سخت گیر یورپی دائیں بازو کے و فد کا مضحکہ خیز دورہ مقبوضہ کشمیر


دو خبریں کچھ یوں سامنے آئی جس میں سب سے پہلے مقبضہ کشمیر جموں اور لداخ کی انتطامی حیثیت کے تابوت پر آخری کیل ٹھونک دی گئی۔ اب مودی نازی سرکار مقبوضہ کشمیر کو لیفٹنٹ گورنر کے تحت چلائیں گے۔ عالمی برداری کی آنکھوں میں دھول جھونکے کے لئے مودی سرکار نے یورپی یونین کی پارلیمنٹ میں موجود سخت گیر دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی جماعتوں کے 30 اراکین کو مقبوضہ جموں و کشمیر کا مبینہ دورہ کیا۔ سخت گیر نظریات کی حامل جماعتوں کے وفد میں برطانیہ، فرانس، پولینڈ سمیت 11ممالک کے اراکین شامل ہیں۔ جبکہ یورپی یونین کی پارلیمنٹ اور یونین کے رہنماؤں کا اس دورے سے تعلق نہیں ہے جس کے باعث سفارتی سطح پر شکوک کا اظہار کیا جارہا ہے۔ مضحکہ خیز حد تک ظالمانہ بات یہ ہے کہ یورپی پارلیمنٹ کے یہ اراکین ایسی جماعتوں کے رکن ہیں، جو کسی بھی ملک سے تعلق رکھنے والے گندمی رنگت کے حامل افراد کا یورپ آنا پسند نہیں کرتیں۔

‘انڈیا ٹوڈے کی فارن افئیرز ایڈیٹر گیتا موہن نے یورپی یونین کے وفد کی ساخت پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ یہ کیسا سرکاری دورہ ہے کہ نئی دہلی میں موجود یورپی یونین کے دفتر کو اس کا علم ہی نہیں ہے۔ وفد آرمی ہیڈ کوارٹر و حکومتی نمائندوں سے ملاقات کرکے مقبوضہ کشمیر میں ایک روزہ قیام کرنے کے بعد واپس آیا۔ حیرت انگیز طور پر نئی دہلی میں قائم یورپی یونین کے کئی رکن ممالک کے سفارت خانے ایک روز قبل تک اس دورے سے لاعلم تھے۔ یہ ایک بڑی مضحکہ خیز صورتحال ہے کہ ایک تو سخت گیر دائیں بازو کی جماعتوں کے اراکین کو ان کے اپنے سفارت خانوں کو اطلاع دیئے بغیر مدعو کیا، پھر طرفہ تماشا یہ ہے کہ کشمیریوں کے حقیقی نمائندوں سے ملاقات ہی نہیں کی۔

وفد کی آمد پر تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ مودی سرکار جو ڈراما رچا رہی ہے اس کا جھوٹ کا پول پاکستان ہی نہیں بلکہ خود بھارت کی اپوزیشن جماعتوں نے کھولا ہے اور اس دورے کے حوالے سے شکوک کا کھلا اظہار کیا ہے کہ ”مودی سرکار کا یہ اقدام مشکوک ہے“ کیونکہ بھارت کی اپوزیشن جماعتوں کو مقبوضہ کشمیر جانے کی اجازت نہیں، انہیں مقبوضہ کشمیر میں داخل نہیں ہونے دیا جارہا، جانا چاہتے تو ائیر پورٹ سے واپس بھیج دیا جاتا ہے۔ میڈیا کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، لیکن دوسری جانب اچانک سخت گیر دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے اراکین کو دورے پر بلا لیا گیا۔ عالمی ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو مقبوضہ کشمیر میں مخصوص جگہ سے کسی دوسرے علاقے میں جانے کی اجازت نہیں دی جاتی، لیکن بھارت کی سخت گیر حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے عالمی برادری کو گمراہ کرنے کے لئے ایک نیا ڈرامہ رچایا گیا۔ آر ایس ایس انتہا پسند اقدامات کرنے والی تنظیم ہے۔ آر ایس ایس کی ذیلی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اپنے مسلم دشمن اقدامات کی وجہ سے پہلے ہی دائیں بازو کی دہشت گرد تنظیم ہے۔ پاکستان نے گزشتہ دنوں لائن آف کنٹرول کے مختلف علاقوں کے دورے میں سفارتکاروں اور ہائی کمشنر کے ساتھ ساتھ بھارتی ہائی کمشن کو بھی دعوت دی تھی کہ وہ بھی آئیں اور غیر جانبدار مبصرین کے ساتھ ایل او سی کا دورہ کریں۔ لیکن بھارتی ڈپٹی کمشنر اپنے بھارتی آرمی چیف کے جھوٹے بیان کے سبب مزیدشرمندگی سے بچنے کے لئے نہیں آئے۔

مودی سرکار کا سخت گیر دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے یورپی یونین کے اراکین کو دعوت دے کر پاکستان کے بیانیہ کو درست ثابت کردیا ہے کہ بھارت کی دائیں بازو کی سخت گیر پالیسیاں پڑوسی ممالک ہی نہیں بلکہ پورے خطے کے لئے خطرناک ہیں۔ بھارت مسلم کشی میں انتہا پسندی کے فروغ میں صف اول نظر آتا ہے۔ ان حالات کے تناظر میں سخت گیر نظریات کی حامل جماعتوں کا مقبوضہ کشمیر آنا ایک سوچی سمجھی سازش ہے تاکہ عالمی برداری کو گمراہ کیا جا سکے۔ تاہم امریکی سینیٹ میں جس طرح بھارتی اقدامات پر بحث ہوئی اور بھارت کا اس پر سخت ردعمل ثابت کرچکا ہے کہ مودی سرکار دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنا چاہتی ہے۔ مودی سرکار کو بھارت کی سیاسی جماعتوں کو مقبوضہ کشمیر جانے کی اجازت دینی چاہیے تھی۔ نیز بھارت نواز کشمیری رہنماؤں و سابق وزیر اعلیٰ کو بھی 90دنوں سے گھروں میں نظر بند کیا ہوا ہے انہیں ہی کم ازکم وفد سے ملا دیتے۔ حریت پسند قیادت کو وفد سے ملانا چاہیے تھا۔ انٹرنیٹ، موبائل سروس پر کشمیری عوام کو رسائی دینی چاہیے تھی لیکن مودی سرکار نے ایسا نہیں کیا بلکہ اپنے جیسے نظریات کی حامل جماعتوں کے اراکین کو مدعو کیا جس پر عالمی ذرائع ابلاغ بھی تحفظات کا اظہار کررہا ہے۔
بہر کیف سخت گیر دائیں بازو کے وفد کے دورے سے پاکستان کا بیانیہ مضبوط ہوا ہے اور ریاستی موقف کو تقویت ملی ہے کہ انتہا پسندمودی سرکار کا ایجنڈا جمہوری و سیکولر نہیں ہے۔ نسل کشی اور اسلام فوبیا کے وہم میں مبتلا سخت گیریورپی جماعتوں کے اراکین کو مدعو کرنا اس نظریئے کو بھی ثابت کررہا ہے کہ بھارت، مقبوضہ کشمیر اور مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ بھی کررہا ہے اس کی پشت پر مذمو م عزائم رکھنے والی قوتیں ہیں۔ سخت گیر نظریات کی حامل جماعتوں کے وفد کی آمد نے بھارتی چہرے سے نقاب اتار دیا ہے۔ عالمی برداری کو مودی سرکار کے جھوٹ کے نئے پلندے کا نوٹس لینا چاہیے۔ انسان دوست اراکین پارلیمنٹ کسی بھی مملکت کے ہوں انہیں اقوام متحدہ و انسانی حقوق کمیشن کی نگرانی میں مقبوضہ کشمیرکا دورہ کرنے کی اجازت دی جائے۔ تاکہ مودی سرکار کا جھوٹ مزید آشکار ہوسکے۔
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ سخت گیر دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے یورپی اراکین نے 14ہزار سے زاید گرفتار کشمیری نوجوانوں اور کم سن بچوں کے اہل خانہ سے ملاقات کیوں نہیں کی۔ جلائے گئے گھروں کو کیوں نہیں دیکھا۔ محاصرے کے دوران عصمت دری کی شکار خواتین کی داستانیں خود کیوں نہیں سنی، 90دن سے بند کاروبار سے متاثرہ تاجروں سے ان کا موقف دریافت کیوں نہیں کیا۔ وفد کے ساتھ غیر جانبدار میڈیا کیوں نہیں تھا۔ وفد سے بھارت نواز کشمیری رہنماؤں کی ملاقات کیوں نہیں کرائی گئی۔ کیا انہوں نے پیلٹ گنوں سے بنیائی کھونے والے اور حراستی مراکز میں تشدد کا شکار بننے والے کشمیریوں سے اُن کا ”قصور“پوچھا۔ انڈین سیکورٹی فورسز کے ٹارچر سیلوں سے کسی کشمیری کے چیخیں سنائی دی یا نہیں۔  یا پھر اُس ’ جھتے ‘سے ملاقات کی جو کسی فلم سیٹ سے اداکاری کے لئے لائے گئے تھے۔
مودی سرکار جھوٹے ڈرامے و چالیں چل کر عالمی برادری کو بے وقوف نہیں بنا سکتی۔ دنیا حقیقت جانتی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں انٹر نیٹ بند ہی اس لئے کیا گیا ہے تاکہ کشمیری عوام کی آواز کو دبایا جاسکے۔ 90 دن سے زاید لگا ئے گئے کرفیو کا مقصد کشمیریوں کے حوصلے کو توڑنا تھا جس میں ناکامی ہوئی۔ ہزاروں نوجوانوں اور بچوں کو گرفتار کرکے بھارت کی دور دراز جیلوں میں نامعلوم مدت کے لئے قید رکھنے کا مقصد ان کے والدین کو ہراساں و خوف زدہ کرنا ہے۔ دنیا جانتی ہے،لیکن اپنے فروعی تجارتی مفادات کی وجہ سے بدترین انسانی اقدار کی پامالی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ پاکستانی عوام، کشمیریو ں کے ساتھ آخری سانس کھڑے رہیں گے۔ انہیں جھوٹے پروپیگنڈوں سے گمراہ نہیں کیا جاسکتا۔ سخت گیر دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی اراکین پارلیمنٹ پہلے خود تو انسانی اقدار کا احترام کریں۔ اگر انہیں مقبوضہ کشمیر  سے حقیقی ہمدردی ہوتی تو دنیا کو اصل حقائق سے آگاہ کرتے۔ مودی کے دیئے گئے اسکرپٹ پر عمل نہیں کرتے۔ اگر بھارت کا یہ دعویٰ ہے کہ دیگر گروپ بھی آئیں گے تو باقاعدہ یورپی پارلیمان، اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کمیشن و سلامتی کونسل کے فائیو۔ جی کے وفد کو آزادنہ مقبوضہ کشمیر کا دورہ کرنے دیا جائے۔ لیکن پاکستان سمیت تمام دنیا جانتی ہے کہ مودی سرکار کبھی بھی سچ کا سامنا کرنے پر تیار نہیں ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).