دال چاول سے دال گو-شت اور میں فوڈی تک


کراچی کے فلیٹ میں منتقل ہوئے مجھ ایک دو مہینے گزرے تھے، کہ ایک دن احسن لاکھانی کی کال آ گئی۔ پتا پوچھ کے کچھ ہی دیر میں وہ میرے پاس تھے۔ احسن لاکھانی سے کبھی میری شناسائی میرے عزیز دوست سہیل گوندل کی وساطت سے ہوئی تھی۔ اس سے پیش تر ہم ایک دوسرے کو عرصے سے جانتے تھے، لیکن احسن اور میرے بیچ میں تکلف کی ایک دیوار سی تھی۔ پیشے کے لحاظ سے احسن لاکھانی ٹیلی ویژن کمرشل ڈائریکٹر ہیں۔ وہ بات جو دوست دعوے سے کہتے ہیں، وہ اُس روز انھوں نے تکلف سے پوچھی، ’’میرا دفتر ساتھ والی گلی میں ہے، کیوں نا میں یہاں، آپ کے پاس منتقل ہو جاوں‘‘؟ مجھے کوئی اعتراض نہ تھا، یوں وہ اسی فلیٹ میں منتقل ہو گئے، جہاں میں کرائے پر تھا۔

میں نے ایک طویل مدت ’چھڑوں‘ کی طرح گزاری ہے، لیکن کپڑے دھونا، کھانا پکانا کبھی نہ سیکھ سکا۔ جن دنوں‌ گجرات، انسٹی ٹیوٹ اف سرامکس میں پڑھتا تھا، وہاں ہاسٹل میں کھانے کا انتظام نہ تھا۔ تھوڑی دور جا کے ’پاک فین‘ کی کینٹین سے کھانا کھاتا، اور پندرہ بیس دن بعد میلے کپڑے اٹھا کے گھر لے آتا۔ اب یہ ہو گیا تھا، کہ کپڑے کسی نہ کسی طرح دھو لیتا، لیکن کھانا باہر ہی سے کھاتا تھا۔ احسن لاکھانی کو اس پر اعتراض ہوا۔ باہر کے کھانوں کی خرابیاں بیان ہوئیں، تو میں نے عذر پیش کیا کہ مجھے کھانا بنانا نہیں آتا۔ احسن نے کہا، میں بنایا کروں گا۔ میں نے پوچھا، آپ کو کھانا بنانا آتا ہے؟ تو انھوں نے کہا، سیکھ لوں گا۔ یوں ہمارے فلیٹ کا کچن آباد ہو گیا۔

معمول تھا کہ شام کو دفتر سے آ کے احسن نے کچن سنبھال لینا۔ نت دن کبھی کسی کولیگ سے تو کبھی کسی ریسٹورنٹ کے شیف سے کھانا بنانے کی ترکیب حاصل کرنا۔ الغرض احسن کو جو کھانا پسند آتا، وہ بنانے والے سے اُس کی ریسیپی ضرور لیتے۔ (احسن میرے قریبی دوست ہیں، لیکن باوجود ہنسی مذاق کے انھوں نے مجھے کبھی ’تو، تم‘ سے نہیں پکارا، یہی وجہ ہے، کہ وہ میرے واحد دوست ہیں، جنھیں میں ’تو، تم‘ کَہ کے مخاطب نہیں کر پاتا۔) احسن کھانا بنا رہے ہوں، میرا جی چاہے کہ ان کی کوئی مدد کر دوں، جیسا کہ پیاز کتر دیا جائے، یا لہسن چھیل دوں، تو سختی سے روک دیا جاتا۔ اس لیے نہیں کہ انھیں میرا خیال ہوتا تھا، اس لیے کہ انھیں اندیشہ رہتا، اس طرح ذائقے میں بگاڑ پیدا ہو جانے گا۔

احسن کی خوبیوں میں سے ایک خوبی جو مجھے بہت پسند ہے، وہ ان کا کوئی بات کرتے کرتے، ’’پولے سے منہ سے‘‘ ایسا جملہ کَہ دینا کہ بے ساختہ لبوں پر مسکراہٹ آ جائے۔ انھوں نے جب جب پوچھنا، آج کیا بنایا جائے؟ تو میرا جواب ہوتا، ’دال چاول‘۔ ایک دو بار تو انھوں نے مان لیا، اُس کے بعد ’’پولے سے منہ‘‘ سے کہنا:
’’دال چاول نہیں بنیں گے، یہ ہندووں کا گھر نہیں ہے، یہ بتائیں کیا بنایا جائے‘‘؟
احسن کے اقوال میں سے ایک زریں قول یہ ہے، ’’جس کھانے میں جانور نہ ہو، وہ کھانا، کھانا نہیں‘‘۔

کسی رات میری فرمایش پر دال چاول یا سبزی، دال بنا لی جاتی، پھر دال سبزی کھا تو لیتے، مگر تھوڑی دیر بعد احسن کی شکل دیکھنے لائق ہوتی۔ انھیں رہ رہ کے خیال آتا رہتا، کہ فلاں فاسٹ فوڈ چین کی فلاں برانچ اتنے بجے کلوز ہو گی، فلاں اتنے بجے بند ہو جائے گی۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ وہ ’جانور‘ نگلنے سے رہ پائے ہوں۔ آخری لمحات میں وہ فون کال کر کے آرڈر لکھواتے۔ شب کے اس پہر ’جانور‘ کھا کے ان کے چہرے پر سکون کا سمندر ٹھاٹھیں مارتا۔

کسی روز زچ آ کے فرمایش کی جائے، کہ بہت دن ہو گئے، دال کھائے ہوئے؛ کیوں نہ آج دال بنائی جائے؟ تو جواب ہوتا:
’’ہاں ٹھیک ہے، آج دال گو-شت‘ بناتے ہیں‘‘۔
احسن نے اپنی عمر کا ایک حصہ لاہور میں گزارا ہے، وہ کبھی دال گوشت کو دال گوشت نہیں کہتے، ہمیشہ ’دال گو-شت‘ ہی کہیں گے۔ اس پر اعتراض کیا جائے، کہ یہ دُرست تلفظ نہیں ہے، تو جواب دیتے ہیں، دال گوشت کہنے سے اس کا سواد جاتا رہتا ہے۔ اس میں سواد پڑتا ہی تب ہے، جب دال گو-شت کہا جائے۔ دال گو-شت ہی نہیں، چقندر گو-شت، کریلے گو-شت، شلجم گو-شت، ساگ گو-شت، پالک گو-شت، مٹر گو-شت، آپ کسی سبزی کا نام لیں، اُس میں احسن نے گو-شت لازمی ڈالنا ہے۔

احسن لاکھانی نے ان دنوں ہمیں کیا کیا کھانے بنا کے کھلائے، جو میں نے پہلے کبھی کہیں سے نہیں کھائے تھے۔ جب کبھی وہ نئی ریسیپی لاتے، تو سرشاری سے کہتے، آج میں آپ کو یہ ڈِش بنا کے کھلاوں گا۔ ’کھلاوں گا‘ سے کوئی غلط فہمی نہ پیدا ہو، اس لیے بتاتا چلوں، احسن کی عادت رہی ہے، وہ کھانا بنا کے آواز دیتے:
’’کھانا تیار ہے، لے لیجیے‘‘۔
اسی روانی میں پولے سے منہ سے کہنا:
’’میں آپ کی امی نہیں ہوں، جو آپ کو پلیٹ میں نکال کے دوں‘‘۔
میمنی ڈش ہو، یا بنگالی؛ پنجابی کھانا ہو، یا سندھی؛ افغانی یا تھائی، انھوں نے کون کون سے تجربہ نہیں کیا اور ہم نے کیا کیا چٹخارے نہ لیے۔ وہ اتنا لذیذ بناتے، کہ دوستوں نے مشورہ دینا شروع کر دیا، کہ آپ ٹیلی ویژن کمرشل بنانے کے بہ جائے، شیف بن جائیں، اس سے کہیں زیادہ کما لیں گے، جو کماتے ہیں۔ پھر ہم مختلف شیف کے نام لے کے ان کی آمدن کا ذکر کیا کرتے۔

ایک دو بار میں نے احسن سے کہا، مجھے فلاں ڈِش کی ریسیپی لکھ دیں، میں گھر جا کے بچوں کو بنا کے دوں گا۔ یقین کیجیے ویسا جواب دیا، جیسا وہ ’خانصاحب‘ دیں، جو اپنے گھرانے کا فن گھر سے باہر نہ نکلنے دے۔
’’آپ بچوں کو لے آئیے گا، میں انھیں بنا کے کھلا دوں گا‘‘۔
میں کہتا، میرے بچوں کو ان کی امی کھانا پلیٹ میں نکال کے دیتی ہیں، تو جواب ہوتا:
’’بنا دوں گا، لیکن کھانا پلیٹ میں نکال کے دینا، یہ کام مجھ سے نہ ہو گا، میں اُن کی امی نہیں ہوں‘‘۔
ایک روز میں نے احسن کو خبر دی، کہ اس بار میں گھر گیا تھا، تو یو ٹیوب چینل سے دیکھ کے، بچوں کو فلاں ڈش بنا کے دی تھی۔ وہ مان کے نہ دیے۔ انھوں نے پولے سے منہ سے کہا:
’’بھائی، ایسا نہ کریں۔ بچوں کی صحت کا خیال رکھا کریں تجربہ اپنی اولاد پر نہیں کرتے‘‘۔
میں نے کہا، بہت اچھا بنا تھا، سب تعریف کر رہے تھے، یقین نہیں تو آپ کو بنا کے کھلاتا ہوں۔
’’نہیں بھائی، مجھے ابھی بہت جینا ہے، میں یہ رِسک نہیں لے سکتا‘‘۔
سچی بات یہ ہے کہ میں نے احسن کی لگن دیکھ کے، خود کھانا بنانا سیکھا تھا۔ اب تو مجھے مہارت ہو گئی ہے۔ وقتہََ فوقتہََ بچے فرمایش کر دیتے ہیں، انھیں اُن کی من پسند ڈِش بنا کے دی جائے، تو بناتا ہوں۔

میں دو برس سے پنڈی میں ہوں، تو احسن کے ہاتھ کا کھانا نصیب نہیں ہوا۔ ہر بار فون کال پر کہتا ہوں، دال  چاول بنا رکھیے گا، میں کراچی آ رہا ہوں۔ پھر کوئی نہ کوئی اڑچن ہو جاتی ہے، کہ نہیں جا پاتا۔ گزشتہ روز یو ٹیوب پر مٹر گشتی کرتے یونھی ایک چینل mein foodie پر دھیان گیا۔ احسن لاکھانی دکھائی دیے۔ جی ہاں! وہی احسن لاکھانی جن کا ذکر ہو رہا ہے۔ وہ ہمارے کہے پر پروفیشنل شیف تو نہ بنے، لیکن ’ڈائریکشن‘ اور ’شیف‘ دونوں خوبیوں کو لے کر کے یو ٹیوب چینل mein foodie بنا لیا ہے۔ mein foodie میں کیا ہے، کہ احسن دُنیا بھر میں گھومتے پھر رہے ہیں، اور جگہ جگہ کے کھانوں کا تعارف کرواتے ہیں۔ ایسے میں ’’پولے سے منہ‘‘ کوئی جملہ کَہ جاتے ہیں، کِہ لبوں پر بے ساختہ مسکراہٹ آ جائے۔  آپ میرے دوست احسن لاکھانی سے ملنا چاہیں، تو اس لنک پر ہٹ کر کے  جا ملیے۔

https://www.youtube.com/results?search_query=mein+foodie

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran