سال گرہ اور دلوں میں گرہیں


پہلے پہل جب زمانے میں اتنی ترقی نہیں ہوئی تھی۔ لوگ سادہ اور آسان زندگی جیتے تھے۔ منہ بگاڑ کر انگریزی بولنے کارواج ہر گز نہیں تھا بلکہ اردو سے شناسائی بھی نہ ہونے کے برابر تھی۔ ہر چیز میں سادگی اور سہولت تھی سو ان دنوں بچوں کی سالگر منانے کا رواج بھی کچھ ایسا تھا کہ اس کے جنم دن پر سوجی کا حلوہ پکا کر ختم دلایا جاتا اور محلے بھر میں تقسیم کیا جاتا، پھر تھوڑا ماحول بدلا تو صاحب لوگوں کی دیکھا دیکھی کیک منگواکر سالگرہ منانے کا رواج آگیا۔

ایک پاؤنڈ کا کیک منگوا کر قریبی رشتہ داروں، بیس بچوں اور پڑوس کے سات گھروں کے بڑوں کو بلالیا جاتا۔ اب ہر بچہ بڑا تاک میں رہتا اور کوشش کرتا کہ وہ بڑی سی میز پر پڑے چھوٹے سے کیک کے قریب ہی کھڑا ہونے میں کامیاب ہو سکے۔ کیک کے قریب ہونے کا فائدہ یہ ہوتا کہ اس کے نہ ملنے کے چانس ختم ہو جاتے۔ جبکہ میزبان کی کوشش ہوتی کہ اس کے قریب وہ مہمان کھڑا ہو جس نے سب سے بڑا گفٹ دینا ہے۔ کچھ مہمان بھی چالاک قسم کے ہوتے تھے دس روپے کی چھوٹی سی گاڑی خرید کر اسے ڈبوں میں بند کرنے میں سارا دن لگا دیتے۔

یوں شام تک ایک جہازی سائز کا ڈبہ تیار ہوجاتا یوں ڈبہ لانے والے میزبان اور دیگر مہمانوں کی نظر میں بظا ہر اس بڑے نظر آنے والے گفٹ کی بدولت سب سے اہم ہوتے کہ جانے کتنی قیمتی شے لائے ہیں انھیں گھر والوں کی نظر میں خاصا پروٹوکول ملتا اور کیک کا سب سے زیادہ حصہ بھی۔ یہ عقدہ تو بعد میں کھلتا جب میزبان ”بڑے پیمانے کی سالگرہ“ سے فارغ ہو کر تحفہ کھولتے اور پھر ڈبوں سے ڈبے نکلنے کا سلسلہ شروع ہوجاتا جب تحفہ کھولنے والے کی برداشت ختم ہوجاتی اور وہ تحفہ دینے والے کو بد ترین قسم کی گالیوں سے یاد کرنے کے فرض سے فارغ ہوجاتا تو ڈبوں سے ایک ننھی سے گاڑی نکل آتی۔

جس کے بعد تحفہ دینے والے کی شان میں مزید گالیاں پیش کی جاتیں۔ صاحب خانہ کو دکھ ہوتا کہ اس ڈبے کا سائز دیکھتے ہوئے اس نے اپنی سگی خالہ کی بیٹی کو یہ کہہ کر کونے میں بٹھادیا تھا کہ تم تو کچھ بھی نہیں لائی منہ اٹھا کر چلی آئی ہو۔ وہ بیچاری مٹھی میں سو کا نوٹ دبائے شرمندہ شرمندہ سی کونے میں بیٹھ گئی اور جس کا سو کا نوٹ بھی گیا اور وہ کیک سے بھی محروم رہی۔

اب زمانہ بدل گیا ہے اب بچوں کی سالگرہ گھر کے سکون کے وسیع تر مفاد کے پیش نظر بہت بڑے پیمانے پر ہوتی ہیں ایک پاؤنڈ والے کیک کا زمانہ بھی ہوا پرانا۔ دکھاوے کی عادت اب صرف ہائی سوسائٹی میں نہیں پائی جاتی بلکہ متوسط طبقہ بھی اس کے زیر اثر آچکا ہے ہے۔ مردوں نے بیویوں کی دل آزاری سے بچنے اور خود سکون سے رہنے کے پیش نظر اس ہنگامے کو اپنی روٹین بنا لیا ہے۔ بیویوں کا ارشاد ہے کہ انسان آخر کماتا کس لئے ہے اگر بچوں کی خوشیاں بھی پوری نہ کر سکے۔

جیسے ایک سال کے بچے کی خوشیاں دکھاوے کی اس سالگرہ ہی میں تو چھپی ہیں۔ اس کے لیے کمیٹی ڈالی جاتی ہے یار دوستوں سے قرض لیا جاتا ہے اور گرینڈ پارٹی رکھی جاتی ہے بھئی بیگم نے اپنی سہیلی کو دکھانا تو ہے نا کہ میں نے اپنے بچے کی سالگرہ تم سے زیادہ اہتمام سے منائی ہے یعنی محبت کا معیار دیکھیں۔ اور اس کے لئے کسی دوسری ماں کے بڑے بچے کا کباڑہ کر دیا جاتا ہے۔ اور وہ بھلا مانس بیوی کی آنکھ میں آنسو نہ دیکھ سکنے کی کوشش میں اپنے آنسو دل میں اتارتا رہتا ہے۔

اب صرف بچوں ہی کی سالگرہ کا رواج نہیں رہا اب تو بڑے بھی اپنی سالگرہ اہتمام سے مناتے ہیں کچھ لوگوں کو سالگرہ منانے کا اتنا شوق ہوتا ہے کہ وہ ہر سال پورے اہتمام کے ساتھ اٹھارہ سال کے ہوجاتے ہیں۔ ہر سال اٹھارہ برس کے ہو جانے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ملک بھر کی دیواروں پہ لگے حکما کے اشتہار ”مرد کبھی بوڑھا نہیں ہوتا“ کو ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور کبھی بوڑھے نہیں ہوتے۔ میری ایک جاننے والی خاتون پچھلے چوبیس سالوں سے رشتہ کی تلاش میں آج بھی بیس برس کی ہیں۔

ایک خاتون کی شادی نہیں ہورہی تھی اس سلسلے میں کافی پریشان رہتیں۔ روز اماں کے کان میں صور اصرافیل پھونکتی کہ پینتیس سال کی ہو گئی ہوں اگلے سال چھتیس کی ہو جاؤں گی اور اس سے اگلے سال سینتیس کی۔ جب چالیس سال کی عمر میں ان کی شادی ہو گئی تو ان کی عمر چالیس سے کم ہو کر چوبیس ہو گئی۔ لہذا شادی کے بعد انھوں نے اپنی اکیسویں سالگرہ منائی۔ سالگرہ منانے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ آپ کے چہرے کی لکیریں جو مرضی بیان کریں لیکن آپ کی عمر اتنی ہی ہوتی ہے جتنی کیک پہ موم بتیاں لگی ہیں۔

کالج جانے والے زیادہ تر لڑکے سال میں تین چار بار اپنی سالگرہ مناتے ہیں۔ کئی لڑکے تو چار کی مقرر کردہ حد سے تجاوز کرتے بھی نظر آتے ہیں۔ اور ہر دو ماہ بعد کسی نئی محبوبہ کے ساتھ سالگرہ کی پیسٹری کاٹ رہے ہوتے ہیں۔ پیسٹری لیتے وقت وہ یہ بتانا ضروری سمجھتے ہیں کہ جانو تم تو ڈائیٹنگ پر ہو اور مجھے ہی ساری پیسٹری کھانی پڑے گی۔ اللہ جانتا ہے تمھارے بغیر میں کیسے پوری پیسٹری ختم کروں گا۔ ایسے لڑکے پچاس لگا کر دو ہزار کا پرفیوم لے اڑتے ہیں۔

یہ وہی لڑکے ہوتے ہیں جو ہمیشہ لڑکی کو اپنی اعلیٰ چوائس کے بارے میں بتاتے ہیں۔ کہ انھیں dolce & gbana کی پرفیوم بہت پسند ہے۔ ڈائنر کی شرٹس اور ایڈی ڈاس کے بوٹ ہی پہنتے ہیں۔ لیکن حرام ہے جو یہ سب انھوں نے کبھی اپنی جیب سے خریدا ہو۔ یہ سب تو کسی نہ کسی محبوبہ کی دین ہوتی ہے۔ لڑکیاں مروت اور محبت دونوں میں ماری جاتی ہیں۔ ایک تو وہ پیکر شرم و حیا کا نمونہ بننے کی کوشش کرتی ہیں دوسرا وہ سمجھتی ہیں کہ اگر وہ ہر سال سالگرہ مناتی رہیں تو آج کا محبوب جسے وہ مستقبل کا سرتاج مان چکی ہوتی ہیں کہیں سالگرہ کی گنتی کر کے کل کو انھیں خود سے بڑا ہونے کا طعنہ نہ دے۔

سو بہتر ہے اس معاملے پر مٹی ڈال دی جائے۔ کچھ لڑکیاں ہمت دکھاتی ہیں اور موجودہ عمر کے چار سال کم کر کے سالگرہ کا اہتمام کر لیتی ہیں۔ لیکن انھیں ملتا کچھ نہیں کہ لڑکوں کے پاس ایک سے ایک بہانہ موجود ہوتا ہے۔ یار حالات بہت تنگ ہیں، ابو نے مارکس کم آنے پہ جیب خرچ بند کردیا ہے، تمھاری چٹیاں کلائیاں ان سستی چوڑیوں کے لئے نہیں بنی ہیں ان میں تو سونے کے کنگن سجیں گے۔ بس ایک بار نوکری پر لگ جاؤں میں نے جڑاؤ کنگن اور ڈائمنڈ کا سیٹ سوچ رکھا ہے، تم اگر کہو تو تیری خوشی کے لئے دوستوں سے ادھار مانگ لیتا ہوں بعد میں دونوں مل جل کر اتار لیں گے، اب تمھاری سالگرہ ایسے تو نہیں منا سکتا نا۔

گفٹ نہ دینے کا ایک سو ایک بہانہ موجود ہوتا ہے۔ لڑکیوں کا دل موم کی طرح ہوتا ہے فٹ پگھل جاتا ہے۔ وہ سوچتی ہیں کل کو تو سب میرا ہی ہونا ہے سود سمیت وصول کر لوں گی۔ اب ان بے چاریوں کو کیا پتہ کہ اپنے لئے ایڈی ڈاس کی فرمائش کرنے والا دوسری والی سے بھی یہی ڈائیلاگ مار رہا ہے۔ اور اگر کوئی لڑکا بھولے سے گفٹ دے بھی دے تو لڑکی سے کسی نہ کسی طرح پیسے نکلوا لیتا ہے۔ یار ٹیوشن فیس دینی ہے تمھاری سالگرہ کا گفٹ خرید لیا تھا ان پیسوں سے۔ کچھ دوستوں کا ادھار لوٹانا ہے وہ جان کو آ رہے ہیں، بہت ضرورت آن پڑی ہے مانگتے ہوئے شرم آرہی ہے لیکن وعدہ میں تمھاری ایک ایک پائی سود سمیت واپس کر دوں گا۔

یہ تو ہے سالگرہ کی کہانی۔ کچھ خواتین و حضرات کو شادی کی اینی ورسری منانے کا بھی بہت شوق ہوتا ہے۔ خواتین خوشی خوشی اور حضرات اوپرے دل سے اینیبورسری کا کیک کاٹتے ہیں۔ پتہ نہیں اینی ورسری منا کر یہ دونوں ایک دوسرے کو کیا جتاتے ہیں شاید یہ کہ ایک دوسرے کو برداشت کرتے اتنا عرصہ ہو گیا۔ ویسے اس کے لئے اینی ورسری منانے کی تو ہرگز ضرورت نہیں ہوتی یہ بات تو اپنی اپنی جگہ دونوں اپنے رویے ہی سے روز ایک دوسرے کو جتا رہے ہوتے ہیں۔

پہلے ایک دو سال تو اسے خاصے اہتمام اور محبت سے منایا جاتا ہے۔ پھر محض یہ جتانے کے لئے کہ دیکھ لو میرا حوصلہ جو اتنے سال تمھیں برداشت کر لیا۔ بیوی پورے اہتمام سے تیار ہو کے شوہر کو جتاتی ہے کہ ہماری شادی کو اتنے سال ہو گئے، تمھارے ساتھ کیسے گزارا کیا میں ہی جانتی ہوں یا میرا خدا، یہ کہتی ہے اور ایک درد بھری آہ لیتی ہے شوہر بھی جوابی حملہ کر کے بتا دیتا ہے کہ اگر تم نے مجھ پر ڈورے ڈال کرمجھے پاگل نہ کیا ہوتا تو آج ماہ نور میرے پہلو میں ہوتی کتنا جچتی وہ میرے ساتھ، تمھارے موٹاپے نے تو میری شاندار پرسنالٹی کا بھی بیڑہ غرق کر دیا ہے۔ پھر وہ اتنی امیر تھی راج کرتا میں اس کے ساتھ، میرے کولیگ تو مجھے دوسری شادی کا مشورہ دے رہے ہیں۔ وہ بھی ٹھنڈی آہ بھرتا ہے۔ بس ایک جملے سے لڑائی کا آغاز ہوتا ہے اور پھر چل سو چل۔

ایسے دن ایسے تہوار ضرور منائیں کہ خوشی بانٹنے کا بہانہ ہونا چاہیے لیکن کوشش کریں کہ خوشیوں کے اوقات کو ملیامیٹ نہ کریں۔ اپنی ناکام حسرتوں کا جنازہ عین کیک کٹنے کے لمحات میں مت اٹھائیں۔ دکھاوے کے لئے بھی خوشیاں مت منائیں۔ یہ تہوار دل کی تسکین اور محبت بانٹنے کے لئے ہیں قرض اٹھا کر دکھاوے کے لئے نہیں، نہ دوسروں کو احساس کمتری میں مبتلا کرنے کے لئے، خوشی کو خوشی ہی رہنے دیں۔ اس پر جھوٹ اور دکھاوے کی گرہیں مت لگائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).