ابوبکر البغدادی کی ہلاکت کے بعد داعش کا مستقبل


ابوبکر البغدادی کے انتقال کی قیاس آرائیاں دوہزار چودہ سے ہوتی چلی آرہی تھیں،امریکا اور روس ہر دو ممالک البغدادی کو اپنے انجام تک پہنچادینے کا دعویٰ کرتے رہے ہیں۔لیکن گذشتہ دِنوں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خودساختہ خلافت کا دعویٰ کرنے والے البغدادی کی موت کا عوامی سطح پر اعلان کیا اور کہا کہ امریکی فورسز نے شدت پسند کو اپنے انجام تک پہنچا دیا ہے۔جبکہ میڈیا (امریکی)اور مختلف تجزیہ کاروں نے اس پیش رفت(البغدادی کی موت)کی اہمیت پر زور دیا کہ البغدادی کی موت داعش کی صلاحیت پر اثرانداز نہیں ہوگی کہ وہ مستقبل قریب میں ایک مرکزی اقتدار کی صورت دہشت گردگروہ کی صورت کام کرسکے۔

واضح رہے کہ ماضی میں دوہزار چھ اور دوہزار دس میں عراق میں شدت پسند گروہ کے لیڈر قتل ہوئے ہیں ،لیکن اس کے باوجود یہ گروہ ایک نئی طاقت کے طورپر اُبھر کرسامنے آتارہا۔یوں یہ ظاہر ہوتا ہے کہ البغدادی کے مارے جانے کے فوری بعد داعش ایک نئے انداز میں ظاہر ہوگی۔جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ فاتحانہ انداز میں وکٹری کا نشان بنا کر جشن منارہے ہیں اور ایسے ہی وقت میں انہیں مقامی سطح پر مواخذے کا سامنا کرناپڑرہا ہے ،ٹرمپ کی شام میں خارجہ پالیسی داعش کو یہ سہولت پیش کرے گی کہ وہ دوبارہ منظم ہو کر اُبھرکر سامنے آسکے۔

                البغدادی: خلیفہ بننے تک

ابوبکر البغدادی کے نام سے مشہور ابراہیم عواد ابراہیم البدری 1971ء میں عراق کے شہر سامرہ(یہ شہر بغداد سے ایک سوتیس کلومیٹر شمال میںواقع ہے) میں ایک متوسط طبقے کے سنی العقیدہ گھرانے میں پیدا ہوئے۔اطلاعات کے مطابق اس کا باپ ،ایک مقامی مسجد میں مبلغ تھا۔1991ءمیں گلف وار کے بعد صدام حسین کی ”عقیدہ مہم“کے دوران ،جب اس عرصہ میں مسلم اُمہ میں عراق کی ریاست کے اسلام کے لیے عظیم کردار کو فروغ ملا ،البغدادی نے بغداد میں اسلامک یونی ورسٹی میں داخلہ لیا۔البغدادی تعلیم کے دوران مسلم بھائی چارہ پر مبنی اپنی تحریروں کے ذریعہ پہچان بناچکاتھا۔لیکن آخرکار اس کا جھکاﺅ سلفی ازم کی طرف بڑھتا چلا گیا۔

2003ء میں جب امریکا نے عراق پر چڑھائی کی ،البغدادی کو اپنے ایک دوست جو کہ شدت پسند تنظیم القاعدہ کا ایک رُکن تھا،سے ملنے پر گرفتار کر لیاگیا۔عراق،کویت سرحد کے قریب صحرا میں ایک حراستی سہولت کیمپ ” بُکا” میں قید کے دوران ، البغدادی نے نماز کی امامت کی اور جمعہ کے خطبہ دیا۔اسی دوران البغدادی نے حاجی بکر (ایک عرب قوم پرست)جو کہ ایک انٹیلی جنس آفیسر تھا،جس نے بعد میں القاعدہ کو جوائن کر لیا تھا ،سے بھی ملاقات کی ۔اس کے ساتھ ساتھ البغدادی نے القاعدہ کے دیگر پیروکاروں سے بھی ملاقاتیں کیں۔یوں البغدادی القاعدہ کے قریب ہو گیا اور اس کے نظریے کے ساتھ جڑ گیا۔

