گرو ارجن، ماٹی چینل اور کہروڑ پکا کا چاول پر نام لکھنے والا


شہیدی استھان کے اندر داخل ہونے کے لیے چرن دھون کی رسم ضروری تھا سو وہیں لگے ایک نل کے ذریعے ہم نے پاٶں دھوٸے۔ تب گاٸیڈ حنین نے کہا اب آپ شہیدی استھان کے اندر داخل ہونے کے اہل ہیں۔ تب سردار کنور سنگھ نے ہمیں رمالہ اور سروپا سے نوازا۔ رمالہ ایک لال رنگ کا رومال تھا جو سر پر باندھنا تھا اور سروپا ایک چادر تھی جو استھان کے اندر جانے والوں کو محبت کے طور پر دی جاتی ہے۔ یہ شہیدی استھان سکھوں کے پانچویں گرو ارجن کا ہے اور مہاراجہ رنجیت سنگھ کی مڑھی کی چاردیواری کے اندر واقع ہے۔ استھان کی شمالی دیوار میں ایک سنگِ مر مر کی درشنی ڈیوڑھی ہے جو دربار امرتسر کے بالکل سامنے ہے۔ اسی مڑھی کے اندر ہی سردار کھڑک سنگھ اور سردار کنور سنگھ کی سمادھیاں بھی موجود ہیں۔ جس جگہ پر پانچویں گرو کا استھان ہے اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ راوی اس وقت یہیں بہتا تھا اور جہاں استھان موجود ہے یہاں دریاٸے راوی سب سے زیادہ گہرا تھا۔ یہیں پہ گرو ارجن انوپ ہوٸے۔ اب ہم چونکے ہمارے استفسار پر حنین نے بتایا یعنی لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہو گٸے۔
کہا جاتا ہے سکھوں کے دو گرو سب سے زیادہ اہمیت کے حامل ہیں ایک گرو ارجن اور دوسرا گرو گرنتھ۔ پانچویں اور آخری گروہ کا تعلق بھی اٹوٹ ہے کہ گرنتھ صاحب اسی گرو ارجن نے ترتیب دینا شروع کیا تھا۔ گرو ارجن کی موت یا انوپ سکھوں کے مذہب میں بنیادی تبدیلیوں کا پیش خیمہ بنی۔ گاٸیڈ نے بتایا کہ گرو کو سزا کے طور پر گرم پانی کے کڑاہے میں ڈالا گیا پھر گرم تیل کے کڑاہے میں پھینکا گیا اور آخر میں دہکتے توے پر لٹایا گیا جس کی وجہ سے ان کا جسم چھالوں سے بھر گیا۔ اُس زمانے میں جس بیمار یا جس آدمی کے جسم پر چھالے بن جاتےتھے اسے کسی جانور کی کھال اتار کر بیمار کو اس کھال میں بند کر دیتے تھے شاید جس کی حدت کی وجہ سے وہ چھالے ختم ہو جاتے تھے یہی بات جب گرو ارجن سے کہی گٸی تو انہوں نے کسی جانور کو نقصان پہنچانا گوارا نہ کیا۔ جس کی وجہ سے اب تک سکھ کسی جانور کا گوشت نہیں کھاتے بلکہ انڈہ بھی نہیں کھاتے۔
سارا استھان سنگِ مرمر کا بنا ہوا ہے جو درشنی ڈیوڑھی کا پتھر ہے وہ ایران سے منگوایا گیا تھا اور استھان کے فرش کا پتھر نسبت روڈ لاہور کی مسز لکھنیت کا تحفہ ہے جو 1936 میں لگایا گیا۔
ہم رنجیت سنگھ کی مڑھی کے داخلی دروازے کی سیڑھیوں پر بیٹھ گٸے۔ دروازے کے اوپر رام کرشنا، گنیش جی اور مہا دیو شو کی مورتیاں بنی تھیں اور ہماری داٸیں سمت ایک مہیب اور بلند و بالا دروازہ تھا جو روشناٸی دروازے کے نام سے موسوم ہے۔ یہ ایک ہیبت ناک دروازہ تھا جو ثقافت کا مظہر کم اور جنگ و جدل کی نشانی زیادہ معلوم ہوتا تھا کہ شمال سے آنے والے لشکروں سے محفوظ رکھنے کے لیے اس کی اہمیت اور زیادہ تھی اور دوٸم اس دروازے پر چراغوں یا دوسرے ذریعوں سے روشناٸی کا انتظام کیا جاتا تھا۔ اور جہاں ہم سیڑھیوں پر بیٹھے اس کے سامنے زاٸرین کے لیے رہاٸش کے کمرے تھے۔ اور داٸیں طرف گرو ارجن سنگھ کے نام کا لنگر جاری تھا۔ زمین پر دریاں بچھی تھیں اور تازہ چاول اور تازہ دال سے سیوا کی جارہی تھی ۔
دوپہر کا وقت تھا یعنی دوپہر کے کھانے کاوقت۔ میں نے گاٸیڈ سے اور شہباز سے آنکھوں آنکھوں میں پوچھا کہ پیٹ تو سب کا ایک جیسا ہوتا ہے اور بھوک بھی ایک جیسی ہوتی ہے خواہ اس کا تعلق کسی مذہب سے ہو تو یہاں صرف سکھ حضرات ہی کھا سکتے ہیں تو عام وزٹر پیٹ کی آگ کیوں نہیں بجھا سکتا ۔ اس کا جواب نہ اس کے پاس تھا اور نہ ہمارے پاس سو بڑا سا صبر گھونٹ بھرا اور گاٸیڈ سے کہا یہ گھونٹ میں بھی بھر سکتا ہوں تم بھی بھر سکتے ہو اور لنگر کھانے والا سکھ بھی بھر سکتا ہے اس تعلق سے تو ہم تینوں ایک ہوٸے۔ وہ میری بات سمجھ کر بھی انجان سا بن گیا۔
ہم رنجیت سنگھ کی مڑھی کے اندر داخل ہوٸے تو ہمیں ایک بند روشن دان دکھایا گیا اور بتایا گیا یہ لیٹر بکس ہے کہ جو خطوط، اطلاعات یا شکایات اس تک پہنچانی مطلوب ہوتی تھیں باہر سے اسی لیٹر بکس کے ذریعے اس تک پہنچاٸی جاتی تھیں۔ شہیدی استھان مڑھی کے بعد حنین نے ہمیں اوپر آسمان کی سمت آنکھیں اٹھانے کو کہا تو دیکھا کھڑک سنگھ کی سمادھی والی عمارت سے بھی اونچا ایک جھنڈا لہرا رہا تھا یہ نشان صاحب تھا۔ نشان صاحب یوں تو ایک اونچا جھنڈا تھا مگر اس کی اونچاٸی میں یہ حکمت پوشیدہ تھی کہ نشان صاحب چونکہ لنگر کی علامت ہے لہذا لوگوں کو دور ہی سے نظر آ جاٸے کہ یہاں طعام اور قیام کا مفت انتظام ہے۔ کھڑک سنگھ کی سمادھی سے متصل ایک اور عمارت جو رنجیت سنگھ کی سمادھی ہے جو بند ہے مگر دیکھنے کے لیے کھول دی جاتی ہے مگر اس کی کنجی گیانی صاحب کے پاس تھی اور اس دن گیانی صاحب ننکانہ صاحب گٸے تھے لہذا وہ جگہ ہم نہ دیکھ سکے۔ ہمیں بتایا گیا کہ سکھوں کی ہر گوردوارے کے چار دروازے ہوتے ہیں جو دنیا کے چار مذاہب کی علامت ہیں۔ سکھوں کا کہنا ہے مسلمان بادشاہ ہندو عورتوں سے شادی ان کے حسن کی وجہ سے بھی کرتے تھے گاٸیڈ نے بتایا اور سکھوں کا کہنا ہے مسلمان خاوند اور ہندو بیوی سے کسی نٸی شکل نے ہی جنم لینا تھا وہ شکل سکھ مت کی صورت میں ظہور پذیرائی ہوٸی۔
کھڑک سنگھ کی سمادھی کی سیڑھیوں پر بیٹھے تو ایک لڑکی بھی وہاں آ کر بیٹھ گٸی چند ثانیوں کے بعد اس کا ایک دوست ہاتھ میں ایک جدید کیمرہ تھامے آ گیا۔ ہمارے پوچھنے پر لڑکی نے بتایا کہ وہ سدرہ ہے اور لڑکے نے اپنا نام موحد بتایا۔ وہ دونوں ایک یو ٹیوب چینل ماٹی کی طرف سے یہاں پروگرام کرنے آٸے تھے مگر ان کی ڈاکومینٹری میں گیانی صاحب کی گفتگو تو ضروری تھی اور وہ تو ننکانہ صاحب گٸے ہوٸے تھے لہذا سدرہ اور موحد تھوڑے سے مایوس ہو رہے تھے۔ یہ چینل اسی مٹی اور دھرتی کے متعلق پروگرام کرتا ہے۔ اس سے پہلے وہ کہیں سندھ میں ڈاکومینٹری بنا کر آٸے تھے۔
گوردوارہ شہیدی استھان اور درشنی دیوڑھی کے باہر ایک اور دنیا آباد تھی۔ جہاں خوانچہ فروش بھی تھے کھلونے بیچنے والے بھی تھے اور وہیں بیٹھا بانسریاں بیچنے والا بانسری نواز بھی تھا جو بانسری پر میرے رشک قمر گا رہا تھا یوں تو ہم وہاں موجود تھے مگر بانسری کی دھن نے ہمیں کہیں گم کر دیا تھا۔ کہاں گم کیا تھا شہیدی استھان میں، لنگر خانہ میں یا کہیں اپنے اندر ہی اندر۔ وہیں اس مڑھی اور استھان سے بے نیاز ایک لڑکا رضوان بھی تھا جو ٹبی وڈا کہروڑ پکا کا رہنے والا تھا اور گاہکوں کے نام چاول پر لکھتا تھا۔ اس کے پاس مختلف رنگوں کے کی چین تھے گاہک کا نام چاول پر لکھ کر کی چین گاہک کے حوالے کر دیتا تھا۔ شہیدی استھان کے بالکل سامنے عین سیدھ میں امرتسر کا گولڈن ٹمپل واقع ہے اور چاول پر نام لکھنے والے کی آنکھوں سے اوجھل کہروڑ پکا کا قصبہ ہے۔ جتنا فاصلہ درشنی ڈیوڑھی سے امرتسر کا ہے اس سے ہزار گنا زیادہ فاصلہ لاہور سے کہروڑ پکا ہے ۔ ہمارے واسطے نہیں چاول پر نام لکھنے والے اور سو پچاس روپے کی خاطر چاول پر لکھا نام بیچنے والے رضوان کے واسطے!!

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).