر اقبال کا ایسا کون سا فن ہے جس کے وہ مدح ہیں۔ اشارتاً یہی معلوم ہوا کہ وہ کم از کم اقبال کے مطالعے کی وسعت کو تسلیم کرتے ہیں۔ نہ جانے یہ وسعت انہوں نے کیسے ماپ لی!

دوم، یہ خبرِ محکم دستیاب ہوئی کہ پروفیسر صاحب اقبال کے درست قدوقامت سے بھی واقف ہیں کیوں کہ خوب ماپ تول کے بعد اِس قد کو اُس سے کافی کم سمجھتے ہیں جتنی درازی کا تصور مملکتِ خداداد میں بسنے والے اقبال پرستوں کے ذہن میں ہے۔ قدوقامت کی اس متعین واقفیت کی سند کے طور پر انہوں نے خطباتِ اقبال کے خطبۂ دوم کے متن سے کچھ شواہد بھی دیے لیکن ساتھ ہی بار بار یہ ذکر بھی کیا کہ وہ تکنیکی بحثوں میں نہیں الجھنا چاہتے اور چونکہ وہ فزکس کے استاد ہیں لہٰذا حاضرینِ محفل کو تسلی رکھنا چاہیے کہ انہیں درست تفہیم و تعبیر کا حق ہے اور اس اقتباس کی عبارت صریحاً غلط ہے کیوں کہ اقبال نے میٹرک اور ایف اے آرٹس کے ساتھ کیا تھا۔

ہمارا خیال تھا کہ وہ ڈاکٹر ساجد علی صاحب سے اتفاق کرتے ہوئے مسرت کا اظہار کریں گے کہ اقبال ٹیکسٹ بک کے استبداد سے محفوظ رہے اور علم الکلام کی ایک ہزار سالہ لمبی سرنگ سے نکل کر اشارتاً ہی سہی کچھ تشکیلِ جدید کرنے کی کوشش تو کی۔ لیکن یہ خیال غلط ثابت ہوا بلکہ گمان ہواکہ شاید یہ پنجہ ٔاستبداد رکھنے پر پروفیسر ہود بھائی یقیناً نازاں ہیں۔ وہ یہ دہراتے بھی پائے گئے کہ یہ تو میرا مضمون ہے، یہ تو میں پڑھاتا ہوں، وغیرہ وغیرہ۔

گمان یہی ہے کہ وہ فزکس کی درسی کتابیں ہی پڑھاتے ہیں کیوں تاریخ و فلسفۂ طبیعیات پڑھنے پڑھانے والا طبقہ تاحال اس سماج میں ناپید ہے۔ غالباً پروفیسر صاحب کی رائے میں اگرآپ عمر کے ایک ایسے حصے میں ہیں کہ دوبارہ میٹرک ( سائنس) یا ایف ایس سی نہیں کر سکتے تو مادے، زمان و مکاں اور حرکت وغیرہ کے تصورات پر کچھ کہنے سے گریز ہی کریں۔ ہاں بالفرض اگرفلسفیانہ سیاق وسباق اوراسلوب میں کوئی رائے پیش کرنا ضروری ہی ہو تو اتنی کوشش کریں کہ سائنسی مادیت پسندی کے رائج استبدادی تناظر کی حدود سے باہر نہ نکلیں۔ ایسے تمام معترض اشاروں کنایوں کا جواب انہوں نے یونہی دیا کہ آپ حضرات کوانٹم فزکس پر شائع ہونے والے ’پاپولر‘ ادب سے بالکل پریشان نہ ہوں۔ فزکس مکمل ’ہمارے‘ قابو میں ہے، وغیرہ وغیرہ۔

سوم، خطباتِ تشکیلِ جدید کے پیش کردہ دو تین مختصر اقتباسات کی بالکل تازہ تعبیرات بھی ہاتھ لگیں جنہیں بلاشبہ قرأتِ متن اور اظہارِ فہم میں تازہ ہوا کا جھونکا کہا جا سکتا ہے۔ یعنی اقتباس پڑھیے، محفل کے سامنے سوال رکھیے کہ ’خواتین و حضرات، آپ کی سمجھ میں کچھ آیا؟ ‘ لمحے بھر کا توقف۔ پھر شاید پہلی صف میں بیٹھا کوئی نفی میں ہلتا سر دیکھ کر خودکلامی کے سے انداز میں نیم ظریفانہ پھبتی، ’مجھے بھی نہیں آیا۔ یہ بالکل معنی سے عاری ہے۔ ‘ خیرراقم نے ویڈیو وہیں روک کر اپنے پاس موجود خطبات کے نسخے پر پیش کردہ عبارتوں کے آگے یہ فوراًتازہ ترین تعبیرات درج کر لیں : ’آئن سٹائن تجھے کچھ نہیں آتا، زینو تو بے وقوف ہے۔ ‘

راقم دو سال قبل انہی صفحات پر قارئین کوپیمائشِ قدوقامت کی اس بحث میں اپنی ناچیز رائے بعنوان ’کیا ہمیں اقبال کو پھر سے پڑھنے کی ضرورت ہے؟ ‘ میں شریک کر چکا ہے۔ ہماری رائے اس وقت بھی یہی تھی کہ اگر اقبال کی عصری اہمیت کے تناظر میں پیمائش کا یہ مسئلہ اتنا ہی اہم ہے تو اہل تذبذب کیوں نہ اُن عصری ماہرین مثلاً چارلس ٹیلر کی طرف رجوع کریں جن کا قدوقامت سماجی علوم اور انتقاد و تاریخِ فکر کے دائروں میں کم ازکم فزکس کے مقامی پروفیسروں سے کافی زیادہ ہے۔ لیکن پیمائش کی یہ حالیہ بحث اس لحاظ سے دلچسپ ہے کہ ہمارے ہاں شعر و ادب، فلسفہ و الٰہیات اور (اب) فلسفہ و تاریخ ِسائنس سے کسی نہ کسی صورت متعلقہ متون پر ’پُراعتماد‘ تنقیدی رائے رکھنے والوں کے علمی قد اور قرأتِ متن کے درجہ ٔ ہنر کی خاکہ بندی کے نئے زاویے مہیا کرتی ہے۔

برادرم جمشید اقبال نے سینے پر ’گستاخِ اقبال‘ کا تمغہ سجاتے ہوئے اشارتاً یہ تقاضا کیا ہے کہ قرأتِ متن کے اس درجۂ ہنر اور اربابِ ذوق کے درمیان پیش کردہ اس تنقید ی اسلوب کو ’سطحی‘ نہ کہا جائے بلکہ سنجیدہ تنقید مان کر بحث کو آگے بڑھایا جائے۔ راقم اس شش و پنج میں ہے کہ جس بحث کی کوئی سمت ہی نہ ہو اسے کس جانب او رکیوں کربڑھایا جائے؟ مثال کے طور کیا یہ ثابت کرنے کی چیز ہے کہ اقبال نے پیام ِ مشرق میں ’حکیم اینشتین‘ کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے ’مانندِ کلیمِ ناصبور‘ کی تلمیح استعمال کی ہے اورمصرعۂ آخر میں ’من چہ گویَم از مقامِ آں حکیمِ نکتہ سنج‘ سے اپنی عاجزی کا اظہار کرتے ہوئے اسے ایک ایسا زردشت کہا ہے جس نے موسیٰ و ہارون کی نسل میں جنم لیا؟

شاید پروفیسر ہودبھائی صاحب پیام مشرق کے دیباچے میں آئن سٹائن کے تاریخِ مغرب میں مقام اور اس نظم کے بعد کم از کم اس حد تک قائل ہو سکیں کہ اقبال نے ہرگز یہ نہیں کہا کہ ’اوئے آئن سٹائن، تجھے کچھ نہیں آتا۔ ‘ اگر سطحیت کا الزام اتنی ہی معیوب چیز ہے تو شاید ہمیں لغت میں اس لفظ کے محل پر نظرثانی کی ضرورت ہے تاکہ اس نوعیت کی تحقیق اور فہم وقرأت کے اعجاز کو کوئی اور مناسب نام دیا جا سکے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

عاصم بخشی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

عاصم بخشی

عاصم بخشی انجینئرنگ کی تعلیم و تدریس کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ ادبی تراجم اور کتب بینی ان کے سنجیدہ مشاغل ہیں۔

aasembakhshi has 79 posts and counting.See all posts by aasembakhshi