پاکستانی نژاد برطانوی شہری کی برطانیہ کے بے گھر افراد کے لیے مہم


پاکستانی نژاد برطانوی شہری ساجد کاہلوں کو ایک وائرل ویڈیو کی وجہ سے شہرت ملی ہے جس میں وہ ایک کافی شاپ کی انتظامیہ سے بحث کر رہے ہیں۔

بحث اس بات پر جاری ہے کہ کیا ایک بے گھر اور مفلوک الحال شخص کو کافی شاپ میں (ادائیگی کے بعد ہی) کھانا کھانے دیا جائے یا نہیں۔

ویڈیو میں وہ کافی شاپ کی انتظامیہ سے کہتے سنائی دیتے ہیں کہ ’یہ میرے دوست ہیں، ان کو پہلے کھانا کھانے دیں اس کے بعد یہ جگہ چھوڑ دیں گے۔‘

مگر کافی شاپ کا سٹاف اس بات پر مصر نظر آتا ہے کہ باوجود اس کے کہ اس شخص کے کھانے کی ادائیگی کر دی گئی ہے، اسے باہر نکال دیا جائے۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستان سے غربت کا خاتمہ کیسے ممکن ہے؟

پانچ ارب روپے کی شادی پر لوگوں کی برہمی

ہنرمند افغان خواتین کا مینا بازار

ویڈیو وائرل ہونے کے بعد ساجد کو بھرپور شہرت ملی اور ہر طرف سے سراہا گیا۔

اب وہ برطانیہ میں بے گھر لوگوں کی تعداد میں کمی کے لیے مہم چلا رہے ہیں جس کو ‘آف سٹریٹ’ کا نام دیا گیا ہے۔

ساجد کاہلوں کون ہیں؟

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ساجد کاہلوں نے بتایا کہ ان کا تعلق ضلع فیصل آباد سے ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کا بچپن فیصل آباد ہی میں گزرا ہے جہاں پر بے وہ گھر تو نہیں تھے مگر انھوں نے غربت کو بڑی قریب سے دیکھ رکھا ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ ان کے والد ایک متوسط طبقے کے کاروباری شخص تھے اور ان کے دن اچھے گزر رہے تھے، مگر اچانک انھیں کاروبار میں ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔

‘صورتحال یہاں تک آ پہنچی کہ ہمیں اپنا گھر فروخت کرنا پڑا۔ وہ وقت بھی دیکھا جب ہماری والدہ کھانا پکاتیں تو اس کے لیے تیل یا گھی بھی نہیں ہوتا تھا۔’

‘سال 2013 میں میں برطانیہ منتقل ہوا اور یہاں پر بھی ایک ریسٹورنٹ میں ویٹر کی ڈیوٹی کرتا رہا۔ اس کے ساتھ پیسے جمع کرتا تھا کہ موقع ملا تو اپنا کاروبار کروں گا۔’

ان کا کہنا تھا کہ خوش قسمتی سے چند سال قبل ایک فلاپ ریستوران انتہائی آسان شرائط پر مل گیا۔ ‘میں نے اس پر کام شروع کیا، سخت محنت کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ ریستوران چل نکلا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ میں برطانیہ میں مختلف ریستورانوں کا مالک ہوں۔’

بے گھر

لندن کی ایک سڑک پر سخت ٹھنڈ میں ایک بے گھر شخص سو رہا ہے۔ برطانیہ سمیت کئی ترقی یافتہ ممالک میں بے گھر بڑا مسئلہ ہے

بے گھر شخص کو کھانا کھلانے کا واقعہ

واقعہ کے متعلق ساجد کاہلوں نے بتایا کہ وہ لندن کی ایک کافی شاپ میں ریفرشمنٹ کررہے تھے کہ انھوں نے دیکھا کہ ایک بے گھر اور مفلوک الحال شخص مختلف ٹیبلوں پر موجود بچا کھچا کھانا تلاش کر رہا تھا۔ ایک ٹیبل پر اس شخص کو ایک کپ میں بچی ہوئی چائے دستیاب ہوئی تو وہ اس کو پینے لگا۔

‘یہ دیکھ کر مجھ سے رہا نہ گیا۔ میں فوراً ان کے پاس پہنچا اور ان سے پوچھا کہ میں آپ کے لیے کیا کر سکتا ہوں۔ اس پر انھوں نے مجھ سے پیسے نہیں مانگے بلکہ کہا کہ وہ کھانا کھانا چاہے گا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کیا کھانا پسند کریں گے تو انھوں نے کہا کہ سینڈوچ اور کافی مل جائے تو کتنا اچھا ہو۔’

ساجد کاہلوں کا کہنا تھا کہ وہ کاؤنٹر پر گئے اور وہاں پر سینڈوچ اور کافی کا آرڈر دیا۔ ’مجھے اس کافی شاپ کا چاکلیٹ کیک بہت پسند ہے اور میں خود بھی وہ کھا رہا تھا۔ اس لیے میں نے اس کے لیے چاکلیٹ کیک کا بھی آرڈر دے دیا، ادائیگی کی، بل وصول کیا اور پھر ان کو ٹیبل پر کھانا پیش کیا۔‘

ساجد کاہلوں کے مطابق ابھی اس شخص نے کھانا شروع ہی کیا تھا کہ کافی شاپ کا سٹاف وہاں پہنچ گیا اور انھوں نے بے گھر اور مفلوک الحال سے کہا کہ وہ فی الفور کافی شاپ چھوڑ دے۔

’تھوڑی دیر میں سیکیورٹی اہلکار بھی وہاں پہنچ گئیں جن کے استفسار پر میں نے ان سے کہا کہ ادائیگی ہوچکی ہے، وہ کھانا کھا رہے ہیں اس میں کیا مسئلہ ہے، کیا یہ انسان نہیں ہیں؟‘

اس پر سٹاف کا کہنا تھا کہ بھلے ادائیگی ہوچکی ہو پر انھیں یہ کافی شاپ چھوڑنا ہوگا کیونکہ ورنہ وہ کل دوبارہ آ جائیں گے۔

‘اس وقت میں نے فیصلہ کیا کہ یہاں پر جو کچھ ہو رہا ہے میں اس کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کروں گا تاکہ دنیا کو پتا چل سکے اور میں اپنا فرض ادا کر سکوں۔ شاید اس کے بعد کسی اور کو اس صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑے۔’

بے گھر

برطانیہ کے شہر کارڈف میں بے گھر افراد فٹ پاتھ پر ٹینٹ لگا کر سو رہے ہیں

آف سٹریٹ مہم کا آغاز

ساجد کاہلوں کا کہنا تھا کہ ویڈیو پر زبردست ردِ عمل ملنے پر انھوں نے فیصلہ کیا کہ انھیں حقیقی معنوں میں برطانیہ میں بے گھر لوگوں کے لیے کام کرنا چاہیے، جس کے لیے آف سٹریٹ مہم کے نام کے ساتھ کام کا آغاز کیا۔

‘سب سے پہلے میں نے وزیر ہاؤسنگ کو خط لکھا جس میں ان کی توجہ بے گھر لوگوں کے مسائل کی جانب کروائی اور ان سے درخواست کی کہ کچھ ایسا کرنا چاہیے جس میں کمیونٹی اور حکومت مل کر اس اہم ایشو کا کوئی حل تلاش کریں، کیونکہ کسی بھی حکومت کے لیے تنہا کوئی بھی مسئلہ 100 فیصد حل کرنا ممکن نہیں ہوتا۔’

ان کا کہنا تھا کہ اسی طرح وہ وزیر صحت کو بھی ایک خط لکھ رہے ہیں جس میں تجویز پیش کی جائے گی کہ برطانیہ کے ہر علاقے میں ہفتے میں ایک دن ان بے گھر لوگوں کے لیے مختص ہونا چاہیے جہاں پر یہ بغیر نمبر لیے جنرل فزیشن سے اپنا معائنہ کروا سکیں اور اگر اس کے بعد مزید کسی علاج کی ضرورت ہو تو ان کو کنسلٹنٹ یا سرجن کی طرف ریفر کیا جاسکے۔

مساجد اور چرچز سے رابطے

ساجد کاہلوں کا کہنا تھا کہ بہت سے لوگوں نے ویڈیو اپ لوڈ کرنے کے بعد ان سے رابطہ کیا جو بے گھر لوگوں کے لیے کام کرنا چاہتے تھے۔

‘ہم سب کے درمیان ایک تجویز گردش کرتی رہی کہ مساجد اور چرچ کیونکہ رات کو خالی ہوتے ہیں، اس لیے ان میں اگر ان بے گھر لوگوں کو رات کو پناہ دے دی جائے تو کافی فرق پڑ سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ برطانیہ میں سردیاں بڑی شدید ہوتی ہیں اور مختلف غیر سرکاری ادارے کے مطابق ہر 200 میں سے ایک شہری بے گھر ہے، جبکہ ان کی زیادہ اموات بھی سردیوں میں رات کے وقت ہوتی ہیں۔

‘ظاہر ہے جب شدید سردی کے اندر رات باہر گزاری جائے گی تو پھر اموات تو ہوں گی، اس لیے ہماری کوشش ہے کہ ایک ماہ کے اندر تمام معاملات طے کر لیے جائیں تاکہ یہ بے گھر افراد سردیوں کی راتیں چھت کے نیچے گزار سکیں۔’

ساجد کاہلوں کے مطابق اس سلسلے میں ان کے کئی مساجد سے رابطے ہوئے ہیں جن میں سے پانچ مساجد نے اس بات پر آمادگی کا اظہار کیا ہے، جبکہ کئی چرچز سے بھی آنے والے دونوں میں میری میٹنگز طے ہیں اور ان سے بھی تعاون ملنے کی قوی امید ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اب تک کے لیے میٹنگز میں مساجد کے ساتھ طے ہوچکا ہے کہ ہر جمعے کو مساجد کے باہر چندے کے لیے باکس رکھا جائے گا اور ایک جگہ مختص کی جائے گی جہاں پر لوگ ان بے گھر لوگوں کے استعمال کے لیے کپڑے اور کھانا رکھ سکیں گے، جبکہ رات کے وقت ان کو چھت فراہم کی جائے گی۔

انھوں نے بتایا کہ آنے والے ہفتے میں بے گھر لوگوں کے حوالے سے کام کرنے والے ایک غیر سرکاری ادارے سے ان کی میٹنگ طے ہے، اور اس ادارے نے انھیں اور ان کے ساتھیوں کو بے گھر افراد کی مدد کے حوالے سے ضروری تربیت فراہم کرنے پر آمادگی بھی ظاہر کی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp