لیاری ایکسپریس وے کی اجڑی ہوئی بستی اور مزمل خان کا کینوس


اپنی گیلری میں کام کی نوعیت اور اس کا معیار سیٹ کرنے کی ذمہ داری بورڈ پر ہے۔ اور خدا جانے مجھے قریب قریب سبھی کا کام دلکش لگتا رہا ہے۔ لیکن ایک کام ایسا بھی آیاکہ میرا گیلری کے ڈسپلے ایریا سے ہلنے کا دل نہیں کرتا۔ وجہ ؟ پینٹنگز او ر صرف پینٹنگز۔ گیلری کا حصہ بنے مجھے نو ماہ ہو چلے ہیں۔ اتنے میں مائیں بچہ جن دیتی ہیں۔ لیکن میں ایسی سست ہوں کہ اب تک اپنی دو سے تین پینٹنگز ہی تکمیل کے مراحل کو پہنچا سکی ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ مجھے بہت سی چیزوں کو سیکھنے میں وقت لگا۔ لیکن میں نے سیکھنے میں کبھی عار محسوس نہیں کی۔ ہونی بھی نہیں تھی۔ ابھی تو میرا وقت شروع ہوا ہے۔

میری باتیں بعد میں لیکن پہلے اس آرٹسٹ کا ذکر کرتی ہوں جن کا کام مجھے حیرت میں مبتلا کر گیا۔ پہلے نمائش ہوئی ایشا سہیل کی۔ اس کے فنی نمونے بھی حیران کن تھے۔ لیکن ایشا کے بعد جب محمد مزمل خان کا کام پیکنگ سے نکلا اور ڈسپلے پر آیا تو مجھے ایک اندرونی خوشی ہوئی۔ کام ، ٹوٹے مکانوں اور حکومتی اقدامات کس طرح انسانی زندگیاں بدل ڈالتے ہیں ، پرکیا گیا ایک کمنٹ تھا۔ لیکن جو رنگ استعمال میں آئے۔ جو رنگوں کی پیلٹ بنی اور جو تھری ڈی افیکٹ باقاعدہ رلیف فارم میں لایا گیا او ر جو باریکیاں بنی گئیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کئی مہینوں اور برسوں کی مسلسل محنت کا نتیجہ ہے۔

میرا ایک زمانے میں ذاتی خیال یہ رہا کہ آرٹسٹ اسٹیٹمنٹ کا کوئی کام نہیں۔یہ گیلریوں کی بالکل فضول ڈیمانڈ ہے۔ میں اس کا کھلم کھلا اظہار بھی کرتی رہی۔ لیکن ابھی جب میں آرٹ جرنلز دیکھتی ہوں تو یہ واضح معلوم ہوتا ہے کہ آرٹسٹ اسٹیمنٹ کیوں ضروری ہے۔ اور کچھ نہ سہی۔ کم از کم غلط تعبیر سے فن محفوظ رہتا ہے۔ اور نقاد کی تعبیر وں سے کہیں زیادہ ضروری ہے آرٹسٹ کے اپنے کام کے بارے میں خیالات۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آرٹسٹ وقت کے ساتھ ہاتھ باندھے کھڑا نہیں ہے۔ اسے وقت سے کھیلنا ہے۔ اسے پر اس موضوع پر اظہار کرنا ہے جو اسے چبھتی ہے۔ یا جس وہ تخلیق کرنا چاہتا ہے۔ اپنے دوام کے لیے وہ سبھی تجربات کر ڈالتا ہے۔ اور انہیں تجربات کا ایک چھوٹا سا کلامیہ پیش کیا جانا ضروری ہے۔

مزمل خان نے اپنے کام کی کوئی اسٹیٹمنٹ نہیں دی۔ لیکن ٹائٹل نے اس کمی کو مکمل نبھایا۔اور کیا کہانی بنی۔ گزشتہ برس عمران خان، اپنے لالا جی، وزیر اعظم جی نے جب سے عہدہ سنبھالا ہے ملک کی گاڑی بھاگنے دوڑنے کے بجائے استراحت فرما رہی ہے۔ ہمارا معاشی نظام مسلسل مہنگائی کی چکی میں امیروں سمیت عوام کوپیس رہا ہے۔ پہلے تو اچھے کھاتے پیتے لوگوں کو مہنگائی سے فرق نہیں پڑتا تھا۔ روتے تو دکھاوے کے لیے تھے ، کچھ کنجوسی بھی تو دکھانی ہوتی ہے۔ امیروں کا شیوہ رہا ہے۔ لیکن اب تو بے چارے سچ میں رو رہے ہیں۔ تاجروں کے کاروبار ٹھپ ہوتے جا رہے ہیں کہیں ملّیں بند ہو رہی ہیں تو کہیں لوٹ مار مچا کر پیٹ کی آگ بجھائی جا رہی ہے۔ جہاں پہلے لالچ تھا اب وہاں مجبوری نے جنم لیا ہے۔ یہ وہ تبدیلی ہے جو میں نے محسوس کی۔ فن کار اس تبدیلی سے متاثر ہوا اور جو سب سے زیادہ پریشان کن بات تھی وہ فن کار کا اپنا گھر تھا۔ حالیہ برس خود میرے لیے بھی مشکل رہا۔ اس لیے کہ لالا جی نے جب عوام کو اپنی خدمات بہم پہچانے والوں کے گھر گرانے کا حکم نامہ جاری فرمایا تو اس میں صرف لیاری متاثر نہیں ہوا۔ کراچی متاثر نہیں ہوا۔ پاکستان کے بہت سے شہر تحصیلیں اور گاﺅں متاثر ہوئے۔ کہیں عدالتی مداخلت سے بچت ہوئی تو کہیں قدرت ہی بے گھر لٹے پٹے قافلے دیکھنا چاہتی تھی۔

اس کہانی کی بنت کے جو بھی مدارج رہے ہوں مزمل خان نے کہانی کو کینوس پر خوبصورتی سے ڈھالا۔ مجھے ان فن پاروں میں ایک تو یوں لگا کہ درد آنکھوں میں اُتر آیا ہو۔ دوسرا درد کی تخلیق کو خوبصورتی سے پیش کرنا۔ ورنہ درد کو محسوس کرنا ہو تو فلسطینی فن کارعبدِل راؤف الجوری کے فن پاروں کو دیکھیں۔ جس نے بچوں کاخانہ جنگی کے دوران صدماتی اظہار کیا ۔ یوں اظہار کیا کہ خوف آنکھوں میں اُتر آیا ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).