شہزادی کیٹ مڈلٹن اور ان کا دوپٹہ



رائل فیملی پاکستان آئی ہم اس خاندان کے دونوں چشم و چراغ کو پاکستان میں خوش آمدید کہتے ہیں۔ انہوں نے اس دورے میں ملک کے مختلف شہروں اور مقامات کا دورہ کیااور صبح و شام پاکستان کی میڈیا کی رونق بنے رہے لیکن اس پورے دورے میں ایک چیز خاصی زیر بحث رہی جو تھا شہزادی کیٹ مڈلٹن کا دوپٹہ جو کبھی ان کے کندھے، تو کبھی کبھی گلے اور کبھی سر کی زینت بنا رہا۔ اس دوپٹے کی گونج نے پورے سوشل میڈیا کو اپنے آسیر میں جکڑ لیا اور پاکستانی سوشل میڈیا کے اصلاح دین ایوبی، محمود غزنوی اور محمد بن قاسم اسے اسلام کی تعلیمات کا درجہ دیتے رہے، جب کہ چند لبرل نے اسے وقتی پہناوے کا اوڑھنا بچھوڑنا قرار دیا۔ جس سے میرے ذہن میں یہ بات واضح ہو گئی کہ ہم وہ قوم ہیں جو ہاتھ جوڑ کر مانگنا اور پھر دینے والے ہاتھ کو کاٹنا بخوبی جانتے ہیں۔

اس کے بعد میرے ذہن میں چند سوالوں نے بھی جنم لیا۔ شہزادی کیت نے اپنے پورے دورے میں کتنی بار مشرقی لباس کو ترجیح دی؟ کیا جہاز سے اترتے وقت ان کا لباس مشرقی تھا؟ اس مشرقی لباس نے شہزادی کو کتنا تحفظ فراہم کیا؟ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ جو لوگ میرے ان سوالوں پر سوال اٹھا ئیں گے ان کی نظریں نظریں سب سے پہلے شہزادی کے جسم پر پڑی اور بعد میں کہیں لباس پر ان کا دھیاں گیا ہو گا۔ یورپ میں تو حجاب پر بندش لگائی جاتی ہے اور ہم وہ لوگ ہیں جو اس حجاب کو ہی پھاڑ دیتے ہیں۔ مثلاََ سڑک پر برقع میں کالج کی جانب بڑھتے لڑکی کو تاڑنا اور اس کے جسم پر ہاتھ لگانا ہمارا مشغلہ ہے۔ کیا تب یہ روایتی لباس ان لڑکیوں کو تحفظ فراہم کیوں نہیں کرتا؟

اور پڑھیے۔ ماشااللہ سے ہم اس کا درارک کیسے کرنا چاہتے ہیں۔ ایک سماجی تنظیم ساحل کے مطابق جنسی ہراسانی کے گیارہ سو ستتر واقعات ہیں جو پشاور میں بچیوں کے ساتھ ہوئے اور گیارہ سو پچاس واقعات ہین جو بچوں کے ساتھ ہو ئے لیکن حکومت کی جانب سے کیا کیا گیا کہ سرکاری سکولوں میں برقعے تقسیم کروائے گئے۔ کتنی مضحکہ خیز بات ہے اس پر حکومت کو جتنے لافٹر دیے جائیں کم ہیں۔ سوچ کا معیار ملاحظہ کریں کہ جنسی استحصال کپڑوں کے سبب ہوتا ہے تو یہاں پر سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا گھر میں لڑکی اپنے بھائی سے بھی پردہ اختیار کرے۔ کیوں کہ ہے تو وہ بھی مرد۔ دوسری چیز یہ کہ اس سے آپ کو اندازہ تو ہو گیا ہو گا کہ ہم اس مسئلے کے حل کے لیے کتنے سنجیدہ ہیں۔

اب بات یہ ہے کہ مسئلہ کہاں ہے پھر؟ اصل مسئلہ ہے سوچ کا، آئیڈیالوجی کا، اخلاقیات کا۔ اخلاقیات یہ نہیں یہ فلاں شخص نے یا عورت نے جینز پہنی ہے یا شلوار، ٹاپ پہنا ہے یا قمیص، اس کی قمیص کا گلہ بڑا ہے یا چھوٹا، اس کے گلے میں دوپٹہ ہے یا نہیں۔ اخلاقیات کا مطلب ہیں معاملات یعنی وہ جھوٹ تو نہین بولتا، ڈاکہ تو نہیں ڈالتا، کم تو نہیں تولتا، ملاوٹ تو نہیں کرتا،کسی کا حق تو نہیں مارتا اور کسی کا استحصال تو نہیں کرتا وغیرہ۔ یہ فرق ہے ان میں اور ہم میں۔

ایسٹ انڈیا کمپنی نے جب برصغیر میں قدم جمائے تو اس وقت برصغیر کا رقبہ تھا نو لاکھ چوہتر ہزار مربع میل اور انگلینڈ کا رقبہ صرف پچاس ہزار تین سو چوراسی مربع میل۔ رقبے میں اتنا فرق تھا پھر بھی پورے برصغیر پر کئی دہیائیوں تک حکومت کی۔ وہ اس لیے کہ ان کی اقتصادیات اور اخلاقیات میں کوئی کھوٹ نہیں تھا۔ جس کی تصدیق روس کے ایک عظیم لکھاری لیو ٹولس ٹوائے نے اپنی کتاب
(The Relentless Rise of the East India Company)
میں بھی کی ہے وہ لکھتے ہیں:
“A commercial company slaved a nation comprising twenty million people.”

خیر بات یہاں ہے شہزادی کیٹ مڈلٹن اور ان کے دوپٹے کی تو ایک طویل عرصے کے بعد پاکستان آ کر شاہی خاندان کے جوڑے نے صرف یہ دیکھا کہ جیسا ہم اس علاقے کو چھوڑ کر گئے تھے یہ تو معاشی، اقتصادی اور اخلاقی لحاظ سے اس سے بھی کہیں زیادہ پست ہے، اور میرا یقین کریں شہزادی کے دل میں یہ خیال بھی ضرور آیا ہوگا کہ پاکستانیوں کو میرا دوپٹہ تو ضرور نظر آیا مگر ترقی پر گام زن ہمارا ملک اور اخلاقیات پر قائم معاشرہ نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).