سوات: فرنٹیئر کانسٹبلری میں پہلی خاتون افسر حنا منور کی تعیناتی


پاکستان میں دہشت گردی سے متاثرہ ضلع سوات میں پہلی مرتبہ ایک خاتون حنا منور کو فرنٹیئر کانسٹبلری میں ضلعی افسر تعینات کیا گیا ہے۔

حنا منور کا کہنا ہے کہ ایک خاتون کی حیثیت سے اس ذمہ داری کو نبھانے میں انھیں کوئی مشکل نظر نہیں آتی چاہے انھیں فیلڈ میں جانا پڑے یا دفتر میں کام کرنا پڑے۔

صوبہ پنجاب کے شہر فیصل آباد سے تعلق رکھنے والی حنا منور کا کہنا ہے کہ یہ ان کے لیے فخر کی بات ہے کہ ان کی تعیناتی ایف سی سوات میں ہوئی ہے کیونکہ وہ سوات کی بہتری کے لیے بہت کچھ کر سکتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

پاکپتن کی ایس ایچ او: ‘کم از کم میں ان درندوں کو نہ چھوڑوں’

قانون کی بالادستی کی ’سزا‘، خاتون پولیس افسر کا تبادلہ

جب پولیس اہلکار نے بچپن میں ریپ کرنے والے کو جیل پہنچایا

پاکستان میں سی ایس ایس کا امتحان پاس کرنے کے بعد پولیس سروس میں تعینات سات خواتین اس مرتبہ فرنٹیئر کانسٹبلری میں ایک سال کی مدت کے لیے ذمہ داریاں نبھائیں گی۔ ان میں دو خواتین کو خیبر پختونخوا، چار کو اسلام آباد جبکہ ایک کو گلگت میں تعینات کیا گیا ہے۔

ان خواتین کو بنیادی طور پر اے ایس پی کا عہدہ دیا جاتا ہے اور ایف سی میں انھیں اے ڈی او یا اسسٹنٹ ڈسٹرکٹ افسر کہا جاتا ہے۔

حنا منور نے ڈویلپمنٹ اکنامکس میں ایم فِل کیا جس کے بعد انھوں نے سی ایس ایس کا امتحان پاس کر کے پولیس سروس کو ترجیح دی اور پی ایس پی (پولیس سروس آف پاکستان) افسر تعینات ہوئی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ خوش ہیں کہ وہ پہلی خاتون افسر ہیں جو کسی ضلع میں اس فورس کی قیادت کر رہی ہیں۔

حنا منور نے بی بی سی کو بتایا کہ ایک خاتون کی حیثیت سے انھیں ایسا نہیں لگتا کہ یہ ذمہ داری سر انجام دینے میں انھیں کوئی مشکل پیش آ سکتی ہے کیونکہ وہ خود اپنی خوشی اور مرضی سے اس فیلڈ میں آئی ہیں۔

انھوں نے کہا ان کی کوشش ہو گی کہ وہ اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھائیں اور سوات میں فرنٹیئر کانسٹبلری کے سپاہیوں کی فلاح و بہبود کے لیے کچھ کر سکیں۔

انھوں نے کہا کہ وہ چاہتی ہیں کہ سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کو مزید بہتر کیا جائے اور نظم و ضبط کر بہتر رکھنا ان کی ترجیحات میں شامل ہو گا۔

ایک سوال کے جواب میں حنا منور نے کہا کہ پاکستان دہشت گردی سے بری طرح متاثر ہوا اور سوات میں حالات انتہائی کشیدہ رہے لیکن اب صورتحال بہتر ہوئی ہے اور امید ہے مزید بہتری آئے گی۔

حنا منور نے بتایا کہ وہ شادی شدہ ہیں اور ان کی ایک بچی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ان کے پیشے کی اپنی ضروریات ہیں جبکہ ان ذمہ داریوں کے ساتھ اپنے گھر اور فیملی کو توجہ دینے کے لیے توازن پیدا کرنا پڑتا ہے تاکہ کوئی ایک بھی اس سے متاثر نہ ہو اور یہ توازن پیدا کرنا ایک چیلنج ہوتا ہے۔

فرنٹیئر کانسٹبلری ڈپٹی کمانڈنٹ اور پولیس میں ایڈیشنل انسپکٹر جنرل کے عہدے سے ریٹائرڈ افسر رحمت خان وزیر نے بی بی سی کو بتایا کہ ایف سی ایک روایتی پولیس رہی ہے، جس کا بنیادی مقصد قبائلی اور بندوبستی علاقوں کی سرحد کی نگرانی کرنا تھا لیکن اب اس میں بڑی تبدیلیاں آئی ہیں۔

خان وزیر کا کہنا تھا کہ ایف سی میں خواتین کے اعلیٰ عہدوں پر آنے سے ایف سی کی دفتری کارکردگی بہتر ہو سکتی ہے۔

رحمت خان وزیر کے مطابق خواتین ایف سی میں آفس ریکارڈ، اہلکاروں کی ترقیوں اور تنزلیوں کے ریکاڈ کے علاوہ دیگر دفتری کارکردگی کو بہتر اور نظم و ضبط میں لا سکتی ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ایف سی میں سپاہیوں میں کوئی خاتون نہیں ہے جبکہ اب خواتین افسر بڑی تعداد میں آ رہی ہیں اور جیسے پولیس کی ڈیوٹیاں ہوتی ہیں ویسے ہی ایف سی میں بھی خواتین کو ایمرجنسی کی صورت حال میں بھاری ذمہ داریاں نبھانا ہوتی ہیں جس میں خواتین کا ہونا ضروری ہے۔

خیبر پختونخوا کے بیشتر اضلاع ماضی قریب میں دہشت گردی کے واقعات سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں ان میں سوات بھی شامل رہا ہے۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران جہاں عام شہریوں اور دیگر فورسز کے اہلکاروں اور افسران کو نشانہ بنایا گیا وہاں ایف سی کے چار پولیس افسران اور 300 سے زیادہ اہلکاروں سمیت کل 360 اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا۔

فرنٹیئر کانسٹبلری سنہ 1915 میں بارڈر ملٹری پولیس اور سمانا رائفلز کے انضمام سے قائم کی گئی تھی۔ برطانوی دور میں ان فورسز کا کام سرحدوں کی حفاظت کرنا تھا۔

بنیادی طور پر یہ فورس خیبر پختونخوا میں قبائلی علاقوں سے ملنے والی سرحد کی حفاظت کے لیے تیار کی گئی تھی تاہم یہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں تعینات ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32296 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp