انٹرپول کے فیصلے کے بعد کیا سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی پاکستان حوالگی کی فائل بند ہو چکی ہے؟


سابق وزیر خزانہ

پاکستان کے سابق وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کو وطن واپس لانے کی کوششوں کے سلسلے میں انٹرپول کی جانب سے ’ریڈ نوٹس‘ کی درخواست مسترد کیے جانے پر وزیراعظم کے معاونِ خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کا کہنا ہے کہ برطانیہ میں ایسے ریڈ نوٹسز کی کوئی حیثیت نہیں تاہم مسلم لیگ ن نے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے۔

اسحاق ڈار کے خلاف ریڈ نوٹس کا اجرا نہ ہونے کی خبریں اتوار کی شب سے گردش کر رہی تھیں تاہم بی بی سی سے بات کرتے ہوئے شہزاد اکبر نے بتایا کہ انٹرپول نے یہ ’ریڈ نوٹس‘ جاری کرنے سے متعلق پاکستان کی درخواست اس سال اگست میں مسترد کی تھی۔

شہزاد اکبر کے مطابق انٹرپول کی پوری کارروائی خفیہ ہوتی ہے اور اسحاق ڈار نے انٹرپول کا یہ پرانا فیصلہ میڈیا پر لا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ یہ کوئی نئی پیش رفت ہوئی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

اسحاق ڈار: گرفتاری کے لیے انٹرپول سے رابطے کا فیصلہ

اسحاق ڈار کے قرق ہونے والے اثاثہ جات کتنے ہیں؟

عدالت نے اسحاق ڈار کی وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے

واضح رہے کہ انٹرپول نے سابق وزیر خزانہ کو خط کے ذریعے مطلع کیا ہے کہ وہ کسی ریڈ نوٹس پر نہیں اور ان سے متعلق کسی قسم کی کوئی بھی کارروائی عمل میں نہیں لائی جا رہی ہے۔

بی بی سی کو دستیاب دستاویزات کے مطابق انٹرپول نے اسحاق ڈار سے متعلق اپنے سسٹم سے پورا ڈیٹا تلف کرنے کے احکامات بھی جاری کر دیے ہیں۔

مسلم لیگ ن نے انٹرپول کے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔ مسلم لیگ نواز اسے اپنی بڑی کامیابی قرار دے رہی ہے اور جماعت کی ترجمان مریم اورنگزیب نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اللہ تعالیٰ نے اسحاق ڈار کو سرخرو کر دیا ہے۔

مریم اورنگزیب کہتی ہیں کہ وہ انٹرپول کے فیصلے کا خیر مقدم کرتی ہیں۔ ان کے مطابق یہ فیصلہ ملک کے اندر ڈاکو چور کا نعرہ لگانے والوں کے منھ پر طمانچہ ہے۔

شہزاد اکبر

تاہم شہزاد اکبر کہتے ہیں کہ خوشی زیادہ دیرپا نہیں ہو گی۔ ان کا کہنا ہے کہ اصل اہمیت ملزم کی وطن واپسی سے متعلق فیصلے کی ہوتی ہے، جس کا ابھی حکومت پاکستان کو انتظار ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ دو یا تین اگست کو کیا گیا تھا تاہم برطانیہ میں ایسے ریڈ نوٹسز کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی ہے اور اسحاق ڈار کی پاکستان حوالگی سے متعلق حکومتِ پاکستان کی درخواست برطانیہ کی وزارت داخلہ کے سامنے ایک سال سے زیر التوا ہے، جس پر ابھی غور ہو رہا ہے۔

یاد رہے کہ قومی احتساب بیورو (نیب) نے اسحاق ڈار کے خلاف آمدن سے زائد اثاثوں کا ریفرنس بنا رکھا ہے۔ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار ابتدائی طور پر اس ریفرنس میں اسلام آباد کی ایک احتساب عدالت میں پیش ہوتے رہے لیکن بعد میں وزیر خزانہ ہوتے ہوئے وہ ملک چھوڑ کر باہر چلے گئے اور پھر برطانیہ میں ہی مقیم ہو گئے۔

ان کی عدم حاضری میں عدالت نے پاکستان میں ان کے اثاثے نیلام کرنے کے فیصلہ سنایا۔

برطانیہ سے اپنے بیان میں سابق وزیر خزانہ اسے سیاسی انتقام قرار دیا تھا۔ اسحاق ڈار نے اپنی صفائی میں بتایا تھا کہ ان کو تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے سیاسی بنیادوں پر ہدف بنایا جا رہا ہے کیونکہ ان کا نام پانامہ لیکس میں ہے اور نہ ہی 20 اپریل 2017 کے سپریم کورٹ کے فیصلے میں ان کے بارے میں کوئی ذکر موجود ہے۔

انٹرپول

انٹرپول کا ریڈ نوٹس کیا ہوتا ہے؟

وزیر اعظم کے معاون خصوصی بیرسٹر شہزاد اکبر کے مطابق یہ نوٹس محض ایک ضابطے کی کارروائی ہوتی ہے اور یہ صرف ملزم کی تلاش سے متعلق ہوتا ہے۔

’اس نوٹس کے جاری ہونے کے بعد ملزم کو گرفتار کرکے مقامی حکام کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔‘

ان کے مطابق حوالگی سے متعلق کارروائی بعد میں عمل میں لائی جاتی ہے۔

اس طرح کے مقدمات میں برطانیہ اور یورپی عدالتوں کے سامنے پیش ہونے والے بیرسٹر معین خان نے بی بی سی کو بتایا کہ ہر ملک میں انٹرپول مداخلت نہیں کرتا ہے۔

ان کے مطابق جب کوئی دو ایسے ممالک جن کے درمیان براہ راست ملزمان یا مجرمان کی حوالگی کا معاہدہ نہیں ہوتا تو پھر انٹرپول ایک واسطے یا پُل کا کردار ادا کرتا ہے۔

بیرسٹر معین خان کے مطابق جب کوئی درخواست آتی ہے تو انٹرپول اپنی جانچ پڑتال کے بعد فیصلہ سناتا ہے۔ اگر یہ فیصلہ ملزم کو گرفتار کرنے سے متعلق ہو تو پھر بھی ملزم جس ملک میں رہائش پذیر ہوتا ہے وہ میزبان ملک اپنے قوانین کے تحت بھی معاملے کو دیکھتا ہے۔

ان کے خیال میں جب ریڈ نوٹس ہی جاری نہیں ہوا تو اس کا مطلب ہے کہ اب اسحاق ڈار کو گرفتار نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ’ریڈ نوٹس کو ریڈ وارنٹ بھی کہتے ہیں اور وارنٹ جاری ہونے کی صورت میں انٹرپول اس فیصلے کی اپنی ویب سائٹ پر بھی تشہیر کرتا ہے۔‘

قانونی ماہرین کی رائے

بدعنوانی سے متعلق مقدمات کی عدالتوں کے سامنے پیروی کرنے والے ایڈووکیٹ سلمان اکرم راجہ کا کہنا ہے کہ ابھی یہ دیکھا جائے گا کہ پاکستان نے کس قانون اور شق کے تحت یہ درخواست بھیجی تھی اور پھر انٹرپول نے کن وجوہات پر اس درخواست کو مسترد کر دیا ہے۔

بیرسٹر معین خان کے مطابق انٹرپول کے انکار کے بعد اب اسحاق ڈار کی حوالگی کا باب بند ہو چکا ہے۔

ان کے خیال میں اگر پاکستان براہ راست برطانیہ سے ملزمان کی حوالگی سے متعلق کوئی معاہدہ کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو پھر بھی برطانیہ جرم کا تناسب اور نوعیت دیکھ کر فیصلہ کرے گا۔ ’ابھی تک صرف مجوزہ معاہدے کے ڈارفٹ پر ہی کام ہورہا ہے۔‘

بیرسٹر خان کے مطابق سیاسی نوعیت کے مقدمات میں برطانیہ سے کسی ملزم کی حوالگی ناممکن سی بات ہوتی ہے۔ انٹرپول غیر یورپین ممالک کے لیے بین الاقوامی تعاون کا ایک ایک ادارہ ہے جہاں پاکستان اپنا کیس ثابت نہیں کر سکا ہے۔

ریڈ نوٹس سے متعلق درخواست کس نے بھیجی تھی؟

سابق وزیر خزانہ کو وطن واپس لانے کے لیے وزارت داخلہ کے ماتحت کام کرنے والی فیڈرل انوسٹی گیشن ایجسنی (ایف آئی اے) کی جانب سے انٹرپول کو ریڈ نوٹس جاری کرنے سے متعلق درخواست بھیجی گئی تھی۔

وزیر داخلہ ریٹائرڈ بریگیڈیئر اعجاز شاہ نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں صحیح یاد نہیں ہے کہ یہ درخواست کس قانون اور خاص شق کے تحت بھیجی گئی تھی، تاہم انھوں نے ریکارڈ دیکھ کر جواب دینے کا وعدہ کیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32558 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp