’میرے پاکستانی رشتے دار سمجھے میرا کینسر وبائی ہے‘


ساج ڈار اپنے پہلے بچے کے ساتھ حاملہ تھیں جب انھوں نے اپنے دائیں پستان پر ہاتھ پھیرا اور انھیں ایک گٹھلی محسوس ہوئی۔ انھیں معلوم تھا کہ اس کا مطلب کیا ہے۔ اور انھیں یہ بھی معلوم تھا کہ اپنا ٹیسٹ کروانے میں وہ دیر نہیں کر سکتی تھیں۔ مگر برکشائر کے قصبے سلو کی پاکستانی برادری میں ایک ’کوڑھی‘ سمجھے جانے کا حوۓ ان پر تاری ہوگیا۔

کئی ہفتوں تک انھوں نے خود کو مجبور کیا کہ وہ اس کے بارے میں سوچیں ہی مت اور نہ ہی وہ ٹیسٹ کروانے گئیں۔

یہ والدہ کی ضد تھی اور ان کی والدہ نے ہی انھیں ڈاکٹر سے ٹائم لے کر اس پر مجبور کیا کہ وہ جا کر اپنا ٹیسٹ کروائیں۔ اس وقت ساج کی عمر 32 سال تھی اور انھیں ڈاکٹر نے بتایا کہ ان کے سینے میں ایک نہیں بلکہ تین کینسر کی کٹھلیاں تھیں۔ انھیں تجویز دی گئی کہ وہ اپنا حمل گرا دیں مگر انھوں نے انکار کر دیا۔ اس کے ایک ہفتے بعد ان کا حمل خود ہی ضائع ہوگیا۔

یہ بھی پڑھیے

گمنام ہیرو جس نے سرطان کے ہزاروں مریضوں کو بچایا

بریسٹ کینسر: علامات، تشخیص اور طریقہ علاج

بریسٹ کینسر کے بارے میں آپ کتنا جانتے ہیں؟

آج دس سال بعد ساج اس وقت کو یاد کرتی ہیں جب انھیں فیملی کی ایک تقریب کے دوران پیپر پلیٹ دی گئی کیونکہ ان کے میزبان کو خوف تھا کہ ان کا کینسر وبائی ہے۔

وہ کہتی ہیں ’آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ذہن میں یہی بات ہے کہ ہم اس کے ساتھ اپنے برتن شیئر نہیں کر سکتے۔‘

’آپ کو ایک بیرونی شخص جیسا احساس ہوتا ہے۔ لوگوں سے بھرے کمرے میں آپ اکیلا محسوس کرتے ہیں۔‘

ایک اور موقعے پر انھوں نے اپنی ساس کو یہ کہتے سنا کہ ان کا گلاس اچھی طرح دھویا جائے۔

ساج ڈار اس سب کی وجہ تعلیم کی کمی مانتی ہیں اور کہتی ہیں کہ اگرچہ نئی نسل قدرے کھلے ذہن رکھتی ہے مگر ان کے بڑوں نے ان کے بہت سے خیالات مرتب کیے ہیں۔

ساج ڈار کی شادی 1999 میں ہوئی تھی۔ روایت کے خلاف انھوں نے ایک ارینجڈ شادی سے انکار کر کے محبت کے لیے شادی کی تھی اور ان کا خیال تھا کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ عمر بھر رہیں گیں۔

مگر اب وہ مانتی ہیں کہ کینسر کی تشخیص ان کے رشتے پر منفی طور پر اثر انداز ہوئی۔ وہ کہتی ہیں ’ہم اکھٹے رہ رہے تھے مگر میاں بیوی کی طرح نہیں۔‘ اب وہ شادی شدہ نہیں ہیں۔

کینسر کے ابتدائی مرحل میں ٹیسٹ اس کے علاج میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے مگر کینسر پر کام کرنے والے فلاحی ادارے مکملن سے ملنے والی معلومات کے مطابق اس کے ٹیسٹ کروانے کا تناسب سفید فام لوگوں کے مقابلے میں سیاہ فام اور ایشیائی لوگوں میں کم ہے۔ ادارے کا خیال ہے کہ اس کی بڑی وجہ ان برادریوں میں کینسر کے بارے میں بات چیت میں کمی، زبان کے مسائل اور سماجی مسائل ہیں۔

’کمبخت؟‘

لیسٹر سے تعلق رکھنے والی انیشا ونمالی کا کینسر موذی ہے۔ ایک بچے کی ماں ہوتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ ’مجطے ایسے لگتا ہے کہ لوگ میرے قریب نہیں آنا چاہتے۔‘

’میں لوگوں کو سرگوشیاں کرتے دیکھتی ہوں اور جب میں ان سے آنکھیں ملاؤں تو وہ آنکھیں چرا لیتے ہیں۔ یہ سارا وقت ہوتا ہے۔‘

’کارما بہت بڑی چیز ہوتا ہے مجھے ہمیشہ یہ احساس دلایا گیا کہ جیسے میں نے کچھ ایسا غلط کیا ہے جس کی وجہ سے میں اس پوزیشن میں ہوں۔‘

’آپ کو لگتا ہے کہ آپ کی فیملی کم از کم کبھی تو یہ پیغام بھیجے کی کہ ’آپ کیسی ہو؟‘ مجھے کئی سال ہو گئے ہیں اپنی فیملی سے بات کیے ہوئے۔‘

’ایشیائی برادری کو لگتا ہے جیسے انھیں کینسر نہیں ہوسکتا مگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہے۔‘

2016 کے برطانیہ میں پبلک ہیلتھ کے اعداد و شمار کے مطابق آخری مراحل میں بریسٹ کینسر کی تشخیص افریقی سیاہ فام (25 فیصد) اور کیرابیئن سیاہ فام (22 فیصد) لوگوں میں سفید فام (13 فیصد) لوگوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔

اور مکملن کا کہنا ہے کہ :

  • معدے کے کینسر کا امکان سیاہ فام لوگوں میں سفید فام لوگوں کے مقابلے میں دو گیا ہے
  • سیاہ فام مردوں میں پروسٹیٹ کے کینسر کا ہونے کا امکان سفید فام مردوں کے مقابلے میں تین گنا ہے
  • ایشیائی لوگوں میں جگر کے مینسر کا امکان تین گنا زیادہ ہے
  • 65 سال کی عمر سے زیادہ کی سیاہ فام اور ایشیائی خواتین میں سرویکل کینسر کا امکان بھی زیادہ ہے

بی ایم ای کینسر کمیونٹیز کی سربراہ روز تھومسن خود ایک کینسر کی مریض ہیں جو کہ اپنی والدہ اور چھوٹی بہن کو کینسر کے ہاتھوں کھو چکی ہیں۔

وہ خود ایک تجربہ کار ریڈیولوجسٹ بھی ہیں۔ انھیں ایک مرتبہ ایک ایسا شخص کا بھی بتایا گیا جو یہ سمجھتا تھا کہ اگر اس کی کینسر کی مریض بیوی نے اس پر چھینک بھی مار دی تو انھیں کینسر ہو جائے گا۔

وہ کہتی ہیں کہ اگرچہ کینسر کے بارے میں عام عوام میں معلومات میں بہتری آئی ہے مگر کچھ برادریوں میں کینسر کے بارے میں ایسے غلط خیالات برقرار ہیں کیونکہ ان لوگوں کے پاس معلومات تک رسائی نہیں ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ میڈیکل کمیونٹی کی جانب سے بھی کچھ چیزیں ان مسائل کے حل میں مدد نہیں کرتیں۔ جب ان کے پستان نکال دیے گئے تو انھیں سیاہ رنگ کے بجائے گلابی رنگ کے جعلی پستان چھاتی میں لگانے کے لیے آفر کیے گئے۔

اگر آپ سفید فام ہوں اور آپ کی ٹانگ کالی ہو تو آپ کو کیسا لگے گا؟‘

کینسر چیمپیئنز

معلومات کی کمی کے حل کے لیے مکملن نے کینسر چیمپیئنز نامی پروگرام شروع کیا ہے جس میں ہر برادری میں اس کی نسل کے ہی لوگ جا کر لوگوں کو کینسر کے خطرات کے بارے میں بتاتے ہیں۔

کینسر کے امراض کی ماہر ڈاکٹر کاجل پٹیل کہتی ہیں کہ ’ہمیں معلوم ہے کہ نسلی اقلیتوں میں کینسر کے بارے میں آگاہی اور سمجھ بوجھ کم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر ان برادریوں میں کینسر کی تشخیص دیر سے ہوتی ہے اور ان کے بچنے کا امکان پھر بدقسمتی سے کم ہو جاتا ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp