مبارک ہو مسلمانو۔ مبارک ہو


تادم تحریر مولانا فضل الرحمن کا آزادی مارچ ابھی تک پشاور موڑ اسلام آباد نہیں پہنچا۔ ابھی تک قافلہ منزل کی طرف رواں ہے۔ کنفیوژن اس قافلے کے ساتھ ساتھ سفر کر رہا ہے۔ ابھی تک اپوزیشن کی جماعتوں کا جلسے/ دھرنے کی تاریخ پر اتفاق نہیں ہو سکا۔ پیپلز پارٹی اور اے این پی اکتیس اکتوبر کو جلسہ کرنے کو بضد ہیں جبکہ مولانا جمعے کی نماز کے بعد جلسے پر اصرار کر رہے ہیں۔ جلسے کی ہیئت پر بھی بحث جاری ہے۔ کچھ مولانا کے عزائم دھرنے کے بتاتے ہیں اور کچھ جلسے کے بعد عوام کے منتشر ہونے کی نوید سناتے ہیں۔ مولانا نے اس مارچ کا آغاز کراچی سے کیا اور سکھر، ملتان میں بڑے اجتماعات سے خطاب کرتے ہوئے لاہور پہنچے جہاں ن لیگ کے کارکنوں کو نواز شریف اور مریم نواز کی قیادت کی کمی بہت شدت سے محسوس ہوئی۔ اب یکم نومبر کو ایک مشترکہ جلسے کی خبر ابھی سنائی دی جا رہی ہے لیکن یہ جلسہ احتجاج یا دھرنا کیا شکل اختیار کرتا ہے ، کس کس کا استعفی مانگتا ہے، کس کس سے صلح کرتا ہے، کس کس سے جنگ مول لیتا ہے، کہاں مفاہمت سے کام لیتا ہے اور کہاں رقابت دکھاتا ہے یہ کہنا ابھی ممکن نہیں ہے۔ فی الوقت اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ مولانا کے ساتھ لوگوں کی ایک بڑی تعاد موجود ہے اور اس تعداد میں اپوزیشن کی جماعتوں نے کچھ نہ کچھ حصہ ڈالا ہے۔

اس طرح کےجلسے / دھرنے میں لوگوں کی تعداد کا درست اندازہ لگانا کبھی ممکن نہیں ہوتا۔ لیکن اس جلسے / دھرنے کا براہ راست تقابل عمران خان اور ان کے سیاسی کزن طاہر القادری کے معروف دھرنے سے ہورہا ہے۔ مولانا نے بھی اچھے خاصے لوگ جمع کر لیئے ہیں لیکن سچ بات تو یہ اس کئی دن کی جہد مسلسل کے بعد بھی وہ مزا نہیں آیا جو عمران خان اور طاہر القادری کے دھرنے کا تھا۔ ہائے ہائے کیا دھرنا تھا۔ لمحہ لمحہ کی خبر عوام تک براہ راست پہنچتی تھی۔ تمام چینلز کی ڈی ایس این جیز ہاتھ باندھے سرنگوں کوریج کے لئے تیار نظر آتی تھیں۔ رپورٹر درختوں پر چڑھ کر رپورٹنگ کیا کرتے تھے۔ شرکاء کے ناشتے پر دستاویزی رپورٹس گھنٹوں چلا کرتی تھیں۔ خواتین کے کپڑے دھونے کی کارروائی پر ٹاک شوز میں طویل بحثیں ہوا کرتی تھی۔ چھوٹے چھوٹے بچوں کے گائے ترانے بریکنگ نیوز بن جاتے تھے۔ اس دھرنے میں موجود خوانچہ فروشوں کی جہد مسلسل پر معروف تجزیہ کار تبصرے کیا کرتے تھے۔ رقص کرتی خواتین کی کوریج کرنے کے لیئے انٹرٹینمنٹ کی دنیا کے پروڈیوسر چینلز میں ملازمت پر رکھے گئے تھے۔ فیس پینٹنگ کی تصاویر اخبارات میں شائع کی جاتی تھیں۔ ڈی جے بٹ اس قوم کا ہیرو بن چکا تھا جس قوم میں ملکہ ترنم نور جہاں ، شہنشاہ غزل مہدی حسن اور نصرت فتح علی خان جیسا گائیک پیدا ہوئے تھے۔ شام کو مجمع شباب پر آتا تھا۔ کنٹینر کے پیچھے سلیفی گروپ سرگرم نظر آتا تھا۔ کئی خواتین خان صاحب سے رشتہ ازداوج میں منسلک ہونے کی خواہش کا اظہار دیدہ دلیری سے کرتی تھیں۔ اتنے چینلز کی ڈی ایس این جیز کے باوجود کسی میں حاضرین کی تعداد دکھانے کی جرات نہیں ہوتی تھی۔ ٹی وی کے کیمروں کو کنٹینر کی سواریوں سے فرصت ہی نہیں ملتی تھی۔

