مولانا کی جیت اور خان کی ٹیم


مولانا فضل الرحمان کی قیادت میں بظاہر ’’سبز انقلاب‘‘برپا ہو چکا ہے، اگر ن لیگ ’’ ڈنڈی‘‘نہ مارتی تو اس مارچ کا رنگ مخصوص نہ ہوتا، مولانا کا امن مارچ اسلام آباد پہنچنے سے ہی پہلے کامیاب ہو چکا تھا۔ اب وزیر اعظم سے استعفیٰ مانگنے یا ان کے استعفیٰ دینے کی بھی ضرورت نہیں رہی، کیونکہ مطلوبہ نتائج برآمد ہو چکے ہیں، مطلوبہ مقاصد حاصل کر لئے گئے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی تو اپنی حکمت عملی کے تحت اس کھیل میں شریک ہی نہیں رہی لیکن ن لیگ اپنے صدر شہباز شریف کی دو رخی حکمت عملی سے مکمل طور پر ایکسپوز ہوئی ہے۔

مستقبل میں ن لیگ کو اس کے نتائج بھگتنا پڑیں گے۔ پیپلز پارٹی کی سیاست بھی متاثر ہوگی۔ سیاست میں ’’ مولانا ونگ‘‘ پوری طرح ’’ ان‘‘ہو چکا ہے اور اب اسے مستقبل میں آؤٹ کرنا آسان نہ ہوگا۔ کراچی سے مولانا کے ساتھ تیس پنتیس ہزار افراد نے اسلام آباد کے لئے سفر کا آغاز کیا تھا، سو فیصد لوگ مولانا کے’’اپنے‘‘تھے۔ مکمل منظم قافلے نے سندھ اور پنجاب کو پر امن طریقے سے عبور کیا۔اسلام آباد میں ابتدائی طور پر پچاس ہزار لوگ دکھائی دیے۔اگر دھرنا لمبا ہوگیا تو تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کر سکتی ہے۔جب عمران خان اور مولانا طاہر القادری کے قافلے دھرنا دینے کے لئے اسلام آباد روانہ ہوئے تھے تو ان کے شرکاء کی تعداد مولانا کے امن مارچ کے شرکاء سے کہیں کم تھی۔

اب مولانا کی’’کامیابی‘‘ کو دیکھتے ہوئے ممکن ہے کہ ن لیگ اس اجتماع میں اپنے کارکنوں کو بھی شامل کر دے، لیکن ن لیگ کے پاس مولانا کی پارٹی جیسے کھلاڑی موجود نہیں ہیں۔ پیپلز پارٹی اب بھی اپنے کارکنوں کو کال نہیں دے گی، پیپلز پارٹی کے پاس پنجاب میں نئے کارکن نہیں۔ اسے تو بھٹو صاحب کے جان نثاران وراثت میں ملے ہوئے ہیں۔یہ جان نثاران مولانا کی طاقت بڑھانے کے لئے گھروں سے باہر نہیں نکلیں گے، کیونکہ یہ سب’’ نظریاتی لوگ‘‘ ہیں اور حالات کا ادراک رکھنے والے ہیں اور لڑائی بھی تو صرف دو فریقوں کے درمیان ہے۔

مولانا اور عمران خان کی لڑائی، فائدہ بھی ایک فریق کو ہی ملنا ہے، پوری اپوزیشن کو نہیں۔ میڈیا پر پابندیوں نے بھی مولانا کی ’’ ذاتی طاقت‘‘ کو متاثر نہیں کیا۔ اس سے ایک بات تو ثابت ہو گئی کہ حکومتیں بدلنے کے لئے میڈیا کا ساتھ ہونا ضروری نہیں ہوتا، لیکن عوام ضرور بر وقت اطلاعات سے محروم رہے۔ایک اطلاع کے مطابق مولانا فضل الرحمان سوا ارب روپے کے قریب زاد راہ کے ساتھ کراچی سے روانہ ہوئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ مارچ کے لئے چندہ تاجر برادری سے جمع کیا گیا، اسی تاجر برادری سے جو ماضی میں ن لیگی حکومتوں کی بنیاد رہی ہے ۔

اگر مولانا کا مارچ طویل دھرنے میں بدل جاتا ہے تو چندے کی رقم بھی کھربوں میں بدل جائے گی۔مولانا کھرب پتی ہو گئے تو زرداری اور نواز شریف کی صفوں میں آن کھڑے ہوں گے، اگلے الیکشن میں ٹکٹوں کے امیدوار بھی زیادہ ہو سکتے ہیں اور سیاست میں ٹکٹ ہی وہ واحد چیز ہے جس کے دام سب سے زیادہ لگتے ہیں۔

میں ذاتی طور پر مولانا فضل الرحمان کے احتجاج کو جمہوری اور عوامی تصور نہیں کرتا لیکن جب اپنے گھر کی معیشت کی زبوں حالی دیکھتا ہوں تو مخالفت کا کوئی جواز بھی باقی نہیں رہتا۔ لیکن اس کے باوجود اب تک میرا موقف یہی ہے کہ کسی منتخب حکومت کے ساتھ کوئی’’ کھلواڑ‘‘ نہیں ہونا چاہئے۔ ماضی کی غلطیوں سے آج بھی سبق نہ سیکھا گیا تو جمہوریت ہمارے ہاتھوں سے بہت دور چلی جائے گی، اتنی دور کہ اسے دوبارہ اپنے قریب لانے کے لئے عشروں تک جنگ لڑنا پڑے گی اور یہ عشرے ممکن ہے کہ بڑھتے ہی چلے جائیں۔

جمہوریت کا بستر ایک بار گول ہو گیا تو موجودہ فرسودہ نظام کی جڑیں اور مضبوط ہو جائیں گی۔ عمران خان کا تو کچھ نہیں جائے گا، قوم اپنی باقیماندہ جمع پونجی سے بھی محروم ہوجائے گی۔ رہا سہا خاندانی نظام بھی ملیا میٹ ہوجائے گا۔ رشتوں کی پہچان مٹ جائے گی، یہاں کوئی کلچر رہے گا نہ کوئی شرم حیا ، بس باقی رہے گا روپیہ، جسے حاصل کرنے کے لئے ہر آدمی اپنی عزت ،وقار اور حمیت کو داؤ پر لگاتا نظر آئے گا۔ میں امن مارچ کی اب تک کی کامیابی پر عام آدمی کو خوش دیکھ رہا ہوں، مارچ کی کوریج کے لئے سینکڑوں میڈیا پرسنز مولانا کے ساتھ ساتھ چلے۔

میں نے مختلف اخبارات اور چینلز سے تعلق رکھنے والے رپورٹرز سے مسلسل رابطہ رکھا، سب کے سب مارچ کی کامیابی پر خوش دکھائی دیے، بعض میڈیا ہاؤسز کے نیوز رومز میں بھی بات ہوتی رہی، بہت سے لوگ یہاں ہزاروں کے مجمع کو لاکھوں کا ہجوم بھی کہہ رہے تھے۔ ان سارے حالات کا ذمہ دار کون؟

امن مارچ اور مجوزہ دھرنا کو روکنے کے لئے مولانا فضل الرحمان کو بے توقیر کرنے کے سوا کچھ نہ کیا گیا۔یہ لوگ صحیح صورت حال کا ادراک کرنے کے قابل ہی نہ تھے، حکومت ہی نہیں بڑی چھوٹی اپوزیشن پارٹیوں کے بھی مولانا کے بارے میں سارے اندازے غلط ثابت ہوئے۔ملک اور قوم کا نقصان یہ ہوا ہے کہ کئی عشروں کے بعد ’’مذہبی کارڈ‘‘کھیلنے والے میدان میں اتر آئے ہیں، یہ وہ کارڈ ہے جو گلوبل ویلیج میں پاکستان کی رہی سہی ساکھ کو بھی ختم کر سکتا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جن پر عمران خان کو ’’لانے‘‘ کا الزام ہے اور’’ جن‘‘ کی ہم نشینی پر عمران خان کو ناز ہے اور تازہ ترین حالات میں خاموش اور غیر جانبدار کیوں ہیں۔حالانکہ سو فیصد سچ یہ بھی ہے کہ مولانا کو کسی ادارے کی آشیر باد بھی حاصل نہیں ہے اور ان کی’’لڑائی‘‘کی کوئی ’’بنیاد‘‘بھی نہیں ہے۔مولانا کا ماٹو مہنگائی، بے روزگاری اور غربت بھی نہیں ہے۔

اگر کوئی سیاستدان اقتدار کے لئے بائیس سال مسلسل جدوجہد کرتا ہے اور حکومت چلانے کے لئے اس طویل عرصہ میں بیس تیس لوگوں کی ایک ٹیم تک تیار نہیں کر سکتا تو اس کے ساتھ وہی ہونا چاہئیے جو اس وقت عمران خان کے ساتھ ہو رہا ہے۔ ادھار کے لوگوں سے حکومتیں نہیں چلا کرتیں۔میں نے وفاقی کابینہ کے پچھلے کئی اجلاسوں کی اندرونی کہانیاں سنی اور پڑھی ہیں، میں تو حیران ہی رہ گیا یہ جان کر کہ جناب وزیر اعظم کو انتہائی سنجیدہ اور بڑے بڑے فیصلے کرنے سے پہلے اعتماد میں ہی نہیں لیا جاتا۔ کوئی وزیر کوئی قدم اٹھانے سے پہلے اپنے ساتھیوں سے بھی نہ مشورہ کرتا ہے نہ ایک دوسرے کو بھی اعتماد میں لیا جاتا ہے، جس کا جی چاہتا ہے اپنی مرضی کے فیصلے قوم پر مسلط کر دیتا ہے، بڑے فیصلے سنانے والے اور لاگو کرنے والے وزراء میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں جن کے ماضی پر کئی کئی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔

اہم اہم وزارتیں جن لوگوں کو سونپی گئی ہیں، یقین ہی نہیں آتا کہ انہیں یہ منصب خود وزیر اعظم نے سونپے ہوں گے۔میڈیا پر پابندیاں، مولانا فضل الرحمان کے انٹر ویوز اور بیانات پر پابندی، مولانا کے مارچ کا بائیکاٹ، اینکرز کے حوالے سے ناقص فیصلے، یہ سب ایک ہاتھ کر رہا ہے اور عمران خان کو میری تحقیق کے مطابق بہت سارے معاملات سے لاعلم رکھا جاتا ہے۔ کابینہ کا گذشتہ ہفتے کا اجلاس اس کا کھلا ثبوت ہے جس میں وزیر اعظم نے بعد ازاں اپنے علم میں آنے والے بہت سارے فیصلوں پر اظہار برہمی کیا اور ان فیصلوں کو واپس لینے کا حکم بھی صادر کیا۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وزراء سے اس قسم کے نا پسندیدہ فیصلے کرواتا کون ہے؟ کیا واقعی کچھ پس پردہ قوتیں پاکستان سے جمہوریت کا کلی خاتمہ چاہتی ہیں؟ اگر ایسا ہی ہے تو یہ ’’ پس پردہ قوتیں‘‘پاکستانی تو ہر گز نہیں ہو سکتیں۔

بشکریہ روزنامہ نائنٹی ٹو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).