مرد کی محبت یاعورت کو لگتی دیمک


خدا جانے اس کے گھر کا ماحول ایسا تھا یا دہات میں رہنے کی وجہ سے گھر بھر اتنا سیدھا سادہ تھا کہ جو مسجد میں نماز کے خطبے میں اسلام سکھایا جاتا اس سے ایک حرف ناآگے ناایک حرف پیچھے کی تحقیق کرنے کاخیال کسی کوآتا ناضرورت محسوس ہوتی ۔اس کے گھرانے کو تنگ نظر کہنا مناسب نا ہوگا ہاں البتہ تمام اعمال بد کرنے کے باوجود خوف خدا سب کے دلوں میں تھا ۔
وہ بچپن سے ہی ذہین تھا قرآن پاک پڑھنے کابہت شوقین قرآت سنانی ہویا کلاس کا سبق سننا ہو قاری صاحب اسے ہی آگے کرتے تھے ۔ماں باپ نے بہت چاؤسے نام بھی ایجاز رکھا تھا۔
اس کے شوق کودیکھتے ہوئے قاری صاحب نے ایجاز کے والد کو مشورہ دیا کہ اسے قرآن پاک حفظ کروایا جائے ۔والد صاحب نے پوری توجہ اور لگن سے یہ نیک کام انجام دیا اور وہ کم عمری میں ہی حافظ  قرآن ہوگیا۔
ابھی اس کی قلمیں بھیگنا شروع ہوئی تھی لڑک پن میں اٹکھیلا پن ہونے کی وجہ سے گھر بھر کا منظور نظر تھا ۔ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا ہونے کی وجہ سے ہر بات منوا لینا اس کی عادت بن چکی تھی ۔
بڑے بھائی زیادہ پڑھ لکھ نہیں سکے تو والد محترم کوخواہش ہوئی کہ دین کی تعلیم کے ساتھ ساتھ چھوٹے صاحب زادے کو مناسب دنیوی تعلیم بھی دی جائے ۔اور انہوں نے پوری کوشش کی کہ وہ پڑھ لکھ کر کچھ بن بھے جائے ۔پڑھنے میں اچھا تھا لہذا کامیابی سے پڑھائی کازینہ چڑھتا گیا ۔یونیورسٹی سے ڈگری لے کرروزگار کی تلاش شروع ہوئی ۔جب تک مناسب نوکری کابندوبست نا ہوا ۔ٹیوشن پڑھانا شروع کیا۔
مجبوری حالات کہیے یا شوق جو بھی شاگرد ملتا مخالف نفس ہی ملتا ۔بچپن کب کا بیت چکا تھا لیکن مزاج کا اٹھکیلا پن موجود تھا اور شاید کچھ تنگ نظر ماحول کی پرورش کہ صنف مخالف کو دیکھتے ہی ساری تربیت پہ پانی بھر جاتا ۔کئی طالبات تو ایسی تھیں جو ہم مزاج ہونے کی وجہ سے پڑھائی پہ کم ناول اور تفریح کے لئے وقت دینے لگی ۔
وہ بھی یہ بھول جاتا تھا کہ سینے میں کلام اللہ ہے ۔دنیا کی برائی سے اپنے کو روکنے کی کوشش کرنے کا کبھی ارادہ ہی نہیں کیا ۔ٹیوش پڑھانے کی آڑ میں اپنی بولڈ قسم کی طالبات کو کتابیں دلانے کے بہانے باہر لے جانا اور اپنی جنسی خواہش پوری کرنا اس کا معمول بن گیا ۔
وہ ایک پر کشش ملازمت تھی ۔تنخواہ کچھ زیادہ نا تھی لیکن آگے بڑھنے کے مواقع بہت تھے ۔ بڑے بڑے سیاست دان کبھی جج کبھی وکیل غرض سیکھنے کے لئے اس کے پاس اچھا ماحول تھا اپنی ذہانت سے وہ یہاں بھی آگے بڑھتا رہا لیکن اس کی فطرت میں موجود کمزوری نے اسے یہاں بھی اپنی من چاہی ضرورت پوری کرنے کے راستے دکھا دیئے۔
غریب گھرانوں سے آئی لڑکیاں اسکا آسان شکار بنتی ۔شام کو آفس ٹائم ختم ہونے کے بعد وہ اپنا وقت ایسی ہی لڑکیوں کے ساتھ گزارتا ۔انہیں آگے بڑھنے کاسہارا دینے کا یقین دلاتا ۔جو زیادہ مجبور ہوتی وہ اس کے اس گھناؤنے چنگل میں پھنس جاتی ۔غربت مالی بدحالی پرکشش پرتعیش زندگی کی خواہش لئیے معاشرے کی مظلوم لڑکیاں اپنے ہونے والے نقصان کو بہت کم اہمیت دے کر آگے بڑھ جاتی ۔
وہ اپنی اس چلن سے باز نہیں آیا ۔وقت کے ساتھ ساتھ وہ ترقی کرتا رہا آمدن بڑھی گھر گاڑی غرض ہر سہولت اس کے پاس موجود تھی ۔
ثناءتھکے تھکے قدموں سے آفس کا زینہ چڑھ رہی تھی اس بار بھی اسے یقین تھا کہ وکیل ٹکا سا جواب دے گا ۔اپنے مرحوم باپ کی جائیداد اپنے چچا سے لینے کے لئے عدالتوں اور وکیلوں کے چکر کاٹتے کاٹتے اس کے بالوں میں سفیدی آگئی تھی ۔اسکول کی معمولی نوکری اور بوڑھی ماں اس کا کل اثاثہ تھے ۔ وکیل بھی اپنی روزی اس کے ذریعے حاصل کرتے تھے کیس کیا حل ہوتا بس خانہ پوری ہوتی تھی ۔ابھی آفس میں قد م رکھا ہی تھا کہ وکیل کے چیمبر میں موجود رش سے اسے گھبراہٹ سی ہونے لگی ۔اسی رش میں وکیل کے دوست کی صورت ایجاز وہی بیٹھا تھا ۔کچھ فطرت کا تقاضہ تھا کچھ لحاظ آگیا ہوگا وہ اپنی جگہ ثناء کے لئے چھوڑتے ہوئے آفس سے باہر آگیا ۔  کئی مرتبہ وکیل کے چیمبر میں آمنا سامنا ہوا۔ایجاز کو ایک کمزور اور آسان شکار ثناء کی صورت میں نظر آرہا تھا وہ موقع کی تلاش میں تھا کہ کب ثناء سے بات چیت شروع کرے ۔
اس دن تیز بارش ہورہی تھی اتفاق کہ لیں یاثناء کی بدقسمتی وہ چیمبر سے باہر نکلی توایجاز گاڑی سے اتر رہا تھا دل میں عزم تو پہلے سے تھا لہذا گھر تک چھوڑنے کی آفر کردی ۔ثناء بھی اپنی پریشانی دیکھتے ہوے اس کی آفر کورد نا کرسکی ۔
گھر تک پہنچتے پہنچتے اتنی گفتگو ہوچکی تھی کہ وہ سمجھ سکتا کہ ثناء کو ایک ہمدرد کی ضرورت ہے ۔فون نمبر کا تبادلہ ہوا اور ثناء غیر محسوس طریقے سےاپنی زندگی کی کتاب کا سیاہ باب کا پہلا پنا لکھ کر گھر آگئی ۔
اب اکثر رات ایجاز ثناء کو میسیج پہ سلام بھیجنے لگا ۔عید بقر عید پہ مبارک باد کہنا بھی نا بھولتا ۔پہلے تو ثناء نے ایجاز کے میسیجز کو کوئی اہمیت نہیں دی لیکن اس سلام کاتسلسل آخر اس کے دل پہ دستک دینے لگا ۔تھک بھر کی تھکان کے بعد بستر پہ لیٹ کرموبائل چیک کرنا اس کی عادت تھی اور اب ایجاز کا سلام پڑھنا اس کی عادت ہوگئی پھر ایک رات وہ اس کے سلام کا جواب دے بیٹھی بس پھر تو ایجاز سے بات چیت کاسلسلہ شروع ہوگیا ۔وہ اپنی زندگی میں اس خوشگوار تبدیل سے بہت خوش تھی عورت زاد تھی خواب بُننا اس کی فطرت تھی ۔ وہ اپنی زندگی کی اس بدلتی کروٹ میں یہ بھی بھول گئی کہ اس کے بالوں میں سفیدی آچکی ہے وہ ایجاز سے دس سال بڑی ہے وہ روز رات اپنے خوابوں کو تعبیر دیتی اپنی خواہشوں کے محل بُنتی ۔عورت زاد تھی اپنے جذبات کی رُو میں بہ گئی اسے ایجاز کے روپ میں مسیحا مل گیا تھا ۔اپنی اس خوشی کو پاکر وہ بہت خوش تھی ۔
ثناء کئی دن سے سوچ رہی تھی کہ اب اپنی ماں کو ایجاز کے بارے میں بتا کر شادی کی بات کرے ۔وہ منتظر بھی تھی کہ کب ایجاز اس کے گھر آنے کا کہے اور وہ اپنے حصے کی خوشیاں سمیٹ لے ۔کئی مرتبہ دبے الفاظ میں وہ ایجاز سے شادی کا کہ چکی تھی ۔
عورت شاید ایک جذباتی مخلوق ہے اپنی چاہت میں اسے ہرچیز چاہت سے لبریز ہی لگتی ہے جبھی تو اپنا آپ تک لٹا بیٹھتی ہے ۔وہ یہ سوچتی ہی نہیں جسے وہ محبت سمجھ رہی ہے وہ در حقیقت مرد کا ہتھیار ہے جو وہ اس وقت تک استعمال کرتا ہے جب تک شکار اس کے شکنجے میں نہ آجائے ۔
پارک میں بیٹھے ابھی کچھ دیر ہی ہوئی تھی کہ ثناء نے ایجاز سے پھر شادی کا ذکر چھیڑ دیا ۔ایجاز اس ذکر سے اکتانے لگا تھا آج پھٹ پڑا “تم بوڑھی ہوچکی ہو ثناء “میں تم سے کیسے شادی کرسکتا ہوں ۔
یہ الفاظ تھے یا دھماکہ ۔۔وہ کبھی تصور بھی نہی کرسکتی تھی کہ جس پہ اتنا اندھا اعتماد کیاکہ اپنا تن من سب سونپ دیا وہ ایک لمحے میں سب ختم کردے گا ۔آج اسے اپنی بدقسمتی پہ بہت رونا آیا ۔ اس کے رونے سے ایجاز پہ کب فرق پڑنے والا تھا اس نے تو بے شمار پھول سے چہروں کواپنی فطرت کے ہاتھوں مسلا تھا ۔اس دن کے بعد سے اس نے ثناء کے چیپٹر کو بھی بند کردیا ۔
ایجاز کی ماں وطن واپس آنا چاہتی تھیں وہ اپنی بیٹی کے پاس دو سال سے تھیں ۔ایجاز کے بہنوئی کسی بیماری کی وجہ سے کُوما میں تھے ۔ماں تھیں بیٹی کو بھی پریشانی میں اکیلا نہیں چھوڑ سکتی تھیں اور جوان بیٹے کے سر پہ سہرا بھی دیکھنا چاہتی تھی ۔داماد کی صحت کے بہتر ہونے کے آثار نہ دیکھ کر بھاری دل سے واپس آ ہی گئی۔
آتے ساتھ ہی انہیں اپنے بیٹے کاسہرا سجانے کی دھن سوار ہوئی ۔اس کی حسن پرستی سے واقف تھی  کشمیری لڑکی شادی کے لئے منتخب کی۔ پڑھی لکھی نوکری پیشہ متوسط  گھرانے سے تعلق رکھنے والی بالآخر وہ یہ کار خیر انجام دے بیٹھی ۔
ایجاز بھی اپنی شادی سے بہت خوش تھا ۔ایجاز کی ساس بھی بہت خوش تھیں ۔انہیں تو جیسے ہیرا مل گیا ہو ۔ان کی نظر میں تو ہیرا ہی تھا حافظ قرآن خوش شکل پڑھا لکھا داماد کمائی بھی خوب تھی ۔
شادی کی مصروفیات اور رخصتی کے فریضے سے نمٹ کر سب سونے کی تیاری میں لگ گئے ۔
ایجاز کے دوستوں نے بھی ایجاز کو اس کے کمرے میں دھکیل دیا۔
اپنے بیڈ پہ بیٹھی اسکی دلہن آہٹ سن کر اور سمٹ گئی ۔ایجاز اس کے پاس آکے بیٹھا ۔اچانک ہی اس کے دماغ میں گھنٹیاں بجنے لگی ۔اس کے چہرے پہ سے گھونگھٹ ہٹاتے ہوئے اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے ۔آج کی رات اس کے دماغ میں کئی سوال لا رہی تھی ۔
اسکی دلہن ایک متوسط گھرانے سے تھی نوکری بھی کرتی تھی وہ اپنی اس سوچ کو روک نہیں پارہاتھا کہ عورت زاد جب گھر سے باہر نکلے تو نوکری تک رسائی اتنی آسان نہیں وہ ایسا سوچنے میں حق بجانب تھا کئی مرتبہ تو وہ خود سیڑھی کاکردار ادا کر چکا تھا ۔اسے اپنے آپ سے گھن آنے لگی وہ رات جس کے لئے وہ بہت خوش تھا کافور ہوگئی ۔
آج شاید ثناء اور اس جیسی کئی برباد عورتوں کی بدعائیں اس کی خوشی کو کھا گئیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).