جے یو آئی ایف کے مارچ کو حزبِ اختلاف کی کتنی حمایت حاصل؟


لاہور میں جے یو آئی ایف کا سٹیج

جمیعت علماء اسلام ف کے حکومت مخالف مارچ کا قافلہ بدھ کی صبح صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں داخل ہوا اور مینارِ پاکستان کے پہلو میں آزادی چوک میں پڑاؤ ڈالا گیا۔

صوبہ سندھ کے شہر شکارپور سے حمید الہادی مارچ کے ساتھ شامل ہوئے تھے اور ان کا تعلق پاکستان مسلم لیگ ن سے تھا۔ لاہور پہنچنے پر انہیں قدرے مایوسی ہوئی تھی۔

بی بی سی بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ وہ ’توقع کر رہے تھے کہ ن لیگ کے کارکنان کی ایک بڑی تعداد ان کا ساتھ دینے کے لیے یہاں موجود ہو گی۔‘

مزید پڑھیے:

آزادی مارچ، مگر خواتین کے بغیر!

آزادی مارچ کا آغاز سندھ سے کیوں ہو رہا ہے؟

’اداروں سے جنگ نہیں چاہتے، احتجاج حکومت کے خلاف ہے‘

کنٹینر کھڑے کرنے سے صنعت و تجارت متاثر

پنجاب اور خصوصاً لاہور کو ن لیگ کا گڑھ مانا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ ن لیگ جمیعت علماء اسلام ف کے قائد مولانا فضل الرحمان کو مکمل حمایت کا یقین دلا چکی تھی۔

ان کے اسی اعلان سے حمید الہادی یہ توقع کر رہے تھے کہ ’پنجاب سے ن لیگ کے لوگ بڑی تعداد میں ہمارے ساتھ چلیں گے۔‘

تاہم ن لیگ کی طرف سے پنجاب بھر میں مارچ کے استقبال کے لیے راستوں پر کیمپ لگائے گئے تھے۔ یہاں ن لیگ کے جھنڈے اٹھائے ان کے کارکنان اور زیادہ تر ضلعی سطح کی قیادت موجود رہتی تھی۔

لاہور داخل ہونے پر بھی ن لیگ کے ایسے کیمپوں کی طرف سے مارچ کا استقبال کیا گیا۔ رات مینارِ پاکستان کے پاس بسر کرنے کے بعد جب آزادی چوک میں جے یو آئی ایف کے حمایتی ایک مرتبہ پھر اکٹھے ہوئے تو وہاں بھی ن لیگ یا پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکنان ان کے درمیان زیادہ نظر نہیں آئے۔

جے یو آئی ایف کے صوبہ بلوچستان کے شہر جیکب آباد سے تعلق رکھنے والے محمد شاہد نے بی بی سی کو بتایا کہ ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے کیمپوں میں موجود کارکنان نے ’ہم پر گل پاشی بھی کی تھی اور وہ ہمارے ساتھی ہیں۔‘

ان کی بھی توقع تھی کہ ان دونوں جماعتوں کے لوگ ان کے ساتھ چلیں اور جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ ساتھ چلے؟ محمد شاہد پہلے تھوڑا مسکرائے پھر تیزی سے بولے کہ ’ہاں پنجاب میں رحیم یار خان سے ن لیگ کی چند گاڑیاں ہمارے ساتھ چلیں تھیں۔‘

لاہور کے آزادی چوک میں جے یو آئی ایف کے قائد مولانا فضل الرحمان جب اسٹیج پر پہنچے تو ان کے ساتھ ن لیگ اور پی پی پی کی اعلٰی قیادت موجود نہیں تھی۔

مارچ کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے ایک مرتبہ پھر ’وزیرِاعظم عمران خان کے استعفٰی کا مطالبہ دہرایا۔‘ انہوں نے شرکا سے ’ان کا ساتھ دینے اور ثابت قدم رہنے کا عزم بھی لیا۔‘

