انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں یورپی وفد: مودی سرکار کا مقصد ہے کیا؟


یورپی یونین کے ارکانِ پارلیمنٹ کا ایک وفد دو روزہ غیر سرکاری دورے پر انڈیا کے زیر انتظام کشمیر پہنچ گیا ہے۔ سیاسی مبصرین نے اس دورے پر شدید ردِ عمل ظاہر کیا ہے۔

کچھ نے اس دورے کی حمایت کی لیکن کئی مبصرین کے مطابق ان ارکانِ پارلیمنٹ کو کشمیر جانے کی دعوت دیکر انڈین حکومت نے اپنے پیروں پر خود ہی کلہاڑی مارلی ہے۔

پانچ اگست کو جموں کشمیر سے آرٹیکل 370 ختم کیے جانے کے بعد غیر ملکی سیاسی رہنماؤں کا یہ پہلا دورہ ہے۔ انڈین حکومت نے پانچ اگست سے اب تک نہ صرف انڈین ارکان پارلیمنٹ کو کشمیر جانے سے روکا بلکہ غیر ملکی میڈیا اور سیاسی رہنماؤں کو بھی کشمیر جانے کی اجازت نہیں دی تھی۔

کشمیر کا مسئلہ کیا ہے؟

کشمیر:عسکری، نفسیاتی، سیاسی تبدیلیاں

کشمیر کی سنگ بار لڑکیاں

کشمیر

پانچ اگست کو جموں کشمیر سے آرٹیکل 370 ختم کر دیا گیا تھا

مبصرین کے مطابق اب ہر وہ غیر ملکی رکن پارلیمان جو کشمیر کے زمینی حقائق جاننا چاہتا ہے کشمیر جانے کا مطالبہ کر سکتا ہے یا اسے اس اقدام کے بعد یہ اشارے مل سکتے ہیں کہ اب کشمیر جانے میں حکومت رکاوٹ نہیں ہوگی۔

واشنگٹن میں انڈین نژاد مبصر اجیت ساہی کا کہنا ہے کہ مودی حکومت پر کشمیر جانے کا مطالبہ کرنے والے امریکی رکن پارلیمان اور انسانی حقوق کے کارکنوں کا دباؤ بڑھے گا۔ انکا کہنا ہے کہ انہیں روکنا مودی حکومت کے لیے مشکل ہو جائے گا اور یہ انکے گلے کا پھندھا بن جائے گا۔

اس ماہ کے آوائل میں انڈیا نے امریکی کانگریس کے رکن کرِس وان ہیلن کی جانب سے کشمیر کے دورے کے مطالبے کو مسترد کر دیا تھا۔

22 اکتوبر کو امریکی کانگریس کی غیر ملکی امور کی کمیٹی نے واشنگٹن میں ایک میٹنگ کے دوران انڈین سفیر سے کشمیر کے حالات پر وضاحت طلب کی تھی۔

کشمیر

انڈین حکومت کا کہنا ہے کہ کشمیر میں سب ٹھیک ہے

اجیت ساہی اس میٹنگ کے بارے میں کہتے ہیں کہ ‘اس میٹنگ میں ایک کے بعد ایک امریکی کانگریس کے بیس ارکان آئے اور انہوں نے انڈین حکومت سے اتنے تیکھے سوال کیے کہ وہاں موجود انڈین اہلکاروں کی سِٹی گم ہو گئی۔

یورپی یونین کے اراکان پارلیمنٹ کے اس دورے کا پیغام کیا ہے

سوال یہ ہے کہ یورپی یونین کے اراکان پارلیمنٹ کے اس دورے سے حکومت کیا پیغام دینا چاہتی ہے۔حکومت اس دورے سے یہ دکھانے کی کوشش کر رہی ہے کہ کشمیر میں سب کچھ ٹھیک ہے۔

انڈیا اور یورپ میں اس وفد کے ارکان کی تشکیل پر بھی سوال اٹھائے جا رہے ہیں کہ ان میں سے زیادہ تر ارکان کی سیاسی جماعتیں اپنے ہی ممالک میں بہت چھوٹی سطح کی پارٹیاں ہیں اور وہ دائیں بازو کی سیاست میں یقین رکھتی ہیں اور مین سٹریم یورپ میں اسے کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔

کشمیر

اپنے ہی ملک میں کوئی خاص پہچان نہیں ہے

اس ٹیم میں فرانس کی دائیں بازو کی ایک پارٹی کے چھ، پولینڈ کی دائیں بازو کی جماعت کے پانچ جبکہ برطانیہ کی بریگزٹ پارٹی کے چار اور اٹلی اور جرمنی کی دائیں بازو کی جماعتوں کے دو دو ارکان شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ہی برازیل اور سپین کی بھی دائیں بازو کی جماعتوں کے لوگ شامل ہیں یہ جماعتیں اپنے ملک میں تارکین وطن مخالف اور اسلامو فوبیک بیانات کے لیے مشہور ہیں۔

اس وفد میں شمولیت کا دعوت نامہ برطانیہ کی لیبر ڈیمو کریٹک پارٹی کے رکن کِرس ڈیوس کو بھی ملا تھا لیکن انکا کہنا ہے کہ جب انہوں نے یہ شرط رکھی کہ کہ انہیں کسی فوجی یا پولیس کی غیر موجودگی میں عام کشمیریوں سے ملاقات کی اجازت ملنی چاہیے تو انکا دعوت نامہ واپس لے لیا گیا۔

بی بی سی کے ساتھ ای میل پر کیے جانے والے کچھ سوالوں کے جواب میں انہوں نے کہا ہے کہ ‘وہ نریندر مودی حکومت کے اس پی آر سٹنٹ کا حصہ نہیں بننا چاہتے۔

اجیت ساہی کا کہنا ہے کہ مودی حکومت ان چھوٹی چھوٹی پارٹیوں کے رہنماؤں کوکشمیر بھیج کر انہیں اہمیت دے رہی ہے۔ انکا کہنا تھا کہ یہ مودی حکومت کے حق میں بھی بہتر نہیں ہے۔

پیر کے روز وزیراعظم نریندر مودی نے اس ٹیم سے کہا تھا کہ کشمیر میں جہاں چاہیں جا سکتے ہیں لیکن سرکاری ذرائع کے مطابق ان کے دورے کا پورا پروگرام طے ہے۔ گورنر اور سرکاری اہلکاروں سے ملاقات کے علاوہ وہ ان پنچایت اور بلاک سطح کے رہنماؤں سے ملاقات کریں گے جنہیں حال ہی انتخابات میں جیت حاصل ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ انہیں سرینگر کی ڈل جھیل کی بھی سیر کرائی جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32510 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp