ضرورت ہے اٹھارہ فلسفیوں کی – مکمل کالم


ایڈورڈ گبن ایک تاریخ دان تھا، رومن سلطنت کے عروج و زوال پر اُس نے ایک شاہکار کتاب لکھی، اِس کتاب کو بلاشبہ انگریزی میں تاریخ پر لکھی گئی سب سے مستند اور جاندار کتاب سمجھا جاتا ہے، گبن برطانوی پارلیمان کا رکن بھی تھا، یہ 1737سے 1794تک زندہ رہا۔ ڈیویڈ ہیوم کا زمانہ بھی اِس کے آس پاس کا ہے، یہ 1711میں پیدا ہوا اور 1776میں وفات پائی، اپنے کیرئیر کے آغاز میں ہی اسے نروس بریک ڈاؤن ہو گیا تھا مگر بعد میں یہ سنبھل گیا اور تاریخ انگلستان لکھ کر شہرت حاصل کی، تاہم اس کا بہترین کام تین جلدوں پر مشتمل مقالہ ہے جو اس نے انسانی فطرت پر لکھا، یہ اور بات ہے کہ اِس مقالے کو ہیوم کی زندگی میں کوئی خاص پذیرائی نہ مل سکی، ایڈنبرا شہر کے بیچوں بیچ اِس کا مجسمہ نصب ہے۔

ایمانول کانٹ سے تو ہم لوگ واقف ہی ہیں، چائے کی ہر چُسکی کے ساتھ اِس فلسفی کے حوالے دیتے ہیں یہ سوچے بغیر کہ اِس کا فلسفہ خاصا دقیق تھاجس کا اندازہ عالی جناب کی مشہور زمانہ تصنیف ”عقل محض کا محاسبہ“سے لگایا جا سکتا ہے، کانٹ نے اِس میں کہا تھا کہ انسان خدا اور کائنات کے بارے میں جاننا چاہتا تھا، اِن سوالات کا تعلق ما بعد الطبیعات سے ہے جبکہ انسان کے پاس فقط طبعی قوانین کا علم ہے لہذا عقل محض سے ما بعد الطبیعات تک رسائی ممکن نہیں۔ یہ بات موصوف نے کافی پیچیدہ انداز میں بیان کی ہے۔

جان لاک بھی ایک ہمہ جہت صلاحیتوں کا حامل شخص تھا، آکسفورڈ کا فارغ التحصیل تھا، طب کی تعلیم حاصل کی اور بعد ازاں فلسفے پر ایسا مقالہ لکھ مارا جس نے ڈیکارٹ اور دوسرے دانشوروں کے چھکے چھڑا دیے، لاک کو برطانیہ سے فرار بھی ہونا پڑا کیونکہ اس پر الزام تھا کہ اُس نے بادشاہ کے خلاف سازش کی ہے مگر بعد میں بادشاہ کی تبدیل ہونے پر واپس بھی آ گیا۔

روسو کے نام سے بھی ہم سب کچھ نہ کچھ واقف ہی ہیں، روسو کی پیدائش جنیوامیں ہوئی اور جوانی غربت میں گذری، کسی نہ کسی طر ح اُس نے اپنی تعلیم پوری کی اور پھر پیرس چلا آیا، سوشل کنٹرکٹ پر اُس کا مقالہ تاریخی حیثیت کا حامل ہے، والٹئیر سے یہ متاثر تھا مگر بعد میں اپنا راستہ الگ کر لیا۔ والٹئیر ایک قانون دان کا بیٹا تھا، لاجواب لکھاری تھا، کئی موضوعات پر تسلسل کے ساتھ اُس نے لکھا، اس کی تحریر میں بہت کاٹ تھی جس کی وجہ سے اسے کچھ عرصہ قید اور بعد ازاں جلا وطنی کی زندگی بھی گذارنی پڑی، کاندید اُس کا شہرہ آفاق ناول ہے۔

اِن تمام فلسفیوں میں ایک بات مشترک ہے کہ یہ تمام دانشور یورپ کی روشن فکری  (Enlightenment)کی تحریک کے سرخیل تھے، اِس تحریک کا زمانہ سترھویں اور اٹھارویں صدی کا ہے، اِن دو سو برسوں میں یورپ میں ایسے فلسفی، دانشور، سائنس دان اور ریاضی دان اٹھے جنہوں نے ایک نئی سوچ کو پروان چڑھایا، حکومت، معاشرت، تعلیم، انصاف، اظہار رائے، مساوات اور انسانی آزادی کے نئے تصورات دیے جن سے پہلے یورپ نا آشنا تھا، ان تمام نظریات نے نہ صرف یورپ کو متاثر کیا بلکہ دنیا کو بھی ہمیشہ کے لیے تبدیل کرکے رکھ دیا، اِس تحریک کی بنیاد اِس بات پر تھی انسانی ترقی کا راز تنقیدی سوچ میں مضمر ہے نہ کہ اندھے اعتقاد اورتوہمات میں۔

یہ لوگ جو روشن فکری کی تحریک کے روح رواں تھے، تعداد میں زیادہ نہیں، زیادہ سے زیادہ شاید اٹھارہ ہوں گے، مگر اِن میں والٹئیر، لاک، روسو، کانٹ، گبن اور ہیوم کے علاوہ نیوٹن، مونٹیسکیو اور کاندورسے جیسے عظیم مفکر بھی شامل تھے جن کی بدولت یہ تحریک اٹھی اور پورے یورپ کو تاریکی سے نکال کر ترقی کی شاہراہ پر گامزن کر گئی، اس کے ساتھ ہی صنعتی انقلاب برپا ہو گیا جس نے رہی سہی کسر پوری کردی، پھر دو عظیم جنگوں کی تباہی بھی یورپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکی۔

روشن فکری کی تحریک کے بعض فلسفیوں کو اپنے نظریات کی پاداش میں قید و بند کی صعوبتیں اٹھانی پڑیں اورجلا وطنی کاٹنی پڑی بالکل اُسی طرح جیسے کچھ مسلمان مفکرین اور علما کو بھی گیارھویں بارھویں صدی میں کفر کے فتووں اور ظلم کا سامنا کرنا پڑا جن میں ابن رشد جیسا نام بھی شامل ہے۔ اس زمانے کے مسلمان فلسفی بھی ہمیں بالکل اسی طرح ایک لڑی میں پروئے نظر آتے ہیں جیسے سترھویں اٹھارویں صدی کے یورپین دانشور، ایک کے بعد دوسرا مفکر آیا، اُس نے اپنا فلسفہ پیش کیا، اُس پر رائے دی گئی پھر دوسرا فلسفی ظاہر ہوا جس نے ایک نئے فلسفے کی بنیاد رکھی اور یوں یہ سلسلہ چلتا گیا۔

مثلاً مسلمانوں میں معتزلہ اور العشری نقطہ نظر بالکل اسی طریقے سے پروان چڑھے، ادھر یورپ میں روشن فکری کے زمانے میں ہیوم نے جب انسان کی آزادی کو مقدم قرار دیا تو اس سے نئے سوالات پیدا ہوئے جس کے نتیجے میں کانٹ کا فلسفہ پیدا ہوا، والٹئیر اِس لڑی کا آخری مفکر تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب مسلمانوں میں بھی فلسفے کی ایسی ہی توانا روایت تھی جس کا جنم بعد میں یورپ میں ہوا تو کیا وجہ ہے کہ مسلمانوں کا عروج زیادہ عرصہ برقرار نہ رہاا اور بغداد اور بصرہ جیسے شہر منگولوں نے آسانی فتح کرکے مسلمانوں کی علمیت کا سر کاٹ کر مینار بنا دیے جبکہ یورپ دو جنگیں بھگتا کر بھی دنیا کی امامت کر رہا ہے !

خاکسار کی رائے میں اِس کے دو مختصر ترین جواب ہیں، پہلا، مسلمان حکمران ایک وسیع و عریض سلطنت کے مالک تھے، عباسی خلیفہ کا سکہ جس پورے علاقے میں چلتا تھا وہ رقبے میں یورپ سے بھی زیادہ تھا، اگر کہیں کسی شخص کے نظریات حکمرانوں کوخطرناک لگتے تو اس کے لیے زمین تنگ کر دی جاتی اور یوں تحقیق و جستجو کی راہ مسدود ہو جاتی، دوسری طرف یورپ میں فلسفیوں کو یہ آزادی ملی کہ چھوٹی چھوٹی مملکتیں تھیں، والٹئیر پر فرانس کی زمین تنگ ہوئی تو وہ انگلستان آ گیا، روسو کو فرانس سے فرار ہونا پڑا مگر اسے جائے پناہ مل گئی، لاک انگلستان سے فرار ہو کر ہالینڈ آ گیا، یوں ان فلسفیوں کا کام چلتا رہا۔

دوسرا، تعلیم، تحقیق اور فلسفے میں اعلی ٰ تخلیقات کرنا جنگی تدبیر کرنے اور فتوحات کرنے سے بالکل مختلف ہے، مسلمان بھلے منگولوں کے مقابلے زیادہ بہتر محقق تھے مگر جنگی میدان میں اُن کے آگے پانی بھرتے تھے، مسلمانوں کی عبرتناک شکست سے یہ بات ثابت بھی ہو گئی۔ دوسری طرف یورپ نے صرف روشن فکری کی تحریک پر اکتفا نہیں کیا بلکہ عقل کی بنیاد پر صنعتی انقلاب کی بنیاد رکھی اور پھر نئے ہتھیار ایجاد کرکے دنیا کو آگے لگا لیا۔ تیس کروڑ کی آبادی کے ہندوستان پر انگریزوں نے سو سال حکومت کی اور اِس دوران اُن کی فوج کی تعداد چالیس سے ستّر ہزارسے زیادہ نہیں ہوئی، اس کی بہت سی وجوہات میں سے ایک وجہ انگریزوں کے پاس جدید ہتھیار ہونا تھے۔

ہمیں بھی آج ایسے ہی اٹھارہ فلسفیوں کی ضرورت ہے جنہوں نے یورپ میں روشن فکر کی بنیاد رکھی، مگر اٹھار ہ تو دور کی بات ہمارے پاس تو ایک شاید ایک بھی جینوئن دانشور نہیں، کچھ لوگ ضرور ہیں جو سنجیدہ علمی اور تحقیقی کام کر رہے ہیں مگر ظاہر ہے کہ اُن کا مقام وہ نہیں جو یورپ کے مفکرین کا تھا۔ کچھ ایسے بھی ہیں جو خود کو روسو اور والٹئیر سے کم نہیں سمجھتے مگر حقیقت میں یہ میڈ اِن چائنہ قسم کے دانشور ہیں جو چابی سے چلتے ہیں، جو اِن کی چابی بھرتا ہے یہ اُس کی زبان فر فر بولنا شروع ہو جاتے ہیں اور اس پر طرہ یہ کہ خود کو آزاد منش بھی کہتے ہیں۔ ان دانشوروں کی موجودگی میں تحریک طعنہ زنی تو چل سکتی ہے، روشن فکری نہیں پنپ سکتی۔

(ہم سب کے لئے خصوصی طور پر ارسال کیا گیا)

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 490 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada