امپائر کی انگلی سے امپائر کو وارننگ تک


اسلام آباد میں جمع ہونے والے ہجوم کے بارے میں ایک بات پر اتفاق رائے دکھائی دیتا ہے کہ یہ بہت بڑا مجمع ہے اور اس میں شریک ہونے والے لوگ طویل المدت قیام کے لئے یہاں آئے ہیں۔ اتوار کی رات کو آزادی مارچ کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے وزیر اعظم کے استعفیٰ کی مہلت میں ایک روز کا اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ آئیندہ لائحہ عمل کا فیصلہ سوموار کو اپوزیشن پارٹیوں کے اجلاس میں ہوگا۔
مولانا فضل الرحمان نے ابھی تک اپنی حکمت عملی کے بارے میں بہت زیادہ معلومات فراہم نہیں کی ہیں لیکن آج انہوں نے کچھ واضح اشارے ضرور دیے ہیں۔ انہوں نے ریڈ زون میں واقع ڈی گراؤنڈ کی طرف جانے کی تردید کی اور کہا ہے کہ وہ جگہ اتنی کثیر تعداد میں لوگوں کے لئے کم ہے۔ یہ جگہ بھی اسلام آباد ہے اور ہم یہاں پر آرام سے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے کہاکہ وزیر اعظم کا استعفیٰ ہمارے پلان اے کا حصہ ہے ۔ ہمارے پاس پلان بی اور پلان سی بھی ہیں۔ متعدد مبصر اور صحافی کئی روز سے اس خیال کا اظہار کرتے رہے ہیں کہ مولانا نے اس احتجاج کے حوالے سے حکمت عملی تیار کی ہوئی ہے لیکن وہ اس بارے میں کوئی واضح بات نہیں کرتے۔ اب انہوں نے خود پلان بی اور سی کا ذکر کرکے اپنی حکمت عملی کا کچھ نقشہ ضرور پیش کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکمرانوں کی جیلیں کم پڑ جائیں گی لیکن ہمارے کارکنوں کا حوصلہ کم نہیں ہو گا۔ اس سے قیاس کیاجاسکتا ہے کہ جمیعت علمائے اسلام تصادم کی بجائے گرفتاریاں دینے کی تحریک بھی شروع کرسکتی ہے۔
آج کی گئی تقریر میں مولانا فضل الرحمان نے یہ انتباہ بھی دیا ہے کہ اسلام آباد میں کیا جانے والا احتجاج پورے ملک میں پھیل سکتا ہے۔ یعنی اگر مولانا کے ساتھ سیاسی امور پر کوئی قابل قبول مفاہمت کرنے سے گریز کیا گیا تو اسلام آباد کے علاوہ ملک کے دیگر شہروں میں بھی کاروبار زندگی بند کیا جاسکتا ہے۔ ملک اس وقت جس معاشی تکلیف دہ صورت حال کا سامنا کررہا ہے، اسے دیکھتے ہوئے بلاخوف تردید کہا جاسکتا ہے کہ احتجاج خواہ اسلام آباد تک رہے یا اس کا دائرہ ملک بھر میں پھیلا دیا جائے، اس کے نقصان دہ اثرات سے انکار ممکن نہیں ہے۔ اس لئے بہتر یہی ہوگا کہ مولانا کے ساتھ کوئی سیاسی معاہدہ ہوجائے تاکہ مسلسل تصادم کی صورت حال ختم کرکے سیاسی ڈائیلاگ کا راستہ اختیار کیا جاسکے۔
بدقسمتی سے تحریک انصاف کی حکومت نے سیاسی مفاہمت اور مخالف سیاسی قوتوں کو ان کے حصے کا احترام دینے کا نام ’این آر او‘ رکھا ہؤا ہے۔ عمران خان کہتے بھی ہیں اور شاید سمجھتے بھی ہیں کہ ملک کی دونوں بڑی اپوزیشن پارٹیاں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی مولانا کی آڑ میں حکومت کو عاجز کرنا چاہتی ہیں کیوں کہ ان کے متعدد لیڈر کرپشن کے الزامات میں گرفتار ہیں۔ عمران خان نے آج بھی سوشل میڈیا پر ایک پیغام میں اپنے اس دعوے کو دہرایا ہے کہ اپوزیشن لیڈر ان سے ’این آر او‘ کے لفظ سننا چاہتے ہیں لیکن وہ یہ لفظ ادا نہیں کرسکتے کیوں کہ یہ قوم سے غداری ہوگی، اس طرح بدعنوان عناصر کو چھوٹ دے کر ملک کے مسائل میں مسلسل اضافہ کیا جائے گا۔ بدقسمتی سے عمران خان یہ نعرہ اپنے بہت سے حامیوں کے دل و دماغ میں راسخ کرچکے ہیں۔ اس لئے تحریک انصاف اور عمران خان کا حامی ایک بڑا طبقہ بدستور یہ سمجھتا ہے کہ یہ احتجاج دراصل ماضی کی بدعنوانی کو چھپانے کے لئے کیا جارہا ہے۔ عمران خان کو سیاسی نعرے بازی کا یہ سخت گیر مؤقف تبدیل کرنے کی ضرورت ہوگی ورنہ حکومت مولانا فضل الرحمان کی قیادت میں اسلام آباد میں شروع کئے گئے احتجاج سے خوش اسلوبی سے نمٹنے میں کامیاب نہیں ہوسکے گی۔
مولانا فضل الرحمان اور جمیعت علمائے اسلام کا آزادی مارچ اپنی ساخت، پہچان اور حجم کے اعتبار سے ماضی قریب میں دیے گئے دھرنوں سے مختلف ہے۔ یہ اجتماع اپنی تعداد میں علامہ طاہر القادری کی پاکستان عوامی تحریک ، تحریک انصاف اور لبیک تحریک کے بالترتیب 2013، 2014 اور 2016 میں دیے گئے دھرنوں سے بہت بڑا ہے۔ ان تینوں جماعتوں کے مقابلے میں جمیعت علمائے اسلام کا تنظیمی ڈھانچہ زیادہ مضبوط ہے اور کارکنوں کی قیادت سے وفاداری کی نوعیت مختلف ہے۔ اس اجتماع میں ملک کے تین چھوٹے صوبوں کے لوگ اکثریت میں ہیں اور ان کا تعلق عام طور سے نچلے متوسط اور غریب طبقے سے ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے آج اپنی تقریر میں اس طبقاتی محرومی کا ذکر بھی کیا اور واضح کیا کہ مدرسوں کی بات کرنے سے پہلے یہ سوچ لیاجائے کہ وہاں غریب اور محروم والدین کے بچوں کو مفت تعلیم، خوارک اور کپڑے ملتے ہیں۔ ایک خاص مذہبی گروہ کی نمائیندگی کرنے کے باوجود ان لوگوں کو بوجوہ محض ایک مولوی کے معتقتدین کا اجتماع نہیں کہا جاسکتا۔
وزیر اعظم اور تحریک انصاف نے گو کہ مسلسل یہ دعویٰ کیا ہے کہ مولانا فضل الرحمان مذہبی کارڈ استعمال کررہے ہیں لیکن مولانا نے ابھی تک اپنا مؤقف سیاسی امور تک محدود رکھا ہے اور سیاست اور مذہب کو ملانے کی کوشش نہیں کی ۔ اس کے باوجود یہ کہنا اور سمجھنا بھی عاقبت نااندیشی ہوگی کہ مولانا ایک مذہبی رہنما نہیں ہیں اور اگر انہیں دیوار سے لگانے، دبانے یا نظر انداز کرنے کی کوشش کی گئی تو وہ اپنی اس حیثیت اور اپنے حامیوں کے مذہبی جذبات کو ڈھال بنانے کی کوشش نہیں کریں گے۔ دیگر باتوں کے علاوہ حکومت کو آزادی مارچ کے احتجاج سے نمٹتے ہوئے اس پہلو کو بھی پیش نظر رکھنا ہوگا۔
اس میں شبہ نہیں ہے کہ مولانا نے وزیر اعظم کے استعفیٰ کا مطالبہ کرتے ہوئے بہت سخت سیاسی مؤقف اختیار کیا ہے۔ اسی لئے متعدد مبصرین یہ سمجھ رہے ہیں کہ اس سخت گیر مطالبے کے بعد مولانا کی مکمل سیاسی شکست کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچا۔ لیکن مولانا سیاست کے پرانے کھلاڑی ہیں، ان سے اگر مفاہمت و مواصلت کا راستہ ہموار کیا جائے گا تو سخت گیر مؤقف میں سے اتفاق رائے کا کوئی دروازہ کھولنا ناممکن نہیں ہوگا۔ تاہم اس کے لئے حکومت کو اپنی ضد چھوڑنا پڑے گی اور اپوزیشن کے لئے احترام کی فضا بحال کرنا ہوگی۔ مولانا نے آج اپنے الٹی میٹم میں ایک روز کی توسیع کرتے ہوئے دراصل حکومت کے علاوہ دونوں بڑی اپوزیشن پارٹیوں کو بھی کسی متفقہ پلیٹ فارم پر جمع ہونے کی دعوت دی ہے۔ حکومت اس موقع سے فائدہ اٹھا سکتی ہے کیوں کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے بدستور دھرنے کی مخالفت کی ہے۔ البتہ حکومت اگر اس موقع پر ان دونوں پارٹیوں کے تعاون سے مولانا فضل الرحمان کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں کرتی اور اپوزیشن و حکومت اپنے اپنے مفاد کے پیش نظر مولانا کو سیاسی طور سے تنہا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ ان تینوں پارٹیوں کے لئے نقصان دہ ہونے کے علاوہ ملکی سیاست میں انتہا پسندانہ مذہبی عناصر کی ناراضگی اور طاقت میں اضافہ کا سبب بھی بنے گا۔
اس احتجاج کی وجوہ اور عوامل کے بارے میں بہت سی متضاد آرا اور جائزے سامنے آتے رہے ہیں۔ ماضی میں پاکستانی سیاست کے پیچ و خم دیکھتے ہوئے ان اندازوں سے صرف نظر کرنا بھی ممکن نہیں ہے۔ اس لئے سو فیصد یقین سے کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ آزادی مارچ سیاست میں اداروں کی مداخلت کے خلاف احتجاج اور ’ووٹ کو عزت دو‘ کے اصول کو تسلیم کروانے کی آخری کوشش ہی ہے۔ البتہ معاملات کو ’ فیس ویلیو‘ پر لینے کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔ مولانا نے آج بھی سیاست میں اداروں کی مداخلت کا ذکر کیا اور کہا کہ جس ادارے کے پاس شکایت لے کر جانے کا کہا جاتا ہے، وہ تو خود مجبور محض ہے۔ الیکشن کمیشن تو پانچ سال سے تحریک انصاف کی فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ تک نہیں کرسکا۔ انہوں نے کہا کہ ’تمام اداروں کو بیٹھ کر یہ طے کرنا ہوگا کہ آئین محترم اور سپریم ہے۔ اس کی بنیاد پر اس ملک کا نظام چلے گا۔ ہر شخص الیکشن میں عوام کی طرف دیکھنے کے بجائے کسی اور طرف دیکھ رہا ہوتا ہے۔ عوام کے ووٹ کو عزت دینا ہوگی۔ عوام کے ووٹ کو امانت سمجھنا پڑے گا۔ عوام کے ووٹ پر ڈاکہ ڈالنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی‘۔
مولانا فضل الرحمان کی سیاست اور ان کے مؤقف سے شدید اختلاف کے باوجود ان کے بیان کردہ اس نکتہ سے نہ اختلاف کیا جاسکتا ہے اور نہ اس کی صحت پر انگلی اٹھائی جاسکتی ہے۔ اسی بات کو گزشتہ رات پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے چئیرمین محمود خان اچکزئی نے دوٹوک الفاظ میں بیان کرکے ملکی سیاست میں صاف گوئی اور جرات مندی کے ایک نئے باب کا اضافہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’ اگر وہ لوگ چاہتے ہیں کہ مولانا کا یہ دھرنا ختم ہو جائے۔ اگر وہ لوگ چاہتے ہیں کہ میاں محمد نواز شریف لندن چلے جائیں تو اس کا طریقہ بہت آسان ہے۔ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ اور پارلیمان سے دو دو نمائندے تشریف لائیں، چیف جسٹس اور ان کا ایک ساتھی، آرمی چیف اور ان کا ایک ساتھی، عمران خان اور ان کا ایک ساتھی، اور یہ مان لیں کہ ہم سے غلطی ہوئی ہے۔ ہم نے دھاندلی کی ہے۔ وہ اس دھرنے کے شرکا اور مولانا کو یقین دلائیں کہ آج کے بعد پاکستان میں آئین کی حکمرانی ہو گی۔ پارلیمان طاقت کا سرچشمہ ہو گی۔ اسٹیبلشمنٹ سیاست میں مداخلت نہیں کرے گی۔ تو میاں صاحب کو لندن جانے اور مولانا فضل الرحمن کو گھر جانے پر راضی کرنا میرا کام ہے‘۔
محمود خان اچکزئی کی ان باتوں سے اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ اداروں کی سیاست میں مداخلت کی نوعیت کیا ہے اور چھوٹے صوبے اس کے بارے میں کس قدر رنجیدہ ہیں۔ 2014 کے دھرنے میں عمران خان امپائر کی انگلی اٹھنے کا انتظار کرتے تھے۔ 2019 کا احتجاج امپائر کو وارننگ دے رہا ہے کہ سیاست میں مداخلت ترک کردی جائے۔ ادارے اگر اب بھی اس رائے کو مسترد کرنے پر اصرار کریں گے تو ملک میں تصادم کو روکنا ممکن نہیں ہوگا۔ مولانا فضل الرحمان کا احتجاج ہوسکتا ہے ناکام ہوجائے لیکن سیاست میں اداروں کی مداخلت کے خلاف اٹھنے والی اس للکار کو ہمیشہ کے لئے دبانا آسان نہیں ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali