رات، اندھیرا اور سفر


سمندر پر جانا مجھے پسند نہیں۔ جھیلیں اچھی لگتی ہیں۔ خاموش اور پرسکون۔ کراچی میں تہائی صدی رہنے کے باوجود بہت کم ساحل پر جانا ہوا۔ سی ویو پر سمندر کی ہیبت طاری ہوجاتی تھی۔
بہت عرصے بعد کل دوبارہ سمندر دیکھا۔ کراچی میں اس کا نام بحیرہ عرب تھا۔ یہاں اسے بحر اوقیانوس کہتے ہیں۔ کراچی کے ساحل پر سمندر زیادہ شور نہیں مچاتا۔ ڈیلاوئیر کا پڑوسی سمندر غصیلا ہے۔ درندے کی طرح چنگھاڑتا ہے۔ نصف شب کو اس کا شور شرابا بے سکون کررہا تھا۔
میں ڈیلاوئیر سے ایک دو بار گزرچکا تھا لیکن چند گھنٹوں کا قیام پہلے بار کیا۔ ریاست ورجینیا میں ہمارے گھر سے اس کے ساحل تک کا فاصلہ سوا سو میل ہے۔ وہاں ڈاکٹر احتشام قریشی کا دولت کدہ ہے۔ کل بھائی علی اکبر ناطق کو پہنچانے کے لیے اس تک سفر کیا۔
ناطق بھائی سیمابی طبیعت کے آدمی ہیں۔ طے پایا تھا کہ وہ جمعرات کی شب واشنگٹن پہنچیں گے اور ہفتے کی صبح ہم دونوں ساتھ نیویارک جائیں گے تاکہ ایک ادبی محفل میں شریک ہوکر وہ کلام سنائیں اور ہم سنیں۔ جمعہ کو دن بھر واشنگٹن کی سیر کرنی تھی۔ لیکن وہ سیر شروع ہونے سے پہلے ہی واشنگٹن سے اکتا گئے۔ گھر سے نکلنے سے پہلے وعدہ لیا کہ شام کو انھیں ڈیلاوئیر پہنچاؤں گا اور رات کا کھانا ڈاکٹر احتشام کے ساتھ کھائیں گے۔
چند گھنٹے کی مہلت انھوں نے دی تو میں نے لنکن میموریل سے لائبریری آف کانگریس تک کا علاقہ دکھایا جس کے درمیان وائٹ ہاؤس، مونومنٹ، کانگریس بلڈنگ اور وائس آف امریکا ہے۔ ایک ڈیڑھ میوزیم بھی میں نے دیکھا۔ وہ ساتھ گشت کرتے رہے۔ دفتر میں چار دوستوں کی محفل میں شاعری بھی سنائی۔ ایک پروڈیوسر دوست سے اس کی کبھی شوٹ نہ ہونے والی فلم کی کہانی لکھنے کا وعدہ کیا۔
نیچرل ہسٹری میوزیم میں ڈائنوسارز کے ڈھانچے دیکھ کر ناطق بھائی متاثر نہیں ہوئے۔ کہنے لگے، پتا نہیں ڈائنوسار ہوتے بھی تھے یا نہیں۔ لوگوں نے کہانیاں بنائی ہوئی ہیں۔ میں چپکا رہا۔ افسانہ لکھنے والے کو افسانوں کی پہچان ہوتی ہے۔ بھس بھرے جانور دیکھ کر خوش ہوئے۔ بتایا کہ امریکی دارالحکومت کی طرح پاکستانی دارالحکومت میں بھی بھس بھرے جانور بہت۔ البتہ وہ میوزیم میں نہیں، پارلیمان میں ہوتے ہیں۔ میں نے ہاں میں ہاں ملائی۔ ناطق بھائی اسلام آباد میں کئی سال رہے ہیں۔ ٹھیک کہہ رہے ہوں گے۔ کانگریس لائبریری میں انھوں نے دلچسپی ضرور لی لیکن انکشاف کیا کہ پاکستانی لائبریریوں میں بھی ایسی ہی کتابیں ہوتی ہیں۔ یعنی کاغذ پر چھپی ہوئی۔ لیکن یہ جان کر حیران ہوئے کہ امریکی کتب خانے میں روزانہ بارہ ہزار مطبوعات آتی ہیں۔
دوپہر کا کھانا ہم نے لفاں پلازا کے کوسمو ریستوران میں کھایا۔ وہاں بوفے سسٹم ہے۔ اپنی پلیٹ خود بھریں اور گھر لے جائیں یا وہیں کھائیں۔ ناطق بھائی نے پوچھا کہ یہاں ذبیحہ ہوتا ہے؟ ہمارے کولیگ ملک عمید عبدالرحیم نے مطلع کیا کہ صرف سور ذبیحہ ہے۔ اور کچھ نہیں۔ اس پر وہ جزبز ہوئے۔ مجھے سلاد لیتے دیکھا تو اس کے حلال ہونے پر شک کا اظہار کیا۔ پھر اعلان کیا کہ صرف مچھلی کھاؤں گا۔ چنانچہ فقط شارک مچھلی کے قتلے کھائے۔
چار بجے ہم نے سفر شروع کیا اور ساڑھے سات بجے ڈاکٹر احتشام کے گھر پہنچے۔ راستے میں بے برج آیا جو خلیج چیساپیک پر بنا ہوا ہے۔ ناطق بھائی نے امریکیوں کو خراج تحسین پیش کیا کہ جنھوں نے ندی نالوں اور دریاؤں کے بعد سمندر پر بھی پل بنا ڈالا۔ سات کلومیٹر طویل یہ پل ریاست میری لینڈ میں ہے۔
ڈیلاوئیر میں ڈاکٹر احتشام محبت سے ملے۔ ان کا مکان نہیں ہے، ماشا اللہ محل ہے۔ انھوں نے اپنے دوست ڈاکٹر مہدی کو فون کرکے بلایا۔ وہ بھی بہت خلیق اور نفیس آدمی ہیں۔ اتفاق سے انھوں نے سو لفظوں کی چند کہانیاں پڑھ رکھی تھیں۔ ناطق بھائی نے اپنے ہاتھوں سے دودھ پتی بناکر پلائی۔ تین شاہکار نظمیں سنائیں۔ پھر ڈاکٹر صاحب نے انڈیگو ریستوران میں کھانا کھایا۔ اس کے منتظمین جالندھر کے تھے۔ ناطق بھائی سے جلندھری پنجابی میں ان کی گفتگو سن کر لطف آیا۔ کھانا بھی مزے کا تھا۔
اب ایک دلچسپ بات سنیں۔ ڈاکٹر صاحب جس شہر میں رہتے ہیں، اس کا نام لوئیس ہے۔ ڈیلاوئیر امریکی اتحاد میں شامل ہونے والی اولین ریاست تھی۔ لوئیس اس کا اولین شہر ہے جو 1631 سے آباد ہے۔ یہ فخر سے خود کو پہلی ریاست کا پہلا شہر کہتا ہے۔ تازہ مردم شماری کے مطابق اس کی کل آبادی صرف 3200 نفوس پر مشتمل ہے۔
نیویارک، شکاگو، لاس اینجلس، ہیوسٹن جیسے شہروں والے ملک میں لوئیس کو شہر کہنا تھوڑا مبالغہ ہوگا۔ دراصل یہ ایک قصبہ ہے۔ روایتی قسم کا امریکی قصبہ۔ دنیا کی ہر سہولت موجود لیکن فلک بوس نہیں، چند منزلہ عمارتیں۔ سوپراسٹورز نہیں، سنگل آؤٹ لٹس۔ چھ آٹھ لین کی شاہراہیں نہیں، چھوٹی سڑکیں۔ ماڈرن انوائرمنٹ نہیں، پرانا پن۔
ساڑھے گیارہ بجے میں نے اجازت چاہی۔ ڈاکٹر صاحب نے اصرار کیا کہ میں رات کو وہیں ٹھہر جاؤں۔ میں نے معذرت کی۔ انھوں نے ڈرایا کہ رات کا سفر خطرناک ہوتا ہے۔ میں نے بتایا کہ صحافی ہوں اور کراچی کے دہشت ناک دور میں نصف شب کے بعد دفتر سے گھر آتا تھا۔ رات، اندھیرا اور سفر زندگی کا حصہ ہیں اور خوف، اگر کبھی لاحق ہوا ہے تو سات ہزار میل دور چھوڑ آیا ہوں۔

مبشر علی زیدی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مبشر علی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریر میں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

mubashar-zaidi has 194 posts and counting.See all posts by mubashar-zaidi