ادھر ٹی وی پر جو اینکر انقلاب قادری کی نئی خبر لاتا تھا وہی ریٹنگ پاتا تھا۔ چوبیس گھنٹے لائیو کوریج کے درمیان جو موقع بچتا تھا وہاں ناظرین کو جغادری تجزیہ کاروں کے حوالے کر دیا جاتا تھا۔ کوئی اسے انقلاب فرانس سے موسوم کرتا ، کوئی زار روس کے خلاف ہونے والی بغاوت کے مساوی قرار دیتا ، کوئی کرپٹ مافیا کے خلاف برصغیر پاک و ہند میں ہونے والی سب سے بڑی جنگ قرار دیتا اور کوئی پاکستان کی تاریخ میں ایک سنہری تبدیلی سے تعبیر کرتا۔ کوئی اسے امت اسلامیہ کی ہیئت ترکیبی میں نئی ترتیب بتاتا اور کوئی اسے ملت کے لیئے نئی راہ نوید بتاتا۔ ناظرین اس سارے کھیل میں چوبیس گھنٹے ٹی وی سکرینوں پر نظر یں جمائے متوقع انقلاب کی تلاش کرتے۔ اس وقت گھروں میں سیاسی بحثیں ہورہی تھیں اور گلی کے نکروں پر پاکستانی سیاست اور اس کے مستقبل کے فیصلے سنائے جا رہے تھے۔

آپس کی بات ہے اس دھرنے کی جان علامہ طاہر القادری ہوا کرتے تھے۔ جب وہ اپنے حلق کی آخری رگ کی قوت کو بروئے کار لا کر چنگھاڑتے تھے تو جلسہ گاہ جھوم اٹھتی تھی۔ جب وہ حالات کو قرب قیامت سے تشبیہ دیتے تھے تو لوگ خوف سے کانپ جاتے تھے۔ جب وہ فتح مبین کی خبر سناتے تھے تو لوگوں کے دل جوش سے بھر جاتے تھے۔ جب وہ اپنا کفن بقلم خود زیب تن کرتے تھے تو لوگ انکی شجاعت پر عش عش کرتے تھے۔ جب وہ اپنے سینے پر گولی کھانے کی برملا فرمائش کرتے تھے تو حاضرین مارے رقت کے گریہ کناں ہو جاتے تھے۔ جب وہ اپنے منحنی وجود کے ساتھ ہانپتے کانپتے “مبارک ہو مسلمانو۔ مبارک ہو” کا نعرہ لگاتے تھے تو لوگ جان جاتے تھے کہ کپتان نے ایک اور وکٹ گرا لی ہے، ایک اور استعفی خان کی جھولی میں آن گرا ہے۔ ایک اور پولیس والاعلامہ کے پرامن انقلاب کے زیر دام آ گیا ہے یا پھر فتح مبین کی جانب قافلہ ایک اور قدم آگے بڑھا ہے۔

یقین مانیئے مولانا فضل الرحمن کے اس آذادی مارچ میں علامہ طاہر القادری اور ڈے جے بٹ کی یاد بہت ستا رہی ہے۔ نہ ہی میڈیا اس میں کوئی دلچسپی لے رہا ہے، نہ لمحہ بہ لمحہ رپورٹنگ ہو رہی ہے ، نہ مولانا فضل الرحمن میں علامہ طاہر القادری والی شعبدہ بازیاں ہیں نہ اپنی قبریں کھودنے کے کوئی آثار نظر آ رہے ہیں۔ نہ در انصاف پر کپڑے سوکھنے لٹکائے گئے ہیں نہ ابھی تک کفن پہننے کا اہتمام ہوا ہے۔ نہ فیس کو پینٹ کیے ہوئے بچے اس دھرنے میں موجود ہیں نہ کنٹینر ابھی تک ریڈ زون تک رسائی پا سکا ہے۔ نہ رقصاں خواتین کے جھنڈ ابھی تک کسی کو نظر آئے ہیں نہ کنٹینر سے کسی نے اپنی شادی کی قوم کو نوید سنائی ہے، نہ پرامن حاضرین کو ابھی تک سرکاری عمارات پر چڑھائی کا عندیہ ملا ہے نہ ایمپائر کی انگشت شہادت کا ابھی تک کوئی ذکر ہوا ہے۔ قصہ مختصر یہ دھرنا دو ہزار چودہ کے دھرنے کے مقابلے میں ابھی تک کافی بورنگ ہے۔ وہ رنگ ڈھنگ، وہ لہجہ وہ آہنگ وہ جذبہ اور جنون ابھی تک اس مذکورہ جلسے/ دھرنے سے مفققود ہے۔ اسی وجہ سے نہ ٹی وی کے ٹاک شوز میں وہ سرگرمی نظرآ رہی نہ نہ بریکنگ نیوز میں وہ شدت پائی جا رہی ہے۔ نہ ترانوں میں وہ ترنم ہے نہ موسیقی میں وہ زیرو بم ہے۔ نہ لہجوں میں وہ بغاوت ہے نہ تقاریر میں وہ عداوت ہے۔

ان خامیوں کے باوجود اس جلسے یا دھرنے میں اب عوام کی دو دلچسپییاں ہیں ایک تو عوام اس دھرنے میں دیکھ رہے ہے کہ کون سی پارٹی جمہوریت کے سبق پر قائم ہے، کون چور دروازے کی جانب دیکھ رہا ہے، کون ووٹ کو عزت دینے کی بات کرتا ہے اور کون اپنے ووٹرز سے دغا کرتا ہے

دوسرا دلچسپی کا امر یہ ہے کہ فدائین کے اس اجتماع سے خطاب کرتےہوئے کس لمحے مولانا فضل الرحمن فتح مبین کا نعرہ لگاتے ہوئے کہتے ہیں “مبارک ہو مسلمانو۔ مبارک ہو” اور دیکھنا یہ ہے کہ اس مبارک ساعت میں کس کس کا استعفی مولانا کے ہاتھ آتا ہے، کس کس کی وکٹ گرتی ہے اور کون کون آزادی مارچ کا شہید کہلاتا ہے ؟

عمار مسعود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عمار مسعود

عمار مسعود ۔ میڈیا کنسلٹنٹ ۔الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ہر شعبے سےتعلق ۔ پہلے افسانہ لکھا اور پھر کالم کی طرف ا گئے۔ مزاح ایسا سرشت میں ہے کہ اپنی تحریر کو خود ہی سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ مختلف ٹی وی چینلز پر میزبانی بھی کر چکے ہیں۔ کبھی کبھار ملنے پر دلچسپ آدمی ہیں۔

ammar has 265 posts and counting.See all posts by ammar