نواز شریف کو بیرون ملک بھیجنا حکومت کی ضرورت ہے، نواز شریف کی مجبوری نہیں


وزیر دفاع پرویز خٹک کی سربراہی میں سات رکنی سرکاری وفد نے اپوزیشن کی رہبر کمیٹی سے مذاکرات کا آغاز کیا ہے۔ تاہم اپوزیشن بدستور وزیر اعظم عمران خان کے استعفیٰ کا مطالبہ کررہی ہے جبکہ حکومت کے وفد کا کہنا ہے کہ استعفے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ عمران خان خود بھی واضح کرچکے ہیں کہ وہ مستعفی نہیں ہوں گے۔ دونوں طرف کے وفود میں پارٹیوں کے سربراہان شامل نہیں ہیں۔ مذاکراتی ٹیموں کو حتمی فیصلہ کے لئے بالآخر اپنی اعلیٰ قیادت سے رابطہ کرنا پڑے گا۔ اس لئے فوری مفاہمت کا کوئی امکان موجود نہیں ہے۔

اس دوران لاہور ہائی کورٹ نے شدید علیل سابق وزیر اعظم نواز شریف کی چوہدری شوگر مل کیس میں ضمانت منظور کر لی ہے اور عمران خان کے حکم پر مریم نواز کو کوٹ لکھپت جیل سے سروسز ہسپتال منتقل کردیا گیا ہے۔ البتہ یہ واضح نہیں ہے کہ اس کے لئے ان کی بیماری اور میڈیکل چیک اپ کو عذر بنایا گیا ہے یا حکومت نے خصوصی اختیار کے تحت انسانی بنیادوں پر انہیں اپنے بیمار والد کی دیکھ بھال کے لئے ہسپتال منتقل کیا ہے۔ یہ بات قابل فہم ہے کہ حکومت اس معاملے میں جان بوجھ کر صورت حال کو غیر واضح رکھنا چاہے گی تاکہ آنے والے دنوں میں سیاسی پوزیشن لینے میں آسانی رہے۔

نواز شریف لاہور ہائی کورٹ سے ریلیف ملنے پر اگرچہ نیب کی حراست سے ’آزاد‘ ہو گئے ہیں لیکن وہ بدستور العزیزیہ ریفرنس میں سزا یافتہ قیدی ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے طبی بنیادوں پر ضمانت کی درخواست پر سماعت منگل تک مؤخر کی ہے۔ اسے خالص قانونی اور عملی مشکلات کا فیصلہ بھی قرار دیا جا سکتا ہے لیکن اسلام آباد ہائی کورٹ بینچ کے ججوں نے آج درخواست پر غور کے دوران یہ رائے دی تھی کہ ضمانت کا کوئی قانونی جواز تو موجود نہیں لیکن طبی معاملات میں ججوں کی بجائے ڈاکٹروں کی بات حتمی حکم کی حیثیت رکھتی ہے۔ اسی کی روشنی میں فیصلہ کرنا پڑے گا۔ اس آبزرویشن کے بعد اور سروسز ہسپتال کے نمائیندہ ڈاکٹر کی اس صراحت کے بعد کہ مریض کی حالت ’خطرناک‘ ہے، اسلام ہائی کورٹ کے ججوں کو اس معاملہ کے تمام پہلوؤں سے آگاہی کے لئے مزید چار روز درکار ہیں۔ شاید اسی لئے منگل تک سماعت ملتوی کی گئی ہے۔

اسی مریض کی میڈیکل صورت حال پر غور کرتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ کے بینچ نے نہ صرف فوری ریلیف دیا ہے بلکہ بیرون ملک جانے کی درخواست منظور کرنے کا عندیہ بھی دیا ہے تاکہ نواز شریف اپنی مرضی سے جہاں چاہیں علاج کروا لیں۔ اس کے برعکس بظاہر ایک سنگین بیماری میں مبتلا شخص کے بارے میں اسلام آباد ہائی کورٹ کی سست روی یا تحمل کو صرف عدالتی طریقہ کار کی مجبوری سمجھنا آسان نہیں۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ ڈاکٹروں نے نواز شریف کو جو ادویات شروع کروائی ہیں، ان کا اثر دو سے تین روز میں ظاہر ہو سکتا ہے۔

ڈاکٹروں نے نواز شریف کو لاحق بیماری کو امیون تھرمو بوسیٹو پینک پرپورا (آئی ٹی پی) کا نام دیا ہے۔ اس بیماری میں انسانی جسم میں پلیٹ لیٹس کی تعداد کم ہوجاتی ہے جس سے مدافعتی نظام کام کرنا بند کردیتا ہے اور جسم کے کسی بھی حصے سے خون جاری ہو سکتا ہے۔ امکان ہے کہ منگل تک اگر دواؤں نے ڈاکٹروں کی امید کے مطابق کام کرنا شروع کردیا تو اسلام آباد ہائی کورٹ کو طبی بنیاد پر ضمانت دینے کی ضرورت نہیں ہو گی۔

یہ مان لینا سادہ لوحی ہوگی کہ نواز شریف کی قانونی جنگ میں پیش رفت اور وزیر اعظم سمیت حکومتی نمائیندوں کی طرف سے نواز شریف کی بہترین دیکھ بھال کرنے اور اعلیٰ ترین علاج فراہم کرنے کی پیشکش کا واحد مقصد ایک انسان کی جان بچانے کی خواہش و کوشش تک محدود ہے۔ یا یہ تگ و دو صرف انسانی بنیادوں پر کی جا رہی ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے نواز شریف کے خلاف اس قدر نفرت کا ماحول پیدا کیا ہے اور ان کے خلاف الزامات کو اس قدر سنسنی خیز انداز میں عام کیا گیا ہے کہ اب مراعات دیتے ہوئے اس کی اپنی سیاست کو شدید دھچکا لگنے کا اندیشہ ہے۔

عمران خان بہادری کے تمام تر دعوؤں کے باوجود یہ حوصلہ نہیں رکھتے کہ اپنے ووٹر سے کہہ سکیں کہ نواز شریف تین بار ملک کے وزیر اعظم رہ چکے ہیں، وہ ملک کے ایک مقبول لیڈر ہیں اور ان کی قیادت میں مسلم لیگ(ن) تمام تر انتقامی کارروائیوں کے باوجود مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کر رہی ہے۔ اس لئے ان کے سابقہ عہدہ اور عوامی مقبولیت کا احترام کرنا بنیادی سیاسی اخلاقیات کا تقاضہ ہے۔ بدنصیبی سے پاکستانی ووٹر کو اس طریقہ پر سوچنے کے لئے تیار نہیں کیا گیا۔

یہی وجہ ہے کہ ایک طرف ہمدردی کے پیغامات دیے جا رہے ہیں تو دوسری طرف حکومت کے نمائندے شریف خاندان پر نواز شریف کی بیماری کو سیاسی رنگ دینے اور اس کا فائدہ اٹھانے کا الزام لگا رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ایسی خبریں پلانٹ کروانے اور پھیلانے کی کوشش بھی کی جارہی ہے کہ نواز شریف دراصل کئی ارب ڈالر دینے پر آمادہ ہو گئے ہیں۔ اور درپردہ لوٹ کا مال واپس کرنے کی بنیاد پر ’ڈیل‘ کی جا رہی ہے۔ اس قسم کی خبریں اس سے پہلے بھی پلانٹ کی جاتی رہی ہیں لیکن نواز شریف کی سنگین اور ابھی تک ناقابل علاج بیماری کی حالت میں ایسے ہتھکنڈے حکومت کی بدحواسی اور سیاسی فیس سیونگ کا بدترین نمونہ ہیں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2749 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali