بلوچستان اور تعلیم


تعلیم اندھیروں میں روشنی کی مانند ہے اور ایک بہترین سرمایہ ہے۔ دنیا میں اگر ہر چیز دیکھی جائے تو وہ بانٹنے سے گھٹتی ہے مگر تعلیم ایک ایسی دولت ہے جو بانٹنے سے گھٹتی نہیں بلکہ بڑھ جاتی ہے اور انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ تعلیم کی وجہ سے دیا گیا ہے ورنہ انسان  اور جانور میں کوئی فرق نہ رہتا۔ تعلیم حاصل کرنا ہر مذہب میں جائز ہے۔ اسلام میں تعلیم حاصل کرنا فرض  قرار دیا گیا ہے۔ آج کے اس پر آشوب اور تیز ترین دور میں تعلیم کی ضرورت بہت اہمیت کا حامل ہے دنیا نے  جتنی بھی   ترقی کرلی ہے ۔ تعلیم کیوجہ سے کی ہے  موجودہ   دور جو سائنس و ٹیکنالوجی کا دور ہے،  وہ ممالک اور اقوام اس ترقی کو پاسکتے ہیں جن کے  اسکولوں اور جامعات  میں بنیادی ، ٹیکنیکل، انجینئرنگ، وکالت، ڈاکٹری اور مختلف جدید علوم کی تعلیم جدید دور کے تقاضوں کے مطابق دی جاتی ہو۔
اس عرض وطن پاکستان میں بلوچستان کی جب بھی بات آتی ہے تو کئی سوالات لوگوں کے ذہنوں میں جنم لیتے ہیں۔ اور جب بلوچستان کے اندار تعلیم کی بات آئے تو پھر مسائل کا پہاڑ نظر آتا ہے۔
اس سے پہلے کہ میں اپنی تحریر کے مین کرکس کے طرف جاو میں بلوچستان یونیورسٹی میں ایک شرمناک حرکت کرنے والے ملوث افراد، ذمہ داران و انتظامیہ کو نشان عبرت بنانے کا مطالبہ کرتا ہوں۔ اس طرح کے اسکینڈل کسی بھی قوم کے لیے ناقابلِ برداشت ہیں اور کوئی بھی غیر مند قوم اس طرح کی حرکتوں سے خاموش نہیں رہے سکتی۔ میں بلوچستان یونیورسٹی میں ہونے والے اسکینڈل کی سخت الفاظ میں مذمت کرتا ہوں بلوچستان میں مستقبل کے فیصلے بلوچستان میں رہنے والوں نے ہی کرنے ہیں۔ لہذا وقتی مشکلات سے گھبرانے کے بجائے مستقل مسئلہ کو حل کرنے پر توجہ دینی چاہیے

بلوچستان تعلیم کے حوالے سے بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ کاغذوں میں بلوچستان میں اس وقت تقریباً  13 ہزار اسکول موجود ہیں۔ جس میں 11 ہزار پرائمری، 1200 سو کے قریب مڈل اور 900 ہائی اسکول موجود ہیں۔ مگر میدان میں نظر نہیں آتے نہیں۔ اس لیے ہمارے 20 لاکھ کے قریب بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ جو اسکول ہیں تو ان میں سے کئی اسکول تو گوسٹ ہیں، کئی اسکول تو وڈیروں کی ریائش گاہ بنے ہوئے ہیں، کئی اسکول مال مویشی پالنے کے لیے استعمال ہو رہے ہیں،  سینکڑوں اسکولوں میں  باوؑنڈری وال نہیں، کئی اسکولوں میں واش رومز تک موجود نہیں۔ کئی اسکول سنگل روم، اور کئی ڈبل رومز پر مشتمل ہے۔ اس میں اساتذہ کا ریشو دیکھنا تو قابل غور ہے۔ بلوچستان میں 10 ہزار کے قریب اساتذہ گُوسٹ ہیں اور پہلے سے پورے بلوچستان میں اساتذہ کا فقدان ہے۔ کئی مڈل اسکولز 3 سے 4 استاد پر ہی چل رہے ہیں اور کئی صرف ایک استاد پر۔

ہزاروں والدین کو اس با ت کا شعور ہی نہیں کہ وہ اپنے بچوں کو تعلیم دیں۔ ہزاروں والدین اپنے بچے کو پڑھانے کی استطاعت نہیں رکھتے ہیں اور ہزاروں والدین تعلیم یافتہ نوجوانوں کو بے روزگاہ دیکھ کر مایوسی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اسی وجہ سے بلوچستان میں والدین کی توجہ اپنے بچوں کو پڑھانے میں نہیں ہوتی جس سے ناخواندگی کی شرح بڑھ رہی ہے۔ اور دوسرے طرف بلوچستان کے جتنے نوجوان اس وقت تعلیمی اداروں میں پڑھ رہے ہیں انہیں بہت سارے  مشکلات کا سامنا ہے۔ کھبی ہوسٹل کا مسلہ، کھبی لائبریری میں جگہ نہیں کھبی داخلوں کے مسلہ پر طلبہ ہڑتال پر اور کھبی ماسٹرز کی ڈگری لے کر کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاج کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔

ہمارے لیے تو سوچنے کا مقام ہے کہ اکثر ہمارا تعلیم یافتہ طبقہ تو ہڑتال اور دھرنے پر ہوتا ہے۔  کھبی ہمارے انجنئیرز ہڑتال پر ہیں، کھبی ہمارے ڈاکٹرز اور کھبی اساتذہ دھرنے پر بیٹھے ہوتے ہیں

حکومت کی ترجیح میں تعلیمی سرگرمیاں، سہولیات، روزگار کا مسلہ بلکل بھی نہیں۔ تعلیم بجٹ نہ ہونے کے برابر ہے، ہمارا دفاعی بجٹ سب سے زیادہ اور تعلیمی بجٹ سب سے کم، بندوق پر سب سے زیادہ آخراجات اور قلم پر بہت کم اسی لیے تو قلم اٹھانے والوں کی تعداد میں کمی آ رہی ہے۔ شعور پیدا کرنے کے لیے علم و فکر کے میدان میں حکومت کو کوئی کنجوسی نہیں کرنی چاہیے۔

تعلیم کسی بھی قوم کی تقدیر بدل دیتی ہے اور وہ قوم بہت جلد ترقی کی جانب گامزن ہوتا ہے۔ صد افسوس! ہم بلوچستان کے نعرے تو بہت لگاتے ہیں اس سے عقیدت کا اظہا ر بھی کرتے  ہیں اور اس پر جان نچاور کرنے کو تیار ہوجاتے ہیں یہ کوئی غلط کام نہیں مگر ان سب سے بڑھ کر اس وقت یہ کام کرنا وقت کی ضرورت ہے کہ اپنی قوم کو تعلیم جیسی نعمت سے آراستہ کریں۔ چاہیے وہ بچوں کو خود جا کر اسکول میں داخل کرانا پڑے یا پھر اپنی استطاعت کے مطابق اُس بچے کا ماہانہ اخراجات  برداشت کریں۔  گھر گھر جا کر اپنے مستقبل کے معماروں/ ان کے والدین کو تعلیم حاصل کرنے کے لیے قائل کریں، حکومتی سطح پر ہو یا مخیر حضرات کی تعاون سے ان کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کی کوشش کریں تاکہ کسی نہ کسی صورت وہ تعلیم حاصل کرنے پر آمادہ ہوں۔ اس سے وہ ایک فرد اپنے پوری فیملی کی تقدیر بدل سکتا ہے اور آپ کے لیے صدقہ جاریہ بن سکتا ہے۔
باشعور نوجوانوں کو اللہ تعالی نے علم سے آراستہ کیا ہے اگر اس علم پر عمل نہ کریں تو وہ بے سود ہے۔ اس معاشرے کو درست کرنے کے لیے اللہ تعالی نے علمی اور تعلیم یافتہ لوگوں کا میدان میں اتارا ہے۔ اگر میں اور آپ بھی فقط اپنی سیاسی Point Securing اور مفادات کے بنا پر کام کریں گے تو اس قوم کا اللہ ہی حافظ ہے۔  ہمیں بہت سارے مسائل کا سامنا ہے سب سے بڑھ کر منشیات ہے۔ ہمیں منشیات جیسے زہر کے آگے دھکیلا گیا ہے۔ 3 لاکھ کے قریب بلوچستان کے نوجوان اس زہر کی نظر ہیں۔ تو آپ اس سے اندازہ کریں کہ کل بلوچستان کو ڈاکٹر، انجینئر، جج، اور استاد ملیں گے یا پھر چرسی، شرابی، نشئی اور موالی ملیں گے۔ ان مسائل سے لڑنے کے لیے آج کا نوجوان ذہنی طور پر تیار رہے تاکہ تعلیم کو فروغ دے کر اپنے مستقبل کے معماروں کو ایک بہترین روڈ میپ دیں۔ تاکہ وہ بے راہ راوی کے بجائے  ترقی، شعور، تعلیم، انسانیت، اور اچھے راستوں کی جانب گامزن ہوں۔ اور بلوچستان کو ایک خوشحال اور ترقی یافتہ بلوچستان بنائیں۔ میں حکومت بلوچستان سے درخواست کرتا ہوں کہ اگر واقعی دلچسپی لیتی ہے تو بلوچستان کے تعلیمی اداروں کو Standardize کرئے۔ بلوچستان میں تعلیم کو مفت اور معیاری بنائے جس تک ایک غریب کی رسائی بھی ممکن ہو۔ بلوچستان میں سالانہ ہزاروں تعلیم یافتہ نوجوان Graduate  ہوتے ہیں مگر ان کو روزگار حاصل کرنے لے لیے در در کی ٹوکرے کھانے پڑھتے ہیں۔ حکومت تعلیم یافتہ نوجوانوں کو روزگار کے مواقع فراہم کرے۔ کیونکہ تعلیم یافتہ نوجوان ہی بے روزگار ہوں تو بے روزگاری کی شرع میں اضافہ ہوگا اور غربت بڑھ جائے گے۔ حکومت بلوچستان تعلیم کے مسئلہ کو اہمیت دے تاکہ ہمارا مستقبل تابناک ہو

محمد جان مری
Latest posts by محمد جان مری (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).