کشمیر پر پاکستانی سفارتکاری: ہوئے تم دوست جس کے


\"aliحکومت کی طرف سے کشمیر پر سفارت کاری کا مقصد اگر بین الاقوامی برادری میں پاکستان کے امیج کو دیکھنا تھا تو طریقہ کار انتہائی مہنگا تھا کیونکہ انٹرنیٹ کے دور اور گوگل کی موجودگی میں اس کے لئے کہیں جانے کی ضرورت نہیں تھی بلکہ دنیا کے چند بڑے بڑے اخبارات کے اداریوں اور مضامین سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا میں اس بارے میں کیا تصور موجود ہے۔ اگر اس کا مقصد بین الاقوامی رائے عامہ کو ہموار کرنا تھا تو صحیح لوگوں کا انتخاب نہیں کیا گیا کیونکہ پاکستان کی پارلیمنٹ کے ممبران سے زیادہ اس کام کے لئے کشمیر کی سول سوسائٹی، طلبہ، سیاستدان، اور صحافی موثر ہو سکتے ہیں۔ لیکن جو فیڈ بیک یا آراء موصول ہوئی اس کے مطابق دنیا میں ہمارے کچھ محبوب دوستوں کی وجہ سے سخت ناراضی پائی جاتی ہے۔ جب یہ پیام نامہ بر لے آیا تو وہی برا لگا۔

گلاب سنگھ نے 16 مارچ 1846 کو امرتسر میں انگریزوں سے ایک معاہدہ کر کے ایک خود مختار ڈوگرہ راج کے ساتھ ہی جموں و کشمیر کی ریاست کی بھی بنیاد رکھی تھی۔ پندرہ اگست 1947 تک انگریزوں اور ڈوگروں کے بیچ میں محبت اور نفرت کا ملا جلا ایک رشتہ قائم رہا۔ قرائین و شواہد بتاتے ہیں کہ آخری مہاراجہ کشمیر ہری سنگھ کا ہندوستان سے الحاق کا اس لئے کوئی ارادہ نہیں تھا کہ ہندوستان میں سوشلزم کی دلدادہ کانگریس نے پہلے ہی جاگیر داری کے نظام کو ختم کرنے کا اعلان کیا ہوا تھا اور وہ اپنی ریاست سے محروم نہیں ہونا چاہتا تھا۔ مہاراجہ ہری سنگھ کی پہلی ترجیح اپنی خود مختاری کو قائم رکھنا تھا جس کی ناکامی پر پاکستان سے الحاق اس کی مجبوری تھی جہاں مسلم لیگ کا جاگیرداری اور سرمایہ داری کے خلاف کوئی پروگرام نہیں تھا۔

انگریزوں کا اپنا بھی خیال یہی تھا کہ ہری سنگھ اپنی خودمختاری کو ترجیح دے گا اور کسی سے الحاق نہیں کرے گا۔ جنرل گریسی نے کشمیر میں پاکستان کی افواج بھیجنے اور اس پر قبضہ کرنے کی مخالفت کی تھی۔ جب پاکستان کی طرف سے قبائلی جنگجوؤں نے جہاد کا اعلان کیا اور حملہ اور ہوئے تو ہر ی سنگھ نے ہندوستان سے کہا کہ وہ ریاست اور اس کے شہریوں کا دفاع کرے۔ یوں غیر ریاستی عناصر کی جہاد کے نام پر مداخلت نے ہی ہندوستان کی افواج کشمیر میں گھسنے کا جواز اور بہانہ فراہم کیا۔ کشمیر کی حدود میں گھسنے والے قبائلی جنگجوؤں نے جو کچھ وہاں کیا اس کے نتیجے میں ہندوستان کی فوج کے پہنچنے سے پہلے ہی مقامی آبادی نے ان کے خلاف مزاحمت کی تھی۔

کشمیر کے مہاراجہ کی طرف سے ہندوستان کے ساتھ الحاق کے معاہدہ پر دستخط کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں قرار داد منظور ہوئی جس میں الحاق کے سلسلے میں ہندوستان اور پاکستان کے ساتھ الحاق کے لئے استصواب رائے کا کہا گیا۔ مہاراجہ کے اس معاہدہ کو کشمیریوں نے ہندوستان کی طرف سے ایک دھاندلی سے تعبیر کیا اور اس کو کبھی قبول نہیں کیا۔ پاکستان نے ایک طرف تو کشمیریوں کی ایک آزاد حکومت کے قیام میں مدد دی اور دوسری طرف کشمیر کی خود مختاری کے مطالبے کی حمایت بھی جاری رکھی۔ اس دوران کشمیر کی خود مختاری کے لئے کام کرنے والی تنظیمیں وجود میں آئیں جن میں جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ سر فہرست ہے۔

دنیا کے سامنے کشمیر کا مسئلہ کشمیریوں کی خودمختاری کا تھا جن پر ہندوستان کی افواج نے رات کے اندھیرے میں قبضہ کیا تھا۔ گو کہ کشمیر کی خود مختاری کی جدوجہد بھی تشدد سے بھر پور رہی ہے جس میں قتل، اغوا اور حملے ہوتے رہے لیکن یہ سب کشمیریوں کی اپنی تحریک کا حصہ تھا اس لئے پاکستان کی حمایت کو محض اخلاقی اور سیاسی مدد ہی سمجھا جاتا رہا۔ اس پورے دور میں کشمیر کی حق خود ارادیت اور حق خود اختیاری کے لئے پاکستان کے موقف کو دنیا بھر میں پزیر ائی ملی۔ کشمیر کے غیر مسلم پنڈتوں کی بھی پاکستان کے موقف کو حمایت حاصل تھی۔ پاکستان سیاسی اور سفارتی محاز پر ایک وکیل کی حیثیت سے کشمیریوں کی خود مختاری کا مقدمہ بھر پور انداز میں لڑتا رہا۔ اس دوران قبول بٹ کی پھانسی اور امان اللہ خان کی قید و بند اور نوجوان کشمیریوں کی شہادتوں نے جدو جہد کی کئی داستانیں رقم کیں۔

تحریک آزادی کشمیر میں ایک بڑا موڑ اس وقت آیا جب 1980کی دہائی کے آخر میں افغانستان کی جنگ کے تربیت یافتہ جنگجو اس میں نہ صرف شامل ہوئے بلکہ اس کی قیادت بھی کی۔ ان جنگجوؤں نے تحریک آزادی کشمیر کو قومی سوال سے زیادہ مذہبی مطالبہ بنادیا۔ کشمیر کی آزادی کی یہ جنگ سری نگر، مظفر آباد اور جموں سے نہیں بلکہ مرید کے اور لاہور سے لڑی جانے لگی۔ جب افغانستان کے طالبان نے نیپال سے جہاز اغوا کر کے لاہور کے مولانا مسعود اظہر کو ہندوستان کی قید سے چھڑا کر قندھار میں رہا کردیا تو دنیا کے لئے کشمیریوں سے زیادہ اب یہ جنگ ایک خاص مکتبہ فکر کی جنگ بن گئی تھی جن کی طرز حکمرانی اور نقطہ نظر سےپوری دنیا کو اختلاف تھا۔ اب دنیا کے لئے کشمیر میں جاری کشمکش مظلوم کشمیریوں کی قومی حق خود ارادیت سے زیادہ دہشت اور خوف کے راج کے لئے لڑی جانے والی جنگ تھی جس کی حمایت کرنا امن پسند لوگوں کے لئے مشکل ہو گیا تھا۔

کارگل کی 1999 کی جنگ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان لڑی جانے والی چوتھی جنگ تھی جس کو صرف مقامی جنگجوؤں کی جنگ قرار دے کر پاکستان کی فوج کے بالواسطہ یا بلا واسطہ ملوث ہونے سے انکار کیا گیا لیکن جنگ کے خاتمے پر دو نشان حیدر سمیت کئی فوجی اعزازات فوجیوں کو دے کر اپنے ہی موفق سے روگردانی کی گئی۔ یہ غیر اعلانیہ جنگ عالمی خبروں میں رہی اور اس پر بڑے بڑے اخبارات میں بہت کالم اور بعد میں کتابیں بھی لکھی گئیں۔ پاکستان کے اس وقت کے چیف آف آرمی سٹاف اور بعد میں صدر پرویز مشرف نے بھی ایک کتاب لکھی جس میں ان کو اعتراف کرنا پڑا کہ کارگل کی غیر اعلانیہ جنگ دراصل ایک ناکام فوجی مہم تھی۔ ان واقعات سے کشمیر کی تحریک آزادی کو سیاسی اور سفارتی سطح پر شدید نقصان پہنچا۔

کشمیر کی تحریک آزادی میں جہادیوں کی شرکت نے جہاں کشمیر کی قوم دوست اور جمہوری سوچ رکھنے والی قوتوں کو دیوار سے لگا رکھا ہے تو وہاں پر کشمیر کی لسانی اور مذہبی اکائیاں اس تحریک سے دور ہو گئیں ہیں۔ لداخ کے بودھ، کارگل کے شیعہ اور نور بخشی، بلتی اور شینا بولنے والے ور درد قبائل خود کو ان جہادی عناصر کی موجودگی میں محفوظ نہیں سمجھتے ہیں۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ 1999 کے کارگل کے معرکے میں جب تک ہندوستان کی فوج پہنچی مقامی مسلمان نوجوانوں نے ہی کارگل پہنچنے والوں کا مقابلہ کیا۔

ان جہادیوں کو پالنے اور ان کو کشمیر کی جدوجہد آزادی میں ملوث کرنے سے نہ بیرونی دنیا میں اور نہ ہی کشمیر کے اندر کوئی پزیرائی ملی ہے تو پھر کیوں ان کو سینے سے لگائے رکھنے کی خواہش پر ہی دم نکلتا ہے۔ ملک کے اندر ان عناصر نے ہر جگہ خون کی ندیاں بہائی ہیں۔ کوئٹہ سے گلگت اور پارا چنار، ڈیرہ اسمٰعیل خان سے کراچی تک ہر جگہ دہشت گردی میں ان جہادیوں کا یا ان کے پروردہ عناصر کا ہی نام لیا جاتا ہے۔ نہ صرف بیرونی دنیا ان عناصر کی موجودگی سے خوش نہیں بلکہ ملک کے اندر بھی چھوٹی مذہبی اکائیاں ان عناصر کی وجہ سے حکومت اور ریاست سے بدگمان ہیں۔ یہ بات اب روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہم اپنے ان محبوب دوستوں کی وجہ سے ہی دنیا میں تنہائی کا شکار ہوتے جارہے ہیں تو ان کی موجودگی میں مودی جیسے دشمنوں کی بھلا کیا ضرورت ہے۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments