پیمرا ہدایت نامہ: اسلام آباد ہائی کورٹ نے صحافیوں کو زیر سماعت مقدمات پر تبصروں سے کیوں منع کیا؟


پیمرا

پیمرا کے ہدایت نامے میں کہا گیا ہے کہ جن چیلز کے پاس ٹائم ڈیلے کی سہولت موجود نہیں ہے انھیں براہ راست پروگرام نشر کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے

اتوار کی شام پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی پیمرا نے ٹی وی چینلز پر ہونے والے تبصروں اور تجزیوں کے حوالے سے ایک ہدایت نامہ جاری کیا ہے جس میں نیوز چینلز کو عدالت میں زیر سماعت مقدمات پر تبصروں سے اجتناب کی ہدایت کی گئی ہے۔

پیمرا کی جانب سے جاری ہدایت نامے کے مطابق ٹاک شوز میں عدلیہ اور ریاستی ادراوں کے خلاف یکطرفہ تجزیے اور پروپیگنڈے کی صورت میں متعلقہ ادارہ ذمہ دار ہو گا۔

نہ صرف یہ بلکہ پیمرا نے ٹی وی چینلز کو ٹاک شوز کے لیے بلائے جانے والے مہمانوں کے انتخاب میں احتیاط برتنے بلکہ ٹی وی پر پروگرام کرنے والے اینکرز کو غیر جانبداری کے ساتھ اپنے فرائض سرانجام دینے کی ہدایات بھی دی گئی ہیں۔

https://twitter.com/reportpemra/status/1188433478158897153

اس ہدایت نامے میں کہا گیا ہے کہ:

  • ٹی چینلز عدالت میں زیر التوا معاملات پر کوئی بھی بحث، تجزیہ یا قیاس آرائی نشر نہیں کریں گے اور اپنے چینل کو عوام کو گمراہ کرنے کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے۔
  • ایسے اینکرز جو ٹی وی پر اپنا شو بھی کرتے ہیں انھیں اپنے یا کسی اور چینل پر بطور تجزیہ کار آنے کی اجازت نہیں ہوگی۔
  • جن چیلز کے پاس ٹائم ڈیلے کی سہولت موجود نہیں ہے انھیں براہ راست پروگرام نشر کرنے سے اجتناب کرنا ہوگا۔
  • ہر چینل کو ایک مانیٹرنگ کمیٹی یا ادارتی بورڈ تشکیل دینا ہوگا جس میں کم از کم پانچ سال تجربے والا ایک وکیل بھی موجود ہوگا۔ اس کمیٹی کا کام چینل کے پروگراموں میں ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزیوں کی روک تھام کو یقینی بنانا ہوگا۔

پیمرا کے مراسلے میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ یہ ہدایات اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے سنیچر کو جاری کیے جانے والے احکامات کی روشنی میں جاری کی گئی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

ٹی وی پر کون آئے گا، کیا پیمرا یہ فیصلہ کر سکتا ہے؟

کیا پیمرا نے فضل الرحمان کی پریس کانفرنس بند کروائی؟

پیمرا: ’حمد اللہ پاکستانی نہیں، ٹی وی پر مدعو نہ کیا جائے‘

ٹی وی چینل اور ریٹائرڈ فوجی

نواز شریف

جسٹس من اللہ نے نواز شریف کی ممکنہ رہائی پر اینکر پرسن سمیع ابراہیم کے کچھ تبصروں کا حوالہ دیتے ہوئے پوچھا کہ وہ کس ڈیل کی بات کرتے ہیں تاہم صحافی نے جواب میں خاموشی اختیار کرنا مناسب سمجھا

نواز شریف کی رہائی کی مبینہ ڈیل اور اینکرز کے تبصرے

واضح رہے کہ سنیچر کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک غیر معمولی عدالتی کارروائی دیکھنے میں آئی جب سابق وزیر اعظم نواز شریف کی رہائی کی درخواست کی سماعت میں بنچ نے فریقین سے پہلے کچھ صحافیوں کو روسٹرم پر بلایا۔

عدالت میں موجود صحافیوں میں حامد میر، محمد مالک، عامر متین، کاشف عباسی، ارشد شریف اور سمیع ابراہیم شامل تھے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے صحافیوں سے کہا کہ ’جناب یہ مقدمہ ابھی ہم سن رہے ہیں اور آپ اس پر تبصرے اور ڈیل کی باتیں کر رہے ہیں۔ یہ بتائیں کہ یہ ڈیل کون کر رہا ہے اور کیا ہم بھی اس ڈیل کا حصہ ہیں؟ کیا اشارہ وزیر اعظم یا عسکری اداروں کی طرف ہے؟‘

جسٹس من اللہ نے اینکر پرسن سمیع ابراہیم کے کچھ تبصروں کا حوالہ دیتے ہوئے پوچھا کہ وہ کس ڈیل کی بات کرتے ہیں تاہم صحافی نے جواب میں خاموشی اختیار کرنا مناسب سمجھا۔

چیئرمین پیمرا کی جانب سے ان کا ایک نمائندہ عدالت میں پیش ہوا۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے ان سے پوچھا ’آپ روز پروگرام دیکھتے ہیں؟ انجوائے کرتے ہوں گے کہ عدلیہ پر کیچڑ اچھالا جا رہا ہے؟‘ جسٹس من اللہ نے کہا ’آپ عسکری اداروں اور منتخب وزیراعظم کو بھی بدنام ہونے دے رہے ہیں۔‘

سماعت کے اختتام پر عدالت نے سمیع ابراہیم کو توہین عدالت کا شو کاز نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا کہ عدالت میڈیا کے ان تبصروں سے متعلق پوچھ گچھ آئندہ سماعت میں بھی جاری رکھے گی تاہم ایک صحافی کے علاوہ کسی اور کے خلاف ابھی توہین عدالت کی کارروائی شروع نہیں کی۔

’ججز اور صحافیوں کی حدیں متعین ہیں‘

یہ بحث ایک عرصے سے چلی آ رہی ہے کہ آخر میڈیا کو کس حد تک اس طرح کے زیر التوا مقدمات پر تبصرے اور تجزیے کرنے کا حق حاصل ہے۔ تو اس بارے میں سینئیر صحافی اور سابق ججز کیا رائے رکھتے ہیں؟

عبدالشکور پراچہ وفاقی سیکرٹری قانون اور جج رہ چکے ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کے نامہ نگار اعظم خان سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ جس طرح ججز کی ایک حد ہوتی ہے اسی طرح صحافیوں کی بھی ایک خاص حد متعین ہے۔ ان کے خیال میں اس طرح کی صورتحال میں ججز کی حد پاکستان الیکٹرونک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی تک ہے۔

ان کے خیال میں اگر کسی صحافی نے توہین عدالت کی ہے تو پھر اسے بلایا جاسکتا ہے اور اس کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جا سکتی ہے۔ لیکن بغیر کسی کریمنل کیس کے جج کو بھی قانون اپنی حد سے آگے بڑھنے کی اجازت نہیں دیتا۔

سینئیر صحافی محمد ضیا الدین رات آٹھ سے 11 بجے والے شوز کو اس طرح کی صورتحال کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔

ان کے خیال میں ٹی وی شوز سے پہلے اس قانون پر سختی سے عمل ہوتا تھا جس کے تحت زیر التوا مقدمات کو زیر بحث نہیں لایا جا سکتا ہے۔

سابق جسٹس ناصرہ جاوید نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے دور میں یہ بتایا جاتا تھا کہ بطور جج آپ کو اخبار تک نہیں پڑھنا چائیے۔ لیکن اب دور تبدیل ہوگیا ہے۔ وہ اس کا ذمہ دار عدلیہ کو نہیں سمجھتیں۔ ان کے خیال میں ججز بھی انسان ہی ہوتے ہیں وہ کون سا مریخ سے اترے ہوئے ہیں۔

پاکستان

سینئیر صحافی محمد ضیا الدین رات آٹھ سے 11 بجے والے شوز کو اس طرح کی صورتحال کا ذمہ دار سمجھتے ہیں

تاہم ضیاالدین اس رائے سے اتفاق نہیں کرتے کیونکہ وہ اس صورتحال کا ذمہ دار بھی ججز کو ہی قرار دیتے ہیں۔

ان کے خیال میں عدلیہ ہمیشہ میڈیا کے ساتھ ہی کھڑی رہی کیونکہ ان ٹاک شوز کے ذریعے انھیں بھی پروموشن مل جاتی تھی۔

وہ کہتے ہیں ’اب مسئلہ یہ پیدا ہو گیا ہے کہ زیر التوا مقدمات تک پر تبصرے اور تجزیے اس انداز میں ہورہے ہوتے ہیں کہ جج کے ریمارکس کو نیا ہی زاویہ دے دیا جاتا ہے۔‘

ضیا الدین کا خیال ہے کہ زیر التوا مقدمات پر بحث نہ کرنے والے قوانین پر سختی سے عمل ہونا چائیے۔

عبدالشکور پراچہ کے خیال میں اس وقت صورتحال کچھ ایسی بنی ہوئی ہے کہ ملکی ادارے ایک دوسرے کی حدود میں مداخلت کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کے خیال میں کسی بھی عدالت کو بغیر مقدمات کے صحافیوں کو براہ راست طلب نہیں کرنا چائیے۔

وہ کہتے ہیں ’آئین میں اختیارات کا ایک توازن رکھا گیا ہے۔‘

خیال رہے کہ عام طور پر سنیچر کو عدالت مقدمات پر سماعت نہیں کرتی البتہ اگر کسی نے کوئی درخواست یا مقدمہ عدالت تک پہنچانا ہو تو دفاتر کھلے ہوتے ہیں۔

لیکن سنیچر کو تو چیف جسٹس اطہر من اللہ خود اس غیر معمولی مقدمے کی سماعت کررہے تھے۔ وہ پہلی سماعتوں پر بھی اس مقدمے کے ساتھ جڑے ’خصوصی حالات‘ کا حوالہ دیتے رہے ہیں۔

یعنی عدالت کی طرف سے ہی اسے خاص مقدمہ قرار دیا گیا ہے۔ اس کیس کی اگلی سماعت اب منگل کو دن ساڑھے گیارہ بجے ہو گی اور اس سماعت پر بھی میڈیا کردار زیر بحث رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32294 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp