جمالِ سبز نما


ایک بار پھر میں سکردو کی فلائٹ کے انتظار میں اسلام آباد ائیر پورٹ پر بیٹھا تھا۔تقریبا ایک سال پہلے بھی سکردو ادبی میلے کے لیے اسی لاؤنج میں سب شاعر اور ادیب جمع تھے، سب کو اس میلے میں شرکت کی خواہش اور خوشی تھی لیکن جہاز کا انتظار محبوب کے انتظار سے بھی سخت نکلا۔موسم کی خرابی کی وجہ سے پرواز کی منسوخی کا اعلان ہوا تو مایوسی دیدنی تھی۔ساتھیوں کے چہرے تو سامنے ہی تھے لیکن ہم سکردو کے ان منتظمین کے افسردہ چہرے بھی دیکھ سکتے تھے جنہوں نے سہ روزہ ادبی میلے کے لیے بھرپور تیاریاں اور انتظامات کیے تھے۔لیکن مقدر سے کوئی کبھی لڑ سکا ہے بھلا؟
اور اب 22 جولائی 2019 کی صبح پانچ بجے میں ایک بار پھر اسی فلائٹ کے انتظار میں تھا جو مجھے اس ان دیکھی دنیا تک لے جائے گی جو تصویروں فلموں سے زیادہ تصور کی آنکھ سے دیکھ رکھی تھی۔سیلانی نے پاکستان کے بہت سے شمالی علاقے دیکھ رکھے تھے لیکن چند گوشے اب بھی کسی خواب کی طرح دل میں دھڑکتے تھے اور بلتستان ان میں سے ایک تھا۔
چھوٹا جہاز کسی بڑے پرندے کی طرح سیاہ ٹرمک پر اترا اور خراماں خراماں چلتا ہوا ائیر پورٹ عمارت کے پاس آکر رک گیا۔ اسی سیمرغ نے ہمیں اپنے پشت پر بٹھا کر پہاڑوں ،وادیوں اور جھیلوں کے درمیان لے جانا تھا۔اس نے اڑان بھری اور چند ساعتوں میں ہواؤں اور بادلوں کے ساتھ ہم سفر ہوگیا۔بادل کافی تھے اور پرواز کہیں کہیں ناہموار۔جیسے پکی سڑک پر چلتے چلتے اوبڑ کھابڑ پگڈنڈی کا ٹکڑا آجائے اور گاڑی آپ کو بند گڑوی کی جامنوں کی طرح اوپر نیچے دائیں بائیں اچھالنا شروع کردے۔ناران کاغان کی وادی سے گزرتے ہی برفانی چوٹیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔اکثر پہاڑوں پر برف نے چوٹیوں اور بہت سے راستوں کو ڈھک رکھا تھا لیکن زمین نے اس کی بالا دستی قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے یہاں وہاں چہرہ نکال لیا تھا۔گہرے خاکستری اور براق سفید رنگوں کا سنگم دو جسموں کے وصال کی طرح تھا اور ہوائی گیلری میں بیٹھے تماشائی یہ ملاپ بڑے شوق سے دیکھتے تھے۔
چالیس منٹ بعدبادلوں کے درمیان سے ایک دریا نمودار ہوا جس کے پہلو میں ایک صحرا لیٹا ہوا تھا۔کسی بزرگ کی طرح۔سفید ریت کے ٹیلوں والا صحرا جہاں ہوا خاک اڑاتی اور دریا کے سر پر ڈال دیتی تھی۔چاروں طرف سے بہت بلند پہاڑ انہیں جھک کر دیکھتے تھے۔اسی منظر کے ایک کونے میں سیمرغ داخل ہوا۔وہ پنجے کھولے جو اب تک پیٹ میں موڑ رکھے تھے۔دایاں پر نیچے کرکے دائیں طرف مڑا،سیدھا ہوا ۔بلندی کم کرتے کرتے دریا کے متوازی ہوا اور آخر باہر کی طرف نکلے پیروں سے مٹیالی زمین کو چھو لیا۔
ڈاکٹر عظمیٰ سلیم ان دوستوں میں سے ہیں جن کی دوستی سال ہا سال کے گرم و سرد نے پرکھی ہوئی ہے۔خلوص ،اپنائیت، مہمان نوازی ان کی پہچان ہے۔ان کے شوہر ڈاکٹر سلیم بھی مہمانوں کی دلداری اور خدمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔یہ دونوں میاں بیوی اییر پورٹ پرمیرے منتظر تھے۔عظمی سلیم اپنی صلاحیتوں کے حوالے سے نیزگورنمنٹ کالج برائے خواتین کی پرنسپل کے طور پر پورے بلتستان میں عزت و احترام سے جانی جاتی ہیں۔انہی دوستوں کے پرزور اصرار پر جو بہت مدت سے تھا، میں سکردو آیا ہوں۔انہوں نے بلتستان کے دور و نزدیک بہت سی وادیوں اور خوب صورت جگہوں کی سیاحت کے پروگرام بنا رکھے ہیں اور یہاں کے چپے چپے سے ان کی واقفیت کا فائدہ ہم مسافروں کو ہورہا ہے۔اس سفر میں خوشی کی اضافی بات یہ ہے کہ ہماری دیرینہ دوست اور ڈنمارک میں مقیم ،ڈینش ادب کو اردو اور اردو کو ڈینش ادب سے متعارف کرانے والی نیزیورپ میں اردو ادب کے فروغ کا اہم کام کرنے والی صدف مرزا بھی آج کل سکردو آئی ہوئی ہیں اور عظمیٰ کے گھر ہی ٹھہری ہوئی ہیں۔چنانچہ گپ شپ، جملے بازی ،نوک جھونک ،قہقہوں کے ساتھ یہ سیر سپاٹے چل رہے ہیں.اور کچھ دن اسی سیاحت میں گزریں گے۔
خوب صورتی اگر ایک طرح کی ہوا کرتی تو اس یک جہت یک رخے حسن سے انسان بہت جلد بیزار ہوجاتا۔ہر جگہ کی خوبصورتی اپنی طرح کی ہوتی ہے اور حسن کو ایک طرح بیان کرنا ممکن بھی نہیں۔حسن صرف دریا ،جھیل، برف اور سبزہ زار تک محدود نہیں۔مٹی اڑاتے دشت اور ہوا کے ساتھ جگہ بدلتے ٹیلوں کی خوب صورتی ذرا چکھ کر تو دیکھیے۔ہمیشہ کے لیے اپنا اسیر کرلیں گے۔تا حد نظر ہموار میدانوں اور سنہری کھلیانوں کی دل کشی کسی دیکھنے والی آنکھ سے پوچھیے۔سمندروں اور پہاڑوں کی ہیبت خوب صورتی کے ساتھ گندھی ہوتی ہے کہ ایک کو دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔
سکردو اور بلتستان کا حسن بہت الگ سا ہے۔بہت سے تضادات سے مل کر بنا ہوا۔سخت گرمی اور سخت سردی۔بنجر پن اور ہریالی۔ریگ زار اور مرغزار۔مناظر میں بھی عجیب اور نرالا تنوع ہے۔بالکل بنجر بلند پہاڑ جن کے دامنوں اور گوشوں میں ہری بھری چراگاہیں جھلملاتی ہیں۔کسی گھاس کی پتی کے بغیر سفید ریت کا صحرا۔سرسبز اور شاداب وادیاں۔ایک دوسرے سے متضاد حسن اس طرح ہم آغوش ہیں کہ شاید کہیں اس طرح نہیں دیکھے ۔ لیکن اسی پر بات ختم نہیں ۔ دل موہ لینے والے موڑ ، دور اور قریب سے آتے بل کھاتے دریا۔شور مچاتے پہاڑی بلندیوں سے اترتے گلیشئیرز کی پگھلی برف کے نالے۔چٹانوں کے دل سے پھوٹتے چشمے۔جن کا ایک گھونٹ آپ کی ساری تھکن اتار دے گا۔یہ سب اس خطے کی شناخت ہیں جس کا نام بلتستان ہے۔
کسی بھی پہاڑی مقام کا اصل حسن اس کے راستوں اور دائیں بائیں پھیلی وادیوں میں پنہاں ہوتا ہے۔منزل سے زیادہ اہم راستے ہوا کرتے ہیں۔سکردو ایک عبوری دور سے گزرتا محسوس ہوا۔کافی بڑا حصہ مٹیالے رنگ میں ڈوبا ہوا۔سکردو ،گلگت ،پنڈی کی شاہراہ جو دراصل بلتستان کی شہ رگ ہے، زیر توسیع اور زیر تعمیر ہے۔اور مسافروں کے لیے فی الحال گرد و غبار کے پہاڑ کو دس گھنٹے میں عبور کرنے کی طرح ہے۔لیکن جب یہ مکمل ہوجائے گی تو سکردو، گلگت ساڑھے تین چار گھنٹے کی مسافت رہ جائے گی۔مسافت کا یہ دورانیہ جو ابھی صرف خواب ہے شاید آئندہ دنوں میں خواب نہ رہے ۔
زمردی جزیرے اور جھیلیں اس خواب کا حصہ ہیں جو میرے دل میں ہلکورے لیتا رہتا ہے۔اور اگر آپ بھی ایسا کوئی خواب رکھتے ہیں تو یاد رکھیں کہ ست پارہ(سات ٹکڑے)جھیل جسے مقامی سد پارہ کہتے ہیں، زمردی جھیلوں کی ملکہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).