معصومیت کی قیمت اور خاموشی سے علاج


دوبارہ آ گئی ہے۔ بالکل اسی حالت میں۔ نرس فائزہ نے اطلاع دی۔

آج میری ایوننگ شفٹ ڈیوٹی بھی تھی۔ ہسپتال جانے کے لیے میں ابھی گھر سے نکلی ہی تھی کہ نرس کا فون آیا اور اس نے لائبہ (فرضی نام) کی دوبارہ اسی حالت میں آمد کا بتایا۔ میں نےگاڑی کی رفتار بڑھا دی۔

لائبہ آٹھ سال کی بچی جسے اس کے والدین آج سے پندرہ دن پہلے دور دراز کے ایک گاؤں سے اس حالت میں لے کر آئے کہ وہ چل نہیں سکتی تھی۔ بظاہر وہ بالکل ٹھیک تھی لیکن بس وہ چل نہیں سکتی تھی۔ ہم نے اس کے ٹیسٹ وغیرہ کروانے کی لیے اُس کو جنرل میڈیسن اورنیورالوجی وارڈز بھیجا۔ ان کے نتائج کے مطابق وہ بالکل ٹھیک تھی اور کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ لیکن وہ بالکل ٹھیک نہیں تھی۔ ٹیسٹ نارمل آنے کے باوجود بھی وہ چل نہیں سکتی تھی۔ حتیٰ کہ وہ باتھ روم بھی خود سے جانے کے قابل نہیں تھی۔ دراصل وہ ڈپریشن کی ایک شدید قسم کی کیفیت میں مبتلاء تھی جس کو سائیکاٹری کی زبان میں کنورژن ڈس آرڈر (conversion disorder)کہتے ہیں۔ اس بیماری میں مبتلا شخص بالکل نارمل نظر آتا ہے اور اس کے سارے ٹیسٹس بھی بالکل نارمل ہوتے ہیں۔ ایسا کوئی ٹیسٹ نہیں ہےجس سے کنورژن ڈس آرڈر (conversion disorder)کنفرم ہوسکے۔

اس کےڈپریشن کا علاج شروع کر دیا گیا۔ ساتھ ساتھ اس کی سائیکوتھراپی بھی شروع کی گئی لیکن ہمیں پوری کوشش کے باوجود اس کی ڈپریشن کی وجہ معلوم نہیں ہو سکی۔ علاج جاری رہا اور ساتویں دن جا کر وہ اپنی پیروں پر چلنے کے قابل ہوئی اور بغیر کسی سہارےکے باتھ روم تک گئی۔ وہ بہت خوش تھی۔ مجھے یہ کہنے میں بالکل عار نہیں ہے کہ ہماری وہ معصوم سی مریضہ مجھے بہت زیادہ عزیز تھی۔ اکثر صبح وارڈ جاتے ہوئے میں اس کے لیےکچھ ٹافی ، چاکلیٹ وغیرہ لے کر جاتی تو وہ بہت زیادہ خوش ہوتی۔ دسویں دین جب میں صبح وارڈ پہنچی تو اس کو ایک دوسری مریضہ کے بچے کے ساتھ کھیلتے ہوئے دیکھ کر مجھےبہت خوشی ہوئی۔ اب وہ بالکل صحیح چل سکتی تھی بلکہ اِدھر اُدھر بھاگ دوڑ رہی تھی۔ سایئکو تھراپی کے ایک اصول کے مطابق اس کی توجہ ڈپریشن سے ہٹانے کے لیے ہم نے اسے پنسل اور کچھ رنگ دیے تھے جن سے وہ سکیچز بنانے کی کوشش کرتی اور وہ جس طرح کےسکیچز بناتی وہ میرے لیے حیران کن تھے۔ بہت اچھے نا سہی لیکن وہ کہیں سے بھی آٹھ سالہ بچی کے ہاتھ کے بنائے ہوئے نہیں لگتے تھے۔ اس نے مجھے بتایا کہ اسے ڈرائینگکرنا بہت پسند ھے۔

وہ بارہ دن ہمارے پاس ایڈمٹ رہی اور ان بارہ دنوں میں وارڈ کے ہر بندے سے بہت مانوس ہو گئی تھی۔ بارہویں دن ہم نے اسے ڈسچارج کیا۔ جاتے ہوئے وہ بہت خوش تھی۔ اپنی بنائی ہوئی ایک سکیچ مجھے دی اور میری کلائی میں سے ایک آرٹیفیشل چھوٹا سا بریسلٹ اتار کر لے گئی۔ جاتے ہوئے اس نے مجھے کہا ” ڈاکٹر باجی میں جب بھی ابا کےساتھ پشاور آؤں گی تو آپ سے ملنے ضرور آؤن گی” ۔

اور آج تیسرے دن ہی وارڈ سے اطلاع ملی کہ وہ دوبارہ آگئی ہے۔ میں وارڈ پہنچی تو وہ ایک بار پھر اسی حالت میں تھی۔ اس کے والد اس کو اُٹھا کر لائے تھے۔ وہ چلنے سے مکمل قاصرتھی۔ اس کو داخل کیا اور دوبارہ سے اس کا علاج شروع ہوا۔ دوائیوں کےساتھ ساتھ ایک بار پھر سائیکو تھراپی بھی شروع کی گئی اور پانچویں سیشن میں جا کر ہم پریہ ہوش رُبا انکشاف ہوا کہ اس بچی کے ساتھ زیادتی کی گئی ہے اور زیادتی کرنے والا کوئی اور نہیں اس کا اپنا چچا ہے جو غیر شادی شدہ ہے اور ان کے ساتھ ان کے آبائی گھر میں رہتا ہے۔ اسے اتنا ڈرایا دھمکایا گیا تھا کہ وہ کسی کو حتیٰ کہ اپنے والدین کو بھی نہیں بتا سکی اور ماہرینِ نفسیات کی پوری ٹیم کو حقیقت جاننے کے لیے پورے گیارہ سیشن لینے پڑے۔

 اس کے دوبارہ انہی علامات کے ساتھ آنے کی یہی وجہ ہے کہ جب جب وہ اس شخص کو اپنے سامنے دیکھتی ہےتو غیر ارادی طور پر وہ اسی کیفیت میں دوبارہ چلی جاتی ہے۔ وہ نا چاہتے ہوئے بھی ڈر جاتی ہے۔ اور اس ڈر اور ڈپریشن کی شدت کی وجہ سےاس کی ریڑھ کی ہڈی سے پیروں کی طرف جانے والے اعصاب اپنا کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ قارئین میں سے جن کہ دلچسپی ہو وہ کنورژن ڈس آرڈر(conversion disorder)کی تفصیلات خود پڑھ سکتے ہیں۔

میں اکثر وہ ڈرائینگ نکال کر سوچتی ہوں کہ اس بچی کے ہاتھ میں جتنی صفائی ہے اگر یہ اپنے اسی ہنر پر تھوڑی محنت کر لے توایک دنیا کو فتح کر سکتی ہے، ایک زمانےکو اپنا شیدائی بنا سکتی ہے لیکن ہم اسےمسل کر اور کچل کر وہاں لے کر آئے جہان وہ ڈرائینگ تو کیا اپنے پیروں پر کھڑی بھی نہیں ہو سکتی۔ اور جو آج آٹھ سال میں کھڑی نہیں ہو سکتی وہ اٹھارہ سال میں اتنا حوصلہ اور ہمت کہاں سے لے کر آئے گی کہ زندگی اور معاشرے کا مقابلہ کر سکے۔

ایک بات تو بالکل صاف ہے کہ لائبہ نے کسی کے جذبات کو نہیں ابھارا تھا۔ نا ھی اس نےاپنے حلیے سے کسی کو دعوت دی تھی بلکہ شاید گڑیوں سے کھیلنے کی عمر میں اسے تو پتا بھی نہیں ہو گا کہ جذبات ہوتے کیا ہیں۔ اسے تو یہ بھی نہیں پتا ہو گا کہ اپنےقریبی خون کےرشتے جن پر اس کے والدین بہت اعتبار کرتے ہیں اور جن سے وہ بہت محبت کرتی ہے وہ اس کو کھیل اور ڈرائینگ سے ہٹا کر ڈپریشن کی ایسی گہرائی میں دھکیل سکتے ہیں جہاں سے نکلنا اس کے لیے بہت مشکل ہو گا۔ کیونکہ بچپن میں ذہن میں بیٹھی ہوئی شبیہہ بہت مشکل سے ہٹتی ہے۔

 ہم نےاس والدین سے بات کی توان کے لیے بھی یقین کرنا مشکل تھا۔ اور یقین دلانے کے بعد وہ صرف اس بات پر آمادہ ہوئے کہ وہ اپنا گھر الگ کر لیں گے۔ اس سے زیادہ وہ ملزم کے خلاف کسی کارروائی کے حق میں نہیں تھے کیونکہ اس سے اُن کی اپنی بچی کی بدنامی ہوتی جس سے اس کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگ جاتا اور ایک غریب مزدور آدمی اس سب کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ سمجھ نہیں آتی کہ اس معاشرے کی حالت زار پر نوحہ پڑھوں یا غائبانہ نمازِ جنازہ کے لیے لوگوں کو بلاؤں کہ جہاں پر مجرم بدنامی سے نہیں ڈرتا بلکہ معصوم بدنامی سے ڈرتا ہے۔ جہاں زیادتی کرنے والے کی زندگی مشکل نہیں بنائی جاتی بلکہ زیادتی سہنے والے کی زندگی مشکل بنا دی جاتی ہے۔ جہاں معصوم بیٹی کےساتھ ہونے والی زیادتی کا معلوم ہونے پر والدین کسی قانون کا سہارا لینے کی بجائےڈاکٹر کے پیروں میں اپنا دوپٹا اور ٹوپی رکھ کر ان سے راز چھپانے اور خاموشی سےعلاج کروانے کی درخواست کریں۔

  لائبہ کچھ دن میں دوبارہ اپنے پیروں پر چلنےلگے گی۔ اپنے ہم عصروں کے ساتھ کھیلنے بھی لگ جائے گی۔ ہم اسے کچھ دنوں میں وارڈ سے ڈسچارج بھی کر دیں گے لیکن یہ ہم نہیں کہہ سکتے کہ لائبہ دوبارہ اسی حالت میں نہیں آئے گی۔ کیونکہ جب جب وہ اپنے مجرم کو دیکھے گی تب تب زیادہ امکان اسی بات کا ہے کہ وہ اُسی حالت میں دوبارہ جائے گی یا پھر ہو سکتا ہے کہ اس کی ڈپریشن کوئی اورشکل اختیار کر لے۔ اور گھر الگ کرنے سے شاید کچھ زیادہ نہیں بدلے گا۔ ہم اپنی پوری کوشش کر رہے ہیں کہ وہ دوبارہ اس حالت میں نا جائے اور ہم کامیاب ہو بھی جائیں گے لیکن شاید کسی حد تک، پوری طرح نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).