شہزاد نیئر کی ”خوابشار“


برسوں پہلے شہزاد نیئر کو پہلی مرتبہ اپنے شہر گوجرانوالہ میں سننے کا موقع ملا۔ سچی بات ہے کہ اس محفل میں انہوں نے اپنی نظم ”سیاچین“ سنا کر کالم نگار سمیت سبھی سننے والوں کو مبہوت کر کے رکھ دیا تھا۔ اس نظم میں سیاچین گلیشیئر کی ٹھٹھرتی بلندیوں کی ساری ٹھنڈک اور ویرانی موجود تھی۔ یہ ٹھنڈک اور ویرانی سننے والوں کو اپنے رگ و پے اور دل و دماغ میں اترتی محسوس ہوئی تھی۔ پوری نظم کالم نگار کی کمزور یاد داشت میں آج تک پیوست ہے۔ پتہ چلا کہ اپنے شہر کے اس شاعر کا تعلق فوج ہے اور یہ ابھی ابھی سیاچین کے محاذ پردو برس ڈیوٹی دے کر لوٹے ہیں۔سیاچین میں گزرے انہی دو برسوں کی ٹھنڈک ، تنہائی اور اذیت نے اس نظم کے مصرعوں کا روپ دھارلیا تھا۔ کالم نگار کا اس نوجوان سے محبت اور احترام کا اک رشتہ قائم ہے۔ موصوف پچھلے دنوں فوج سے ریٹائر ہو گئے ہیں۔ اب یہ شاعری کو زیادہ وقت دے سکیں گے۔ غزل اور نظم دونوں اصناف سخن میں رواں یہ شاعر بہت امید ہے کہ ادبی افق پر اور روشن ہو کر چمکیں گے۔ انہوں نے معمول کے مطابق کالم نگار کواپنی شاعری کی چوتھی تازہ کتاب ”خوابشار“بھجوائی ہے۔ اس میں سے چند منتخب اشعار۔

پھینکی جاتی بھی نہیں راہ میں یادیں اس کی

اور یہ بوجھ اٹھایا بھی نہیں جا سکتا

ورنہ دن رات میں سر توڑ مشقت کرتا

کیا کروں پیار کمایا بھی نہیں جا سکتا

دل ہی مسمار کریں اہل محبت نیئر

پورا ماحول تو ڈھایا بھی نہیں جا سکتا

مجھ کو کسی بھی حال میں خلقت کے ساتھ رکھ

جن کو خدائی چاہئے ان کو خدائی دے

میں تجھ میں رہ کے خود سے بہت دور ہو گیا

اے یاد یار اب مجھے مجھ تک رسائی دے

میں تو خود پر بھی کفایت سے اسے خرچ کروں

وہ ہے مہنگائی میں مشکل سے کمایا ہوا شخص

آنچل سے ابھر آئے ہیں جو بن کے خم و پیچ

اس شعر میں ابلاغ بھی ابہام سے آیا

زندہ ہونا کچھ اور ہوتا ہے

سانس لیتے ہیں سو لئے جائیں

نگاہ یار نہ ہو تو نکھر نہیں پاتا

کوئی جمال کی جتنی بھی دیکھ بھال کرے

حجرہ چشم تو اوروں کیلئے بند کیا

آپ تو مالک و مختار ہیں آئیں جائیں

آمدورفت کو دنیائیں پڑی ہیں نیئر

دل کی بستی کو نہ بازار بنائیں جائیں

ہائے وہ اداسی کا سبب پوچھ رہا ہے

 اور مجھ کو بہانے بھی بنانے نہیں آتے

ایک جیون میں کھل نہیں پاتا

فالتو کیا ہے کیا ضروری ہے ؟

حسن کی اک اک ادا پرکھی گئی

پھر بھی یہ پورا کہاں جانا گیا

میری تصویر چومنے والی

سامنے ہوں کھڑا ہوا میں بھی

اس سے ہم عشق پرستوں کا تقابل کیسا

شیخ تو اپنی عبادت کا صلہ مانگتا ہے

جو بانٹنے کو نکل پڑے ہو تو سب بلا امتیاز دینا

خدا کی صورت نہ چند لوگوں کو نعمتوں سے نواز دینا

کہنے سننے سے کچھ نہیں ہوتا

روز ہم آسمان سے کہتے ہیں

وہ حرص ہوتی ہے آئے جو زر کی رستے سے

غنا کی راہ سے آئے تو عشق ہوتا ہے

ضعف تسلیم مگر جمّ اسیران جفا

کوئی چارہ تو کرو شور دہائی ہی سہی

میں تہی دست کہاں یاد بھی دے پایا اسے

وہ تو کچھ دے ہی گیا رنج جدائی ہی سہی

بادہ نوشی تو میں کر رہا ہوں

بہکی بہکی سی دیوار کیوں ہے ؟

دولت شہرت خواہش لالچ شوق عقیدہ

اپنی مرضی کا پنجرہ بنوا سکتے ہو

لمس کی بارش کب برسے گی

جسم کا صحرا پوچھ رہا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).