کیا کسی نے مارچ اور دھرنا خرید لیا ہے ؟


سیاست کتنی بے رحم ہوتی ہے۔ شیرجیسے درندے سے زیادہ۔ مولانا کیا بیچتے تھے؟ ریاستی اداروں سے ماضی کی شراکت داری کے راز‘ مدارس کے طلباء کی عقیدت و سرفروشی‘کچھ حسینوں کے خطوط اور کچھ تصاویر بتاں۔ادارے کب کسی سے بلیک میل ہوتے ہیں‘ مدارس کے طلباء کے علاوہ مارچ میں کوئی نہیں تھا۔ اسے سیاسی مارچ نہیں مدرسہ مارچ کہا جا سکتا ہے۔ چند روز قبل جس زبان سے لاکھوں کے مجمع کی بات کی جا رہی تھی وہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی سے ناراضی کا اظہار کر رہی تھی کہ ان کے لیڈر اور کارکن مارچ میں نہیں آئے۔

حضرت وہ جو کیپٹن صفدر رقعہ پہنچاتے تھے ان رقعوں میں طے پایا تھا کہ بندے آپ کے، دیگیں اور پٹرول نواز شریف کی جانب سے۔ آپ سے ایک کام ڈھنگ سے نہ ہو سکا۔ بیمار نواز شریف کو مزید دھچکا پہنچایا۔ وہ دال بٹنے کا ایک محاورہ ہے۔ رہبر کمیٹی بنائی گئی تاکہ دال برابر برابر بٹ سکے لیکن پھر نواز اور شہباز شریف کا اختلاف جسے ن لیگ کے دوست اختلاف رائے قرار دیتے ہیں، لاہور میں مارچ کے شرکاء کو بے یارو مددگار چھوڑ دیا گیا۔ ایک رہنما دو گھنٹے انتظار کروانے پر مولانا سے ناراض ہوئے۔ مولانا کے خاکی پوش اسے کہتے رہے: جاتے ہو تو چلے جائو۔ بعد میں مولانا اس ناراض رہنما کی تھوڑی کو ہاتھ لگا کر منانے کی کوشش میں رہے۔

مولانا کے اجتماع کی ایک فکری شکل ہے۔ یہ فکر سوویت یونین کے خلاف امریکی جہاد کے دوران پروان چڑھی۔ اس فکر کو اگر مذہبی روپ نہ دیا جاتا تو پاکستان کے مدارس کے طلباء کو جہاد کے لئے تیار کرنا ممکن نہ ہوتا۔ سیانے کہتے ہیں پیسہ طاقت ہے اور طاقت اقتدار میں شراکت کی ضد کرتی ہے۔ جہاد سے وابستہ لوگ دو دھاروں میں بٹ گئے۔ ایک وہ جنہوں نے اسے ریاست کی وقتی پالیسی تسلیم کیا اور مقصد پورا ہونے پرمعمول کی زندگی کی طرف لوٹ گئے۔ ان لوگوں کی اکثریت نے اگر کسی سیاسی نظریے سے وابستگی کی تو وہ جماعت اسلامی کی فکر تھی۔

دوسرا گروہ جہادکے ایام میں حاصل طاقت‘ رسوخ اور اہمیت سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں تھا۔ اس گروپ کے وہ لوگ جنہیں کسی مذہبی جماعت نے متاثر نہ کیا وہ فرقہ وارانہ بنیادوں پر جمع ہو گئے۔ باقی جو لوگ بچے وہ اپنے اپنے مدارس کے مہتمم(مالکان) کے پیرو کار بن گئے۔ جمعیت علمائے اسلام سمیع الحق گروپ نے سیاست کی مگر خود کو سیاست کی ریا کاری اور ریاستی مفادات کے خلاف کھڑا نہ کیا۔جے یو آئی ف کے حصے میں جو لوگ آئے وہ اپنی مسلکی شناخت‘ کفر کے فتوئوں اور ریاست سے اقتدار میں حصہ طلب کرنیکے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔

وہ یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ رائج سیاسی نظام میں اقتدار اسے ملتا ہے جسے ووٹ ملتے ہیں۔ یہ فکر جامعہ حفصہ کے بعض لوگوں جیسی ہے۔ مولانا فضل الرحمن اور ان کے پیرو کار منتخب وزیر اعظم کو گرفتار کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ مولانا اور ان کا اجتماع سمجھتاہے کہ وہ فوج سمیت ریاستی اداروں کو دھمکیاں دے کر اپنا مطالبہ منوا سکتے ہیں۔ یہ الگ بات کہ مولانا آخر ایسا کیوں سوچ رہے ہیں۔ ان کے پاس اسی بیانئے کے تیر ہیں جو نواز شریف ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کے ساتھ برسایا کرتے تھے۔

دھرنے میں سب سیاستدان نہیں۔ مولانا تیس برس ہر صاحب اقتدار کے اتحادی رہے۔ اپنی اور اپنے بھائیوں کی نسلوں کے لئے بہت کچھ جمع کر لیا۔ مگر وہ غریب نوجوان اور ادھیڑ عمر لوگ کس قدر زندگی کی معمولی سہولتوں کو ترسے ہوئے ہیں جو ایک پارک میں بچوں کے جھولے دیکھ کر مچل اٹھے‘ جو پینگ جھول رہے ہیں اور جو اپنے ساتھی کو ہوا میں اچھال کر تفریح کا انتظام کرتے ہیں۔ ایک خاکی پوش سے پوچھا گیا کہ وہ دھرنے میں کیوں آیا۔ بولا!عمران خان یہودیوں کا ایجنٹ ہے۔ رپورٹر نے پوچھا وہ کیسے‘ کہا کہ ہمارے قائدین بولتا ہے۔

اسکے بچے باہر رہتے ہیں۔ رپورٹر نے پھر پوچھا آپ نے خود کبھی سوچا کہ کسی کو یہودی نہیں کہنا چاہیے تو خاکی پوش نے جواب دیا‘ ہم یہ نہیں کہتے کہ عمران خان یہودی ہے۔ ہم کہتے ہیں وہ ان کا ایجنٹ ہے۔ سادہ دل ‘ محرومیوں کے مارے‘ دین کی تعلیم حاصل کرنیکے شوق سے سرشار یہ لوگ نہیں جانتے کہ انکو کس کے مفادات کیلئے بیچا جا رہا ہے۔ مولانا کے ساتھیوں اور حامیوں میں میڈیا‘ کاروبار اور سیاست سے وابستہ ایسے لوگ نمایاں ہیں جن کا ماضی افغانستان کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ ایسے لوگوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ ریاستی پالیسیوں کے ساتھ خود کو بدلیں۔ مولانا کے ساتھ ایسے بہت سے لوگ ہیں۔ یہ لوگ چونکہ ماضی میں بارسوخ اور اہم رہے ہیں اس لئے انہیں اپنے اردگرد دیکھ کر فضل الرحمن بغاوت بھرے لہجے پر اُتر آئے ہیں۔

مولانا فضل الرحمن تقریر اچھی کر لیتے ہیں۔ ان کی تقریر بس اسی پہلو سے اچھی تھی۔ جہاں تک تقریر کے مواد کی بات ہے تو اس سے سخت مایوسی ہوئی۔ مولانا کہتے ہیں کشمیر پر بھارت سے دشمنی اور کرتار پور پر بھارت سے معاہدہ حکومت کی دوغلی پالیسی ہے۔ کیا جے یو آئی کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر میں کوئی ایک ایسا عاقل نہیں جو مولانا کو دونوں معاملات کا فرق سمجھا سکے۔ مولانا کہتے ہیں عمران خان مغرب کی چاپلوسی سے اقتدار مستحکم کرنا چاہتے ہیں۔ وہ ریکارڈ تو اب سب کے علم میں آ چکا ہے جو بتاتا ہے کہ مولانا کس طرح مغربی اور امریکی حکام کی منت سماجت کر کے انہیں اپنی وزارت عظمیٰ کے لئے قائل کرتے رہے۔

لاہور میں مینار پاکستان سے ملحق پہلوانوں کااکھاڑہ ہے۔ آزادی مارچ کے شرکاء جانگیا پہنے ‘ دلکش اور مضبوط بدن نوجوان پہلوانوں کو تکتے رہے۔ انہیں لاہور سے بس یہی کچھ ملا۔ مولانا کے لئے کوئی پیزہ لے آیا۔ بولے میں تب کھائوں گا جب میرے تمام ساتھی پیزا کھائیں گے۔ جو لایا تھا اس نے پیزا واپس رکھ لیا۔ جناب فواد چودھری نے حلوہ مارچ کا طنز کیا۔ آخر یہی ہو گا۔آئو بچو سنو کہانی… نظم کے کردار آپ خود ڈھونڈ لیں۔ اس بات کے امکانات موجود ہیں کہ جس طرح خود کش بمبار خریدے اور بیچے جاتے رہے ہیں اسی طرح اب کے کسی نے پورا مارچ اور دھرنا خرید لیا ہے۔ رقم کس نے دی اور کتنی دی اس کی خبر بھی آ جائیگی۔

بشکریہ روزنامہ نائنٹی ٹو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).