مولانا آپ کی دستار سلامت، ہمیں بھی جینے کا حق دیجئے


مولانا صاحب آپ کی دستار سلامت رہے لیکن ہمیں بھی اپنی مرضی سے جینے کا حق دیجئے۔

مولانا صاحب کیا کبھی ہم نے آپ سے فرمائش کی کہ آپ شلوار قمیض کی بجائے پتلون اور شرٹ پہنا کریں؟

مولانا آپ نے داڑھی کیوں رکھ لی آپ تو کلین شیو میں اچھے لگیں گے۔

مولانا صاحب آپ پر مونچھیں بہت غضب کی لگیں گی۔

مولانا صاحب آپ دستار باندھنا بند کر دیں آپ پر ذرا نہیں جچتی۔

مولانا صاحب آپکی دستار کا رنگ ایسا کیوں

مولانا صاحب آپ ٹی وی پر کیوں آتے ہیں ٹی وی تو حرام ہے۔

مولانا صاحب آپ نا محرم خواتین کو انٹرویو کیوں دیتے ہیں یہ شرعی طور پر جائز نہیں۔

مولانا صاحب آپ نے ان سب متروکات کو اپنی سہولت اور شہرت کے لئے جائز اور شرعی قرار دے دیا اور عورت کے دوپٹہ نہ لینے کو حرام ناجائز اور ممنوعہ بلکہ عورت تو آپ کی جماعت کے لئے ہی شجر ممنوعہ قرار پائی۔ وہ تو آپ کی جماعت کا پرچم اٹھا کر جلسے میں اپنا احتجاج کا حق استعمال نہیں کرسکتی۔

 مولانا صاحب یہ ٹھیک بات نہیں اس پر اس ملک کی کل آبادی کا پچاس فیصد عورتیں آپ سے ناراض ہو سکتی ہیں۔ لیکن ٹھہرئے آپ کو ان کی ناراضگی سے کیا۔ آپ تو انھیں اس لائق بھی نہیں سمجھتے کہ وہ آپکے جلسے میں مردوں کے شانہ بشانہ آپ کی تقریر پر تالیاں بجا سکیں۔

لیکن بھائیو اور بہنو ہمیں مولانا کی ایسی چیزوں سے کچھ سروکار نہیں۔ ہمیں مولانا کے لباس ان کی چال ڈھال یا رہن سہن سے کچھ لینا دینا نہیں ۔  وہ دستار پہنیں یا ہاتھ میں عصا پکڑیں۔ وہ قومی لباس پر واسکٹ زیب تن کریں یا کوٹ ہماری بلاء سے۔ ہمیں سروکار ہے ان کے خیالات سے۔ ہم جاننا چاہتے ہیں کہ وہ جمہوریت کی روح کو کس حد تک سمجھتے ہیں۔ کیونکہ انھوں نے خواتین پر اپنے جلسے میں پابندی لگا کر ثابت کر دیا کہ ان کو جمہوریت کی روح ہی نہیں معنی بھی جاننے کی ضرورت ہے۔۔

جے یو آئی ف کی جانب سے پہلے خواتین اینکرز پر دھرنا کوریج کی پابندی لگائی گئی۔ اس کے بعد کچھ صحافیوں کی درخواست پر مولانا نے فی میل اینکرز کو جلسے میں آنے کی دعوت دے تو دی۔  لیکن جو لڑکیاں روزمرہ زندگی اور دوران کوریج دوپٹہ نہیں اوڑھتیں، انھوں نے بھی سروں کو ڈھانپ کر جلسے کی کوریج کی۔ جلسے میں سر ڈھانپنے کو سکارف بھی بانٹے گئے۔ اور میڈیا کی خواتین کے سوا پورے دھرنے میں کوئی ایک بھی خاتون نہ دکھائی دی۔ گویا ہزاروں لاکھوں کے مجمع میں ملک بھر سے ایک بھی خاتون اس لائق نہ سمجھی گئی کہ اس کو بھی جلسے یا دھرنے میں جمعیت علمائے اسلام ف کی فولوور ہونے کے ناتے حصہ لینے کا موقع دیا جاتا۔

یہ کیا ہے؟

 اگر کوئی جماعت عورت کو اتنا حقیر سمجھے کہ نہ جلسے میں شریک ہونے دے نہ کوریج کی اجازت دے، تو اس جماعت کی منت سماجت کرنے کی بجائے ایسی جماعت کا بائیکاٹ کرنا چاہئے۔

لباس کا انتخاب ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ اگر کوئی خاتون برقع پہننا چاہے تو اس کو پوری آزادی حاصل ہے کہ وہ برقع پہنے۔ چادر یا دوپٹہ اوڑھنے پر بھی کوئی پابندی نہیں۔ پھر مولانا کے جلسے میں دوپٹہ نہ لینے پر اعتراض کیوں۔ مولانا کے جلسے میں مجبوراً دباو میں آ کر اگر ہم نے دوپٹہ سر پر رکھ کر کمپئیرنگ کی تو کیا ہم آئندہ بھی ایسا ہی کریں گے کیا ہم ٹی وی پر بھی اسی طرح نظر آئیں گے؟ اگر اس کا جواب نفی میں ہے تو پھر ایک صحافی کسی کے دباو میں آکر ایسا کام کیسے کر سکتا ہے۔ کیا ہم  دباو میں آکر  کسی کی کوئی بھی بات مان لیں۔ اگر مولانا اپوزیشن کے ساتھ مل کر حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائیں یا وزیراعظم بن جائیں اور ملک میں خواتین مخالف قانون نافذ کر دیں تو تب بھی ہم ان کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کر دیں گے؟ آخر کوئی کیوں کسی جماعت کے دباؤ میں آ کر ایسی بات تسلیم کر لے جو اس کی آئینی آزادی اور بنیادی حقوق سے متصادم ہو۔

اور اگر اپنا کام اپنا فریضہ اپنی ڈیوٹی انجام دینے کے لئے ایسا کیا گیا ہے تو پھر ایسے کام سے کیا حاصل جو اپنے اصولوں کے بر خلاف ایک عورت مخالف بیانئے کا حصہ بن جائے۔۔

مولانا صاحب آپ سے گزارش ہے کہ آپ کے نوجوانوں کے ہاتھوں میں ڈنڈے، ایک دوپٹہ نہ لینے والی لڑکی سے زیادہ مہلک ہیں۔ آپ نے اپنے جلسے میں خواتین کو کوریج کے لئے آنے کے منظوری صرف اس لئے دے دی کہ آپ کو ڈر تھا کہ اگر ایسا نہ کیا تو شائد بھرپور طریقے سے کوریج نہ ہو پائے جس سے جلسے کو نقصان ہوگا۔ اور اس بات کو لے کر آپ پر انگلیاں اٹھیں گی۔

ایک مہذب معاشرے میں عورت اور مرد کا لباس شائستہ ہونا ضروری ہے لیکن اس شائستگی کا تعلق دوپٹے چادر برقعے دستار یا گٹے سے اوپر شلوار سے نہیں ہے۔ لباس چادر یا دوپٹے کے ساتھ بھی شائستہ اور مہذب ہو سکتا ہے اور ان کے بغیر بھی۔ تہذیب اور شائستگی کا سر ڈھاپنے اور نہ ڈھانپنے کوئی تعلق نہیں ہے۔  پاکستان میں میڈیا میں کام کرنے والی خواتین پر پہلے بھی کئی بار چادر اور دوپٹے اور سر ڈھانپنے کو لے کر بحث چھیڑی گئی۔ ضیا دور میں خواتین میزبانوں اور نیوز کاسٹرز پر دوپٹہ لینے کی پابندی عائد کی گئی۔ اور سر ڈھانپانا لازمی قرار دیا گیا۔ یہ وہ دور تھا جب مذہب کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا گیا۔ اس دور استبداد میں کچھ با ہمت خواتین نے اس حکم کو ماننے سے انکار کر دیا۔

شدت پسندوں کی جانب سے صحافیوں کو جہاں اور طریقوں سے تھریٹ کیا جاتا رہا وہیں صحافی خواتین کے پردہ نہ کرنے کے حوالے بھی تھریٹ جاری کئے گئے۔ 2012 میں وزارت اطلاعات و نشریات کی اسٹینڈگ کمیٹی کی طرف سے دوپٹہ نہ لینے والی خواتین کو لاحق خطرات پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔

اس سے سوا مولانا صاحب کیا یہ نہیں جانتے کہ ملک کا پچاس فیصد خواتین پر مشتمل ہے اگر آپ ان کو اپنے احتجاج میں شامل ہونے کی اجازت نہیں دیتے تو آپ کو ان خواتین سے ووٹ لینے کا بھی کوئی حق نہیں۔

یونیورسٹیز میں مردوں اور خواتین کو الگ الگ خانوں میں بانٹنے کی پھلجھڑیاں بھی ہمارے ملک کے ہر صوبے میں چھوٹتی رہتی ہیں۔ یقین جانئیے اس طریقے سے آپ فحاشی یا عورت کے خلاف ہونے والے جرائم نہیں روک سکتے ۔ اس کے لئے آپ کو اپنے بچوں کی بلکہ نسلوں کی تربیت کرنا ہو گی۔ اب جبکہ مولانا روشن خیال جماعتوں کو اپنی چھتری تلے لے چکے ہیں تو امید واثق ہے کہ وہ رجعت پسندی کے گھٹا ٹوپ اندھیرے سے نکل کو کچھ روشن خیالی مستعار ضرور لیں گے۔

عالیہ شاہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عالیہ شاہ

On Twitter Aliya Shah Can be Contacted at @AaliyaShah1

alia-shah has 45 posts and counting.See all posts by alia-shah