انسانوں کی خون آشام بستی


بر اعظم امریکہ میں چمگادڑوں کی ایک انوکھی قسم پائی جاتی ہے، اسے Vampire Batیعنی ”خون آشام چمگادڑ“ کہا جاتا ہے، یہ چمگادڑ دیکھنے میں بالکل چمگادڑ لگتی ہے کیونکہ یہ چمگادڑ ہی ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ یہ حسب توفیق دوسرے جانوروں کا خون چوستی ہے جن میں انسان بھی شامل ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر دو دن تک کسی چمگادڑ کو خون پینے کے لیے کوئی شکار نہ ملے تو اُس کی حالت غیر ہو جاتی ہے، پھر وہ اپنی برادری میں کسی ایسی چمگادڑ سے خون کا عطیہ مانگ لیتی ہے جو سیر ہو کر آئی ہو، یہ چمگادڑیں اِس خون کے تحفے کو یاد رکھتی ہیں اور پھر ضرورت پڑنے پر اپنی محسنہ چمگادڑ کو اتنا ہی خون لوٹا بھی دیتی ہیں جب اسے کہیں سے خون نہیں ملتا اوریوں تعاون کایہ سلسہ چلتا رہتاہے۔

ماہر حیوانیات جیرالڈ کارٹر نے مشی گن میں چمگادڑوں کے گروہ کو ایک جگہ بند کرکے تین سال تک اُن کابغور مشاہدہ کیا (کیسے کیسے لوگ ہیں دنیا میں )، اِس دوران کارٹر مد وظلہ نے پورا حساب رکھا کہ کون کون سی چمگادڑ اپنے کھانے پینے میں دوسروں کو شریک کرتی ہے، اِس مقصد کے لیے موصوف نے کچھ چمگادڑوں کو چوبیس گھنٹوں کے لیے بھوکا رکھا اور پھر انہیں دوسروں کے ساتھ چھوڑ دیا، یہ تجربہ سینکڑوں مرتبہ دہرایا گیا تاکہ کسی قسم کا ابہام نہ رہے۔

کارٹر کو یہ جان کر بہت حیرت ہوئی کہ ایسی بھوکی چمگادڑیں جو پہلے دوسروں کو اپنے کھانے میں شریک کر چکی تھیں اُن کی فوراً مدد کی گئی اور انہیں کھانا میں شامل کیا گیا مگر وہ بھوکی چمگادڑیں جنہوں نے کسی کی مدد نہیں کی تھی اُن کی بھی جوابا ً کسی نے مدد نہیں کی اور وہ بھوکی ہی رہیں، مگر اُن سے یہ سلوک زیادہ دیر روا نہیں رکھا گیا اور جلد ہی انہیں بھی کھانے پینے میں شریک کر لیا گیا۔

اِن خون آشام چمگادڑوں کی طرح انسان نے بھی خون چوسنے کے کچھ خوشنما طریقے وضع کر رکھے ہیں جن کی آڑ میں سوٹڈ بوٹڈ لوگ انسانوں کا خون چوستے ہیں اور عام لوگوں کواحساس ہی نہیں ہو پاتا، فرق مگر یہ ہے کہ چمگادڑیں محض چند قطرے خون چوستی ہیں اور پھر اپنی برادری میں ضرورت مندوں کو عطیہ بھی کرتی ہیں جبکہ ہم انسانوں کے خون چوسنے کی کوئی حد نہیں۔ سیٹھ صاحب اپنے کارخانے میں مزدور کو کام دیتے ہیں، مزدور خوش ہو جاتا ہے کہ اسے نوکری مل گئی، غریب کو احساس ہی نہیں ہو پاتا کہ دراصل سیٹھ صاحب نے اسے نوکری نہیں بلکہ اُس نے سیٹھ کو اپنا خون پینے کی اجازت دی ہے۔

دفاتر میں برا جمان خون آشام افسر دن رات سائلوں کاخون چوستے ہیں، یہ افسران روزانہ سوٹ ٹائی لگا کر اپنی کرسی پر آ کر بیٹھ جاتے ہیں اور فائلوں پر انگریزی میں نوٹ لکھتے ہیں، بظاہر ان سب کی انگریزی مختلف ہوتی ہے مگر نتیجہ میں کام ایک ہی ہوتا ہے، عوام کا خون چوسنا۔ بڑی بڑی کمپنیاں کابھی یہی وطیرہ مگر انداز قدرے دلفریب ہے، یہ کسی ڈریکولا کی طرح حملہ آور نہیں ہوتیں بلکہ حسین عورت کے روپ میں ناز و ادا کے ساتھ جلوے دکھاتی ہیں، کارپوریٹ کے

لفظ میں ویسے ہی بڑی دلکشی ہے۔ ایپل کو ہی لے لیں، اس کے ہر فون کے پیچھے لکھا ہوتا ہے ”کیلی فورنیا میں ڈیزائن کیا گیا، چین میں بنایا گیا“۔ چین میں جو کمپنی آئی فون بناتی ہے اس کے تیرہ لاکھ ملازمین ہیں، اس سے زیادہ ملازمین صرف میک ڈانلڈ اور وال مارٹ کے ہیں، مگر اِس کمپنی کے ملازمین کے استحصال کا یہ عالم ہے کہ 2010 میں 18 ملازموں نے خود کشی کی کوشش کی جن میں سے 14 کی موت واقع ہوئی، کچھ لوگوں نے تودن دیہاڑے کمپنی کی عمارت کی چھت سے خود کر اپنی جان دی۔

خون چوسنے والی اِس کمپنی فاکسکون کے سی ای او ٹیری گاؤ ¿ نے اِن خود کشیوں کا حل یہ نکالا کہ اپنی عمارتوں کے باہر جال بچھا دیے تاکہ کودنے والے اُن پر آن گریں، یہی نہیں بلکہ اُن سے ایک حلف نامہ لیا جانے لگا کہ وہ کمپنی کی ملازمت کے دوران خود کشی نہیں کریں گے۔ آنجہانی سٹیو جابز سے جب اس معاملے پر رائے مانگی گئی تو اِس صدی کے عظیم ڈیزائنر نے کہا ”فاکس کون کمپنی میں خود کشی کی شرح چین کی قومی اوسط سے بڑھ کر نہیں ہے“۔

2012 میں کمپنی کی عمارت کی چھت پر 150 ملازم جمع ہوئے اور انہوں نے دھمکی دی کہ وہ کود کر اپنی جان دینے لگے ہیں، بڑی مشکل سے انتظامیہ نے انہیں راضی کرکے نیچے اتارا، وعدہ یہ کیا گیا کہ اُن کا خون کم چوسا جائے گا۔ یہی کمپنی ایمیزون کی سپلائیر بھی ہے، برطانوی اخبار گارڈین کی رپورٹ کے مطابق ایمیزون کی طرف سے دیے گئے اہداف کو پورا کرنے کے لیے کمپنی نے بچوں کو بھی نہیں بخشا اور دن رات ان کا خون چوس کر اُن سے کام لیا اور چینی لیبر قوانین کی خلاف ورزی کی۔

یہ کمپنیاں بے شک غریبوں کا خون پیتی ہیں مگر بدلے میں تھوڑا بہت معاوضہ بھی دے دیتی ہیں، مفت خوری نہیں کرتیں، غریب مزدور خون کے عوض اپنے بچوں کی روٹی توپوری کرہی لیتا ہے، ویسے بھی اِس سفاک دنیاسے اور کیامل سکتا ہے! مگر ہم نے چونکہ دنیا کی امامت کا ٹھیکہ اٹھا رکھا ہے اس لیے ہمیشہ دو قدم آگے ہی رہتے ہیں، ہماری تسلی خون چوسنے سے نہیں ہوتی، ہم کتنا بھی خون پی لیں پیاس نہیں بجھتی، ہم سڑک پر اندھا دھند گولیاں برسا کر معصوم بچوں کے سامنے اِن کے ماں باپ کا خون بہا تے ہیں اور اُس کے بعد ڈنکے کی چوٹ پر انصاف کا بھی خون کر ڈالتے ہیں، ہمارا بس چلتا تو ہم شاید اُن بچوں کا بھی خون پی جاتے جو غلطی سے زندہ بچ گئے۔

اِنسانوں کی اِس خون آشام بستی سے توچمگادڑوں کا وہ گروہ بہتر ہے جو ایک دوسرے کا خون پینے کی بجائے دوسرے جانوروں کا خون پیتا ہے اور پھر ضرورت پڑنے پر آپس میں بانٹ بھی لیتا ہے۔ ہم لوگ تو خونی چمگادڑوں سے بھی بد تر ثابت ہورہے ہیں، ایسی نئی روایت کو ہم نے جنم دیا ہے کہ جس میں اپنے سیاسی مخالف کے خون سے ہمیں نفرت کی پیاس بجھانی ہے، کوئی بھلے زندگی موت کی کشمکش میں ہو ہمیں فرق نہیں پڑتا، اگر وہ ہمارا سیاسی مخالف ہے تو ہمیں اُس کا خون چاہیے بس، اس سے کم پر ہم راضی نہیں۔

حالانکہ انسانوں کی اِس خون آشام بستی میں اِس سے پہلے کئی مرتبہ ہم اپنے سیاسی مخالفین کا خون پی چکے ہیں مگر ہمارے اندر کے ڈریکولا کی تسکین نہیں ہوتی، اسے ہر وقت تازہ خون چاہیے، ہم تھوڑے تھوڑے عرصے بعد اِس ڈریکولا کو قابو کرنے کے لیے کسی کو ”بلی“ چڑھاتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ شاید اب ہماری قربانی قبول ہو جائے گی مگر اب تک ایسا نہیں ہوا اور نہ آئندہ ہوگا۔ ایک دوسرے کا خون چوس کر اب ہم سب کی شکلیں ڈریکولا جیسی ہو گئی ہیں، ہمیں ایک دوسرے سے خوف آنے لگا ہے، نہ جانے کب کہاں کوئی کسی پر گولیاں برسا کر اُس کا خون پی جائے یا سیاسی نفرت میں اندھا ہو کر اپنے مخالف کا اتنا خون پی جائے کہ اُس کی جان ہی چلی جائے۔ اپنی ماضی کی غلطیوں سے تو ہم نے کچھ نہیں سیکھا، اس مرتبہ کی غلطی مگر ایسی بھیانک ہوگی جس کا مداوا شاید ہماری آنے والی نسلیں بھی نہ کر سکیں۔

(ہم سب کے لئے خصوصی طور پر ارسال کیا گیا)

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 496 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada