برابری ثابت کرنے کے لئے عورتوں کو ریپ کرنے پڑیں گے؟


رونا اس بات کا نہیں کہ یہ بات کہی گئی بلکہ ماتم اس کا ہے یہ کہنے والا وہ ہے جس کی پہچان قلم کار کے طور پر ہے۔ پاکستان کے اسکرپٹ رائٹر خلیل الرحمان قمر فرماتے ہیں کہ عورتوں کو مردوں کی برابری کرنی ہے تو پہلےکسی مرد کا گینگ ریپ کرکے دکھائیں۔ انہوں نے مزید فرمایا کہ “(عورتیں) کسی بس کو لوٹیں، کسی شخص کو اغوا کریں، اس کے ساتھ گینگ ریپ کریں، تب مجھے معلوم ہو سکے گا کہ مساوات کیا ہے اور یہ کہ آپ (عورتیں) کس قسم کی مساوات کا مطالبہ کررہی ہیں”۔

ان ارشادات کو پڑھ کر معلوم ہوا کہ حضرت کا صنفی مساوات کا تصور جسم کی بناوٹ سے آگے نہیں جا سکا ہے۔ ان کے نزدیک برابری کے لئے یکساں جسمانی ساخت اور قوت شرط ہے۔ اب ذرا یہیں ٹھہر جائیے اور خلیل الرحمان قمر کے بیان کا تھوڑا اور تجزیہ کیجئے۔ ان کے آرگیومینٹ (استدلال) کی بنیاد یہ ہے کہ مساوات انہیں کے درمیان قائم کی جا سکتی ہے جن میں یکساں استطاعت ہو۔ اب چونکہ خواتین مردوں جیسا جسم اور زورِ بازو نہیں رکھتیں پس انہیں حق نہیں کہ صنفی مساوات کی بات کریں۔

یہ استدلال جس ذہنیت کا مظہر ہے اس میں خواتین کے لئے حقارت کا جذبہ ہی نہیں بلکہ کچھ اور بھی پوشیدہ ہے جو بہت ہلا دینے والا ہے۔ اگر یہ استدلال پیمانہ ہو جائے تو کچہریوں میں انصاف کے حصول سے لیکر انسانی حقوق تک ہر جگہ استطاعت کو ترجیح دی جائے گی۔ جس کے پاس وسائل یا اختیار ہوں وہ حقوق حاصل کر لے اور جس کے پاس یہ استطاعت نہ ہو وہ حقوق سے محرومی پر صبر کرے اس لئے کہ وہ اسی کا حقدار ہے۔ خلیل الرحمان قمر کی عدالت تو یہی کہتی ہے کہ جب تک بے اختیار کسی بااختیار کی طرح نہیں ہو جاتا تب تک اسے تفریق کا شکار بہرحال ہونا ہوگا۔

خلیل الرحمان قمر کی الجھن یہ ہے کہ وہ صنفی مساوات کی بات سمجھ نہیں پا رہے ہیں۔ میرا دل کہتا ہے کہ اُن کا مسئلہ کچھ اور ہے۔ وہ انسانی وقار کے بنیادی اصولوں سے یا تو واقف نہیں ہیں یا تجاہل عارفانہ کر رہے ہیں۔ عورتیں جب صنفی مساوات کی بات کرتی ہیں تو ان کی مانگ یہ نہیں ہوتی کہ ہمیں بھی مردوں کی طرح ریپ کرنے کا حق ملنا چاہئے۔ وہ یہ بھی مطالبہ نہیں کرتیں کہ ہمیں زینب اور آصفہ جیسی بچیوں کو بھنبھوڑنے والی صفت مستعار دی جائے۔ نہ ہی وہ یہ چاہتی ہیں کہ انہیں یہ حق ملے کہ وہ عشق کے جال میں پھنسا کر بچیوں کو ان کے گھروں سے بھگا کر لائیں اور چکلے پر بیچ دیں۔

عورتیں یہ بھی نہیں مانگتیں کہ انہیں بھری ہوئی بس میں کسی کا جسم ٹٹولنے کی اجازت ملے۔ عورتوں کی پریشانی یہ بھی نہیں ہے کہ انہیں کسی کے چہرے پر تیزاب پھینک دینے کا حق کیوں نہیں ہے؟ عورتیں اس پر بھی ماتم کناں نہیں ہوتیں کہ انہیں کھڑے کھڑے تین لفظ بول کر کسی کو سڑک پر پھینک دینے کی سہولت کیوں میسر نہیں ہے؟ بلکہ عورتیں جب صنفی مساوات کی بات کرتی ہیں تو ان کا مطالبہ بہت چھوٹا سا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ ان کو انسان سمجھا جائے۔

وہ چاہتی ہیں کہ ان کی خود داری، عزت نفس اور فیصلہ لینے کی آزادی کو پیروں تلے کچلنے سے پہلے ایک لمحہ سوچ لیا جائے۔ عورتیں چاہتی ہیں کہ انہیں اسکول جانے کا حق ملے، انہیں اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی آزادی ہو، ان کو زندگی سے جوجھنے اور اس جہاد میں اپنے فیصلے آپ لینے کا اختیار حاصل ہو۔

خلیل الرحمان قمر کے نزدیک انسانی زندگی کا تصور سیکس اور مار پیٹ کے چاروں طرف گھومتا ہو تو گھومتا رہے، یہ ان کا مسئلہ ہے، عورتوں کا نہیں۔ عورتیں مساوات کی بات کرتی ہیں تو ان کے دماغ میں سیکس یا لات گھونسے نہیں ہوتے بلکہ انسانی وقار ہوتا ہے۔ وہ چاہتی ہیں کہ اگر کاروبار ہستی میں ان کا بھی کوئی کردار ہے تو انسانوں کی اس دنیا میں ان کو بھی برابر کی عزت حاصل ہونی چاہئے۔ خلیل الرحمان صاحب کو یاد رکھنا چاہئے کہ عورتیں کسی کی عزت لوٹنے کا نہیں بلکہ انسانی عزت پانے کا حق مانگتی ہیں۔

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

مالک اشتر،آبائی تعلق نوگانواں سادات اترپردیش، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ترسیل عامہ اور صحافت میں ماسٹرس، اخبارات اور رسائل میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے لکھنا، ریڈیو تہران، سحر ٹی وی، ایف ایم گیان وانی، ایف ایم جامعہ اور کئی روزناموں میں کام کرنے کا تجربہ، کئی برس سے بھارت کے سرکاری ٹی وی نیوز چینل دوردرشن نیوز میں نیوز ایڈیٹر، لکھنے کا شوق

malik-ashter has 117 posts and counting.See all posts by malik-ashter