آزادی مارچ سے پہلے مولانا فضل الرحمان کی سندھ یاترا میں کیا ہوا؟


مولانا فضل الرحمان ملک کے نامور، ذہین ترین، سیاسی بصیرت رکھنے والے واحد سیاستدان ہیں، جو جب چاہیں سیاسی ماحول کو گرم اور ٹھنڈا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اور وقت پر پتے کھیل کر اپنی بات دلائل کے ساتھ منانے کی بھرپور صلاحیت رکھتیں ہیں، اپوزیشن کی ٹیم کا پراعتماد کپتان موجودہ حکومت کے کپتان سے استعفیٰ مانگنے آزادی مارچ کے ساتھ اسلام آباد جا رہے ہیں، مولانا فضل الرحمن کو سمجھنے کے لئے جہاں حکومت پریشان رہتی ہے۔

وہیں اپوزیشن بھی حکومت سے زیادہ پریشان دکھائی دے رہی ہے۔ مولانا فضل الرحمان کی جانب سے 27 اکتوبر آزادی مارچ کا اعلان ہوتے ہی جہاں حکمرانوں کی دانتوں میں انگلیاں آگئی وہیں اپوزیشن بھی ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر دیکھتی ہی رہی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری اور شہباز شریف کی جانب سے مولانا فضل الرحمان اور اسٹیبلشمنٹ دونوں جانب تسلیاں کرا رہے تھے کہ وہ ان کے ساتھ ہیں اور آخر تک ساتھ رہیں گے، مولانا آج کل سندھ یاترا پر ہیں۔

جے یو آئی کے قائد مولانا فضل الرحمان 23 اکتوبر کو اسلام آباد سے سکھر کے لئے روانہ ہوئے، شاید کسی کو بھی پتا نہ تھا کہ مولانا فضل الرحمان سکھر جائیں گے اور سندھ سے آزادی مارچ کی قیادت کریں گے، کہا جا رہا تھا کہ مولانا صاحب اسلام آباد میں گرفتاری سے بچنے کے لئے سندھ پہنچے ہیں، جبکہ جے یو آئی کے ذرائع کے مطابق مولانا فضل الرحمان کا سندھ یاترا پلان 0 شیڈول کا حصہ تھا جسے خفیہ رکھا گیا تھا۔ مولانا فضل الرحمن عبدالغفور حیدری، اکرم درانی کے ساتھ سکھر ایئرپورٹ پر پہنچے جہاں مولانا راشد محمود سومرو و دیگر نے ان کا استقبال کیا۔

سکھر میں آغا ایوب شاہ کی رہائش گاہ پر مولانا راشد محمود سومرو کے توسط سے میری ملاقات ہوئی۔ مولانا فضل الرحمن پہلے سے پراعتماد ہشاش بشاش نظر آرہے تھے، میں نے ان سے ہاتھ ملایا اس کے چہرے کو صحافتی آنکھوں سے غور سے پڑھنے کی کوشش کی مگر وہ میری سوچ خیالات کے الٹ نظر آئے۔ ایسے محسوس ہو رہا تھا کہ یا تو وہ اسلام آباد سے استعفیٰ لے کر آئے ہیں۔ یا پھر 31 اکتوبر تک استعفیٰ لینے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ مولانا فضل الرحمن نے اسی رات 8 بجے پریس کانفرنس کی تو پہلا سوال میں نے داغا۔

مولانا سے پوچھا کہ آپ کے لئے کہا جاتا ہے کہ ہمارے بغیر کوئی بھی حکومت بن نہیں سکتی، اگر بن گئی تو چل نہیں سکتی۔ آپ نے عمران خان کی حکومت کے خلاف تحریک شروع کرکے اپنے محاورے پر عمل کیا ہے۔ کیا پہلے کی طرح اس مرتبہ بھی اسٹیبلشمنٹ آزادی مارچ یا دھرنے کو سپورٹ کرے گی؟ اور آپ کو کیا واقعی کسی طاقت یا اسٹیبلشمنٹ کے ایک دھڑے کی سپورٹ حاصل ہے؟ مولانا فضل الرحمن مسکرائے، اور کہا کہ اب ایسا نہیں ہے۔ ہمارا آزادی مارچ دوسروں کے دھرنوں سے برعکس ہے۔

برحال مولانا فضل الرحمان جو اب بھی ہر سوال کا جواب مسکراتے ہی دیتے ہیں، مگر مولانا فضل الرحمان کے لب و لہجہ میں غصہ، درد، شکوے، شکایتیں نظر آرہی تھی، آج کل مولانا جارحانہ انداز میں وکٹوں کی دونوں جانب کھیل رہے ہیں۔ دوسرے روز جے یو آئی کی مرکزی مجلس شوریٰ کا اہم اجلاس سکھر کی قدیمی جامعہ منزل گاہ مدرسے میں منعقد ہوا، جس میں مولانا فضل الرحمان کے ساتھ، عبدالغفور حیدری، اکرم درانی، راشد محمود سومرو، سینیٹر عطا الرحمان، ناصر محمود سومرو، کامران مرتضیٰ، اسلم غوری، و دیگر 50 سے زائد ملک بھر سے ممبران نے شرکت کی۔

مجلس شوریٰ کے اجلاس میں متفقہ طور پر فیصلہ ہوا کہ مولانا فضل الرحمان آزادی مارچ کی قیادت سندھ سے ہی کریں گے۔ 27 اکتوبر کو کراچی سے کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر اجتماع ہوگا۔ جس کے بعد مولانا فضل الرحمان سہراب گوٹھ سے آزادی مارچ کی قیادت کریں گے۔ دن ایک بجے حیدرآباد بائے پاس پہنچیں گے جہاں لاڑکانہ اور میرپور خاص ڈویژن کے قافلے مارچ میں شامل ہوں گے۔ مولانا کا مارچ سپہر سکرنڈ بائے پاس پر پہنچے گا جہاں نوابشاھھ ڈویژن کے قافلے شامل ہوں گے اس طرح مغرب کے بعد مارچ سکھر میں داخل ہوگا، روہڑی بائے پاس پر بس اسٹینڈ پر لوگ رات کو قیام کریں گے، 28 اکتوبر کو سکھر سے اسلام آباد کے لئے روانہ ہوں گے، سکھر میں سکھر اور لاڑکانہ ڈویژن کے ساتھ بلوچستان کے مختلف علاقوں سے بھی قافلے شاملِ ہوں گے۔

جب مولانا فضل الرحمان سے پوچھا گیا کہ آپ سندھ سے آزادی مارچ کی قیادت کیوں کر رہے ہیں، مولانا فضل الرحمان نے مسکراتے ہوئے کہا کہ، سندھ باب السلام ہے اسی لیے سندھ کے دروازے سے آزادی مارچ کی قیادت کا فیصلہ کیا ہے۔ اور 31 اکتوبر کو اسلام آباد میں پڑاؤ ڈالا جائے گا۔ جب مولانا فضل الرحمان سے پوچھا گیا کہ آپ کو یقین ہے کہ وزیراعظم استعفیٰ دیں گے، ؟ مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ کوئی بھی حکمران شرافت سے مستعفی نہیں ہوتا ہے۔

بلکہ عوام طاقت سے استعفیٰ لے لیتی ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے شکوہ کیا کہ خفیہ ادارے ہمارے کارکنوں مقامی رہنماؤں کو دہمکا رہے ہیں۔ ڈرا رہے ہیں اور ٹرانسپورٹرز کو ہراساں کیا جا رہا ہے، کہ آپ مارچ میں گاڑیاں نہ دیں، ورنہ آپ کے گاڑیوں کی روٹ پرمٹ ختم کردی جائے گی۔ مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ ہم کشتیاں جلا کر آئیں ہیں، استعفیٰ کے بغیر واپس نہیں جائیں گے۔ جعلی نا اہل حکمرانوں کو گھر بھیجنا ہوگا۔ ہم حسینی موقف لے کر نکلے ہیں، کسی یزید کی بیعت نہیں کریں گے۔

24 اکتوبر کی رات مولانا فضل الرحمان سکھر سے لاڑکانہ شہید خالد محمود سومرو کے بیٹوں راشد محمود سومرو، ناصر محمود سومرو کے ساتھ ان کے گھر روانہ ہوئے۔ اس سے قبل مولانا فضل الرحمان نے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری سے ٹیلیفون پر رابطہ کر کے صحت اور خیریت معلوم کی، میاں نواز شریف نے مولانا فضل الرحمان کو ایک بار آزادی مارچ میں شرکت کی یقین دہانی کرائی جبکہ بلاول بھٹو زرداری نے مولانا سے پوچھا کہ میں کہاں سے مارچ میں شرکت کروں، مولانا نے اسے سکھر سے 28 اکتوبر کو آزادی مارچ میں شرکت کی دعوت دی، جس پر بلاول بھٹو زرداری نے مولانا سے لاڑکانہ میں ملاقات کرنے کو کہا لیکن 28 اکتوبر تک بلاول کا لاڑکانہ میں کوئی پروگرام نہیں ہے وہ اس روز اسلام آباد میں ہوں گے، مولانا فضل الرحمن کی نے اجلاس میں نواز شریف اور آصف زرداری کی صحتیابی کے لئے دعا بھی کرائی۔

اب نواز شریف کی طبی بنیادوں پر ضمانت مل چکی ہے۔ اور امید ہے کہ کچھ دنوں میں آصف علی زرداری اور خورشید شاہ، فریال ٹالپر کو بھی ضمانت مل جائے گی۔ جوں جوں آزادی مارچ کا وقت قریب آتا جا رہا ہے۔ حکمرانوں کی پریشانیوں میں بھی اضافہ ہوتا ہوا نظر ارہا ہے۔ مولانا فضل الرحمن 31 اکتوبر تک اسلام آباد میں پہنچنے میں کامیاب ہوجا تے ہیں یا اسے سندھ پنجاب کے بارڈر کموں شہید والے علاقے میں روکا جائے گا۔ ؟ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے، پیپلز پارٹی کسی بھی صورت کسی بھی حال میں مولانا فضل الرحمان کے آزادی مارچ میں رکاوٹ نہیں ڈالے گی۔

بلکہ بلاول بھٹو زرداری کی ہدایت کے مطابق پیپلز پارٹی کے رہنما اور کارکنان آزادی مارچ میں شرکت کریں اور اپنے اپنے علاقوں میں استقبال بھی کریں۔ شاید بلاول بھٹو زرداری آزادی مارچ میں سکھر سے شامل نہیں ہوں گے۔ اس سے قبل بھی جے یو آئی کی اے پی سی میں بلاول بھٹو زرداری اور شہباز شریف نے شرکت نہیں کی تھی۔ اگر حکومت ٹرانسپورٹرز کو مارچ سے روکنے میں ناکام ہو جاتی ہے یا چاروں صوبوں میں سے شروع ہونے والے مارچ کو روکا جاتا ہے تو اس سے جے یو آئی کا فائدہ ہوگا، کیونکہ جے یو آئی نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ ہر صورت میں 15 لاکھ سے زائد افراد کارکنوں کو اسلام آباد میں لائیں گے اور صرف سندھ سے 4 لاکھ افراد شریک ہوں گے۔

حکومت کی جانب سے اسلام آباد سمیت ملک کے چاروں صوبوں میں روڈ راستوں پر کنٹینر رکھ کر بند کیا جا چکا ہے۔ جبکہ کہ اسلام آباد میں خندقیں کھودی جا چکی ہے۔ رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی ہیں، ایک طرف حکومت پرامن مارچ کی اجازت دے رہی ہے، دوسری جانب مارچ کو روکنے اور مکمل مشینری کا استعمال شروع کیا گیا ہے، مولانا فضل الرحمان بھی بار بار کہ چکے ہیں کہ اگر راستے روکے گئے یا گاڑیاں روکی گئی تو پیادل جائیں گے۔ موٹرسائیکل پر جائیں گے۔

سائیکلون پر جائیں گے، گھوڑوں پر جائیں گے، خچروں پر جائیں گے، اونٹوں پر جائیں گے، اور دریائے سندھ کے ذریعے کشتیوں پر اسلام آباد جائیں گے۔ مولانا فضل الرحمن اگر 15 لاکھ نہ ہی سہی اگر دو سے تین لاکھ افراد بھی اسلام آباد لانے میں کامیاب ہو گئے تو حکومت کے لئے پریشانی بڑھ جائے گی۔ حکومتی ذرائع کے مطابق اسلام آباد میں ایک ہفتہ قبل ہی جے یو آئی کے 75 ہزار سے زائد کارکن پہنچ چکے ہیں۔ جہاں وہ رشتیداروں، مدارس میں اور ہوٹلوں میں رہ رہے ہیں۔ جو کہ بہت بڑی تعداد ہے۔

دوسری جانب جے یو آئی سندھ کے سیکرٹری جنرل علامہ راشد محمود سومرو نے وزیر اعلیٰ سندھ کو خط لکھ کر آگاہ کیا ہے کہ ان کا راستہ روکنی کی کوشش کی جا رہی ہے۔ آپ کے حکومت میں ٹرانسپورٹرز کو روکا جا رہا ہے۔ آپ نوٹس لیں۔ اب جب نواز شریف ضمانت پر رہا ہو چکے ہیں، آصف زرداری بھی رہا ہونے والے ہیں۔ کیا اپوزیشن کی دو بڑی جماعتیں مفاہتمی راستے پر چل کر مولانا فضل الرحمان سے فی الحال علیحدگی کریں گی یا پھر باقاعدہ مولانا فضل الرحمان کے ساتھ مارچ میں شرکت کریں گی۔

؟ فی الحال یہ وقت ہی بتائے گا کہ مولانا فضل الرحمان کا آزادی مارچ کامیاب ہوتا ہے، وزیراعظم مستعفی ہوتے ہیں یا حکومت آزادی مارچ روکنے میں کامیاب ہو جاتی ہے، ۔ مولانا فضل الرحمن ایک سیاسی بصیرت رکھنے والے بڑے سیانے دانا سیاستدان اور سیاست کے مایاناز کھلاڑی ہیں۔ وہ کبھی بھی اپنی پارٹی کارکنوں کا نقصان نہیں چاہیں گے۔ اور اب تک مولانا فضل الرحمان کے تمام فیصلے جہاں ان کے اتحادیوں کے لئے بہتر ثابت ہوئے ہیں وہی ان کے کارکنوں اور مدارس طلبا علماء کرام کے لئے بھی کار خیر ثابت ہوئے ہیں۔ جے یو آئی ذرائع کا کہنا ہے کہ انہیں وزیر اعظم عمران خان کی 27 کی شام یا 28 تک استعفیٰ مل جائے گی، لگ تو ایسا ہی رہا ہے کہ اب بھی مولانا فضل الرحمان کی جیت ہی ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).