                القاعدہ میں جانشینی

7جون 2006ءمیں القاعدہ کا رہنما ابو مصعب الزرقاوی جو کہ اُردن کا شہری تھا،بغدادسے ساٹھ کلومیٹر شمال میں ایک چھوٹے سے گاﺅں میں موجودتھاکہ ایک فضائی حملے میں ماراگیا۔الزرقاوی کے مارے جانے کے بعد مصری شہری ابو ایوب المصری نے عراق میں القاعدہ کی رہنمائی کرنا تھی۔انہوں نے عراقی نژاد القاعدہ کے ممبر ابو عمر البغدادی کو نئے اعلان کردہ دولتِ اسلامیہ(داعش )کے رہنما کے طور پر ترقی دی۔داعش کو عراق میں موجود شورش پسند گروہوں کی چھتری کے طور پر بنایا گیا تھا،کہ عراق کے تمام شرپسند گروہ اس ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوسکیںاور اپنی طاقت کا مظاہرہ کرسکیں۔یوں داعش کی پیدائش ایک لحاظ سے مختلف شرپسندگروہوں کے ملاپ کے طورپر ہوئی تھی۔ابوبکر البغدادی نے ابوعمر البغدادی جو کہ القاعدہ کے رہنما تھے ،کا اعتماد حاصل کیا اور نورُکنی مجاہدین کی شوریٰ کونسل کے ممبر بن گئے۔یہ شوریٰ القاعدہ کے لیے بڑے فیصلوں کا اختیار رکھتی تھی۔لیکن ہوا یہ کہ اپریل 2010ءمیں امریکا اور عراقی فورسز کے مشترکہ حملے میں تکریت کے قریب ابو عمر البغدادی اور المصری دونوں ہی مارے گئے۔ حاجی بکر جو کہ کیمپ بکا سے رہا ہو چکے تھے اور داعش کے سربراہ بن چکے تھے ،نے ابوبکر البغدادی کی مذہبی اسناد یعنی علم وفراست کی بنیادپر فیصلہ دیا کہ اگلے رہنما ابوبکر البغدادی ہوں گے ،شوریٰ کونسل نے اس فیصلے کی تائید کی۔یہ اقتدار کی ایک بہترین منتقلی تھی ،البغدادی نے داعش کی ازسرنو تعمیر کی۔یہ وہ وقت تھا ،جب داعش کی صفوں میں مٹھی بھر لوگ رہ گئے تھے۔

                داعش کا مستقبل

داعش کے رہنما کے طور پر البغدادی نے مذہبی طو ر وہ فتوحات حاصل کیں ،جن کو دیگر شرپسند گروہ حاصل کرنے میں ناکام رہے تھے۔البغدادی نے خلافت کا اعلان کیا اور اپنے علاقے میں مکمل کنٹرول حاصل کیا۔نہ ہی لبریشن پارٹی(حزب التحریر)جو یروشلم میں 1953ء میں قائم ہوئی تھی اور نہ ہی اُسامہ بن لادن کی القاعدہ نے اپنے واضح کردہ اور طے شدہ مقاصد حاصل کرسکیں۔لیکن ابوبکر البغدادی اس قابل ہواتھا کہ اُس نے ایک طاقتور فورس تیار کی اور بڑے پیمانے پر محیط علاقوں پر اپنا کنٹرول حاصل کیا ور پھر اپنی خلافت کا اعلان بھی کیا۔اسی طرح البغدادی کی ایک بڑی کامیابی یہ مانی جاتی ہے کہ اُس نے دُنیا بھر کے ہزاروں مسلمانوں کے اُس تصور کو اپنی گرفت میں لیا ،جس تصور کے تحت وہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں زندگی گزارنے کے لیے شام اور عراق کا سفرکرنے پر مائل ہوئے۔

اب ستم ظریفی یہ ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ نے جہاں داعش کے پیروکاروں کو اپنے لیڈر سے محروم کردیا ہے ،وہاں یہ موقع بھی دیا ہے کہ وہ دوبارہ منظم ہو سکیں۔امریکی صدر نے شام سے اپنی فوجوں کے انخلاءکا فیصلہ کیا،اس فیصلے نے ترک فورسز کو شام میں کرد وں کے علاقے پر حملوں کا موقع فراہم کیا۔اس کے ساتھ ساتھ جیلوں میں القاعدہ اور داعش کے ارکان اور اُن کے خاندان کو سہولت بھی ملتی نظر آرہی ہے۔

واضح رہے کہ شام اور عراق میں القاعدہ اور داعش کے عروج کا آغاز سابق باغیوں کی جیلوں سے رہائی سے قبل ہوا تھا،2011 کے موسم گرما میں ، دمشق میں حکومت نے متعدد جنگجوو ¿ں کو رہا کیا تھا،یہ جنگجو وہ تھے ،جنہوں نے 2000ءکی دھائی میں عراق کی شورش میں حصہ لیا تھا۔ مذکورہ جنگجوﺅں اوراُس شورش نے القاعدہ سے منسلک النصرہ فرنٹ سمیت کئی مسلح گروہوں کواُبھرنے کے لیے بنیاد فراہم کی تھی۔تب دوسال کے اندر ہی داعش کے جنگجوﺅں نے بغداد کے قریب دوجیلوں پر چڑھائی کی اور پانچ سو کے قریب اپنے ساتھیوں کو رہا کروایا۔ان رہاہونے والے قیدیوں نے بعدازاں داعش کے موصل پر قبضے میں معاونت فراہم کی تھی۔

ڈونلڈ ٹرمپ داعش کے خلاف اپنی فتح کا جشن مناسکتا ہے ،مگر یہ فتح شاید فیصلہ کن ثابت نہ ہو۔ابوبکر البغدادی نے داعش کے پیروکاروں کو اکیسویں صدی میں قائم ہونے والی اسلامی ریاست کا انتہائی ٹھوس تجربہ دیا ہے۔جبکہ اسلامی ریاست کے قیام کا خیال ،اس سے قبل محض تصورات کی حد تک تھا۔یوں اس کے نتیجے میں داعش کے ممبران اور اس تنظیم کے بننے والے آئندہ کے ممبران اس بات کا واضح نظریہ رکھتے ہیں کہ وہ کیوں اور کس کے خلاف لڑرہے ہیں؟اور البغدادی کی خلافت اس علاقے کو غیر مستحکم رکھے گی۔

ابراہیم المرشی

ترجمہ :احمد اعجاز

بہ شکریہ الجزیرہ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).