ان کے ساتھ چند دیگر مذہبی جماعتوں کے رہنما اور جے یو آئی ایف صوبہ سندھ کی قیادت کے لوگ موجود تھے۔

آزادی چوک میں ان کے سامنے لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد تھی جو مرکزی چوک کے ایک سرے سے دوسرے تک پھیلے ہوئے تھے۔ ان کے علاوہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد بسوں اور گاڑیوں میں بھی موجود تھی جبکہ کچھ لوگ پہلے ہی جی ٹی روڈ پر اسلام آباد کی جانب نکل چکے تھے۔

آزادی چوک میں ٹریفک بھی معمول کے مطابق چلتی رہی اور مارچ کے شرکا کے عین درمیان سے میٹرو بسیں بھی معمول کے مطابق چلتی رہیں۔

جب مولانا فضل الرحمان شام کے وقت آزادی چوک سے اسلام آباد کے لیے روانہ ہوئے تو چوک کے عقب میں ن لیگ کا ایک استقبالی کیمپ موجود تھا۔

اگلا کیمپ شاہدرہ کے مقام پر تھا جو نسبتاً حجم میں بڑا تھا۔ اس پر ن لیگ کے رہنما عبدالقادر بلوچ اور دیگر مقامی رہنما موجود تھے۔

جے یو آئی ایف کے بلوچستان کے شہر چمن سے مقامی کارکن نور خان اپنی سوزوکی مہران میں اکیلے اسلام آباد کے سفر پر نکلے ہوئے تھے۔

شیخوپورہ میں ایک مقامی فلنگ اسٹیشن سے وہ پیٹرول لینے کے لیے رکے تھے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم بلوچستان سے اپنے حامیوں کا سہارا لے کر نکلے تھے۔’

تو کیا انہیں مایوسی ہوئی؟ نور خان کا کہنا تھا کہ ’ایسا نہیں ہے۔ ابھی تو آگے دیکھیں گے کہ پنجاب کے اندر ن لیگ کی کتنی سپورٹ ملتی ہے۔ ہو سکتا ہے وہاں سے ان کے لوگ ہمارے ساتھ شامل ہو جائیں۔‘

ن لیگ کی طرف سے بڑا کیمپ مریدکے اور شیخوپورہ کے بعد گوجرانوالہ میں نظر آیا جہاں لاری اڈے کے قریب ان کی جماعت کے کارکنان بڑی تعداد میں موجود تھے۔

نور خان کا کہنا تھا کہ ’ابھی تو ہمیں اپنے لوگوں کی صحیح تعداد کا انداز نہیں ہے۔ مارچ کا ایک سرا لاہور میں تھا تو میں نے اپنے ایک دوست کو فون کیا تو اس نے بتایا کہ وہ ابھی ملتان میں موجود تھا اور مارچ کی کچھ گاڑیاں ابھی وہاں تک موجود تھیں۔‘

تاہم ان کے اس دعوے کی آزادانہ تصدیق نہیں کی جا سکی۔ لاہور سے نکلتے ہوئے جے یو آئی ایف کے سربراہ کی قیادت میں ان کی جماعت کا ایک اجلاس کنٹینر کے اندر ہوا۔

مولانا فضل الرحمان کے ذاتی معاون محمد طارق نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اس اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ بدھ کی رات مارچ کے شرکا اسلام آباد سے چند کلومیٹر دور گوجر خان میں قیام کریں گے اور جمعرات کو دن میں کسی وقت اسلام آباد میں داخل ہوں گے۔‘

تاہم ان کا کہنا تھا کہ مارچ کے شرکا اسلام آباد میں اسی جگہ اسی راستے سے پہنچیں گے جن پر ان کا حکومت سے معاہدہ ہوا تھا۔

جے یو آئی ایف کا مارچ رواں ماہ کی 27 تاریخ کو کوئٹہ اور کراچی سے شروع ہوا تھا۔ چار روز کا سفر طے کر کے وہ جی ٹی روڈ پر روات کے راستے اسلام آباد میں داخل ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32495 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp