انڈیا کے زیر انتظام کشمیر: یورپی سیاستدانوں کا دورہ آزادانہ یا ’پی آر سٹنٹ‘


یورپی پارلیمنٹ

یورپی پارلیمان کے 28 ارکان کا ایک گروپ منگل کو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کا دورہ کرے گا۔ اس برس 5 اگست کو انڈیا کے آئین سے آرٹیکل 370 کے ختم کیے جانے کے بعد کسی بھی غیر ملکی قانون سازوں کے گروپ کا یہ کشمیر کا پہلا دورہ ہے۔

سوموار کو کشمیر جانے والے یورپی سیاستدانوں نے انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کی جس میں نریندر مودی نے ان سے کہا کہ ’دہشت گردی کی حمایت کرنے والوں اور اس کو فروغ دینے والوں کے خلاف زبردست کارروائی ہونی چاہیے اور ان کو ہرگز برداشت نہیں کیا جانا چاہیے۔

یورپی یونین کے گروپ کے ایک رکن بی این ڈن نے کہا کہ وہ وادی میں عام کشمیریوں سے ملاقات کرنے اور وہاں کے حالات جاننے کے لیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کل وزیر اعظم نے انھیں آرٹیکل 370 کے بارے میں بتایا لیکن وہ خود وہاں جا کر زمینی حقائق معلوم کرنا چاہتے ہیں۔

نریندر مودی

لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کے ایک رہنما نے اس دورے کو ’سٹنٹ‘ کہا

لیکن دورہ شروع ہونے سے پہلے ہی تنازعات کا شکار ہوتا نظر آ رہا ہے۔ انڈیا میں حزب اختلاف نے بھی اس پر سوال اٹھانا شروع کر دیے ہیں۔ کانگریس پارٹی کے رہنما جے رام رمیش نے ٹوئٹ کیا کہ جب انڈیا کے سیاستدانوں کو جموں اور کشمیر میں لوگوں سے نہیں ملنے دیا جا رہا تو یورپی یونین کے سیاستدانوں کو اس کی اجازت کیوں دی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ انڈیا کی پارلیمان اور جمہوریت کی توہین ہے۔

ادھر برطانیہ میں لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کے مطابق اس کے یورپی پارلیمان کے رکن کرس ڈیوس کو انڈیا نے کشمیر کا دوریٰ کرنے کی دعوت دی تھی۔ لیکن ایک بیان میں ڈیوس نے کہا کہ جب انہوں نے زور دیا کہ وہے مقامی لوگوں سے آزادی سے بات کرنا چاہتے ہیں تو ان کے دعوت نامے کو فوراً واپس لے لیا گیا۔ اس بات کی انڈیا کی حکومت سے تصدیق نہیں ہو سکی۔

کرس ڈیوس نے اپنے بیان میں کہا کہ ’میں مودی حکومت کے لیے تعلقات عامہ ٹھیک کرنے کے ایک سٹنٹ میں حصہ لینے کے لیے تیار نہیں ہوں اور نہ ہی یہ دکھانے کے لیے کہ سب ٹھیک ہے۔ یہ بالکل واضح ہے کہ کشمیر میں جمہوری اصولوں کو توڑا گیا ہے اور دنیا کو نوٹس لینا شروع کرنا ہوگا۔‘

آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد وادی میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ وادی میں سیکشن 144 نافذ ہے۔ اکثر بڑے کشمیری رہنما یا تو نظربند ہیں یا جیلوں میں ہیں۔ لوگوں میں حکومت کے اس یکطرفہ فیصلے کے خلاف نفرت پائی جاتی ہے۔

کشمیر میں انڈیا کے فوجی

پاکستان کی طرف سے سفارتکاروں کا دوریٰ

پاکستان نے بھی حال ہی میں بین الاقوامی سفارتکاروں کے ایک گروپ کو اپنے زیر انتظام کشمیر میں اس جگہ کا دوریٰ کروایا تھا جہاں اس کے مطابق انڈیا کی گولہ باری سے عام لوگوں کا جانی اور مالی نقصان ہوا تھا۔   

انڈیا کا جموں اور کشمیر کے بارے میں ہمیشہ یہ موقف رہا کہ یہ انڈیا کا اٹوٹ انگ ہے اور اس مسئلے پر بین الاقوامی سطح پر بات چیت ضروری نہیں ہے۔ لیکن سرکاری ذرائع کے مطابق انڈیا کی حکومت نے عالمی دباؤ کی وجہ سے یہ قدم اٹھایا ہے۔

انڈیا کی حکومت یہ بھی دکھانا چاہتی ہے کہ کشمیر میں عام زندگی معمول کے مطابق چل رہی ہے اور یہ کہ 5اگست کے بعد سے کوئی بڑا واقعہ پیش نہیں آیا ہے۔

انڈیا کے ایک سابق سفارتکار راجیو ڈوگرا کا، جو پاکستان میں بھی فرائض انجام دے چکے ہیں، کہنا ہے کہ انڈیا نے صحیح قدم اٹھایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی طرف سے جو ’دہشتگردی‘ کی گئی اس سے نمٹنے میں کچھ وقت تو لگے گا۔ انہوں نے کہا کہ اب حالات بہتر ہوئے ہیں تو انڈیا غیر ملکی صحافیوں اور سفارتکاروں کو کشمیر جانے کی اجازت دے کر یہ دکھانا چاہتا ہے کہ حالات قابو میں ہیں۔

آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد بننے والے قانون کو 30 اکتوبر سے نافذ کیا جائے گا۔ انڈیا کی طرف سے آرٹیکل 370 کے خاتمے کی پاکستان نے شدید مخالفت کی ہے اور اسے نہ صرف اقوام متحدہ میں اٹھایا بلکہ اسے ایک بین الاقوامی مسئلہ بنانے کی کوشش بھی کی ہے۔

کشمیر میں احتجاج


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp