جسٹس فائز عیسیٰ ریفرنس: صدر اور وزیراعظم کو مقدمے کا حصہ بنانے کی استدعا


فائز عیسیٰ

SUPREME COURT OF PAKISTAN
جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف صدارتی ریفرنس اس بنیاد پر بنایا گیا کہ اُنھوں نے اپنی بیرون ملک جائیدادوں کا ذکر انکم ٹیکس کے گوشواروں میں نہیں کیا

سپریم کورٹ کے سینیئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے خلاف صدارتی ریفرنس کی سماعت میں سپریم کورٹ سے وزیر اعظم, صدر مملکت اور وزیر قانون کو بھی عدالتی کارروائی کا حصہ بنانے کی استدعا کی ہے۔

پیر کو منیر اے ملک نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل کی حیثیت سے سپریم کورٹ کے دس رکنی بینچ کے سامنے اپنے دلائل دیتے ہوئے مزید کہا کہ جن لوگوں پر بدنیتی کا الزام ہے ان کو فریق بنانا بھی لازمی ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل نے کہا کہ اگرچہ صدر مملکت کو آئین کے تحت استثنیٰ حاصل ہے لیکن جب کوئی غیر آئینی اور غیر قانونی کام کیا جائے تو پھر یہ استشنیٰ ختم ہوجاتا ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کے پاس یہ اختیار ہے کہ اگر کوئی ریفرنس بدنیتی پر دائر کیا گیا ہو تو وہ اسے مسترد کرسکتی ہے۔

مزید پڑھیے:

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ مخالف قرارداد مسترد

فائز عیسیٰ کیس: ’مسٹر یہ کیک نہیں یہ کیس ہے‘

’مائی لارڈز بہت اچھے جج ہیں مگر‘

سپریم کورٹ نے یہ سوال اُٹھایا کہ جن شخصیات کا وہ ذکر کر رہے ہیں ان کے بارے میں یہ دیکھنا ہو گا کہ ان شخصیات کی بدنیتی ریکارڈ پر موجود ہے یا نہیں۔

منیر اے ملک نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ صدر مملکت نے تسلیم کیا کہ انھوں نے وزیر اعظم کی ایڈوائس پر عمل کیا۔ اُنھوں نے کہا کہ صدر مملکت نے اپنا آئینی اختیار استعمال نہ کر کے غیر آئینی اقدام کیا ہے۔

بینچ میں موجود جسٹس فیصل عرب نے استفسار کیا کہ کیا ریفرنس میں لکھا ہے کہ صدر مملکت نے اپنا غور و فکر نہیں کیا اور اگر صدر مملکت نے اپنا ذہن ’اپلائی‘ کرنا ہے تو کیا سارا مواد ان کی نگرانی میں اکٹھا ہونا چاہیے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان

جسٹس فائز عیسی کے خلاف صدارتی ریفرنس کے خلاف درخواست کی سماعت دس رکنی بنچ کر رہا ہے

بینچ میں موجود جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ بھی ممکن ہے کہ وزیر اعظم کے مشورے پر صدر مملکت نے اپنا ذہن ’اپلائی‘ کر کے ریفرنس بھیجا ہو۔

بینچ کے رکن جسٹس منصور علی شاہ نے درخواست گزار کے وکیل سے استفسار کیا کہ کس قانون کے تحت جج کے خلاف مواد اکٹھا کیا گیا اور کسی اتھارٹی کی اجازت سے کسی کےخلاف مواد اکٹھا کیا جا سکتا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل نے جواب دیا کہ صدر مملکت کو اپنا ذہن ’اپلائی‘ کرنا چاہیے تھا کہ مواد کس طرح سے اکٹھا ہوا۔

بینچ میں موجود جسٹس منیب اختر نے درخواست گزار کے وکیل سے استفسار کیا کہ جس جج کے خلاف ریفرنس ہو وہ سپریم جوڈیشل کونسل کے دائرہ اختیار پر سوالات کیسے اٹھا سکتا ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں چیف جسٹس اور سینیئر جج ہوتے ہیں جن میں دو ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان بھی شامل ہوتے ہیں

بینچ میں موجود جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل بلاوجہ کسی جج کو ہٹانے کا نہیں کہہ سکتی۔

اُنھوں نے کہا کہ صدر مملکت کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ کسی بھی جج کے خلاف مواد اکٹھا کر کے ریفرنس بھیج سکتا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک نے جواب دیا کہ اس ریفرنس میں دیکھنا یہ ہے کہ صدر مملکت نے ریفرنس اپنا ذہن ’اپلائی‘ کر کے بھیجا ہے یا کسی کی ایما پر دائر کیا ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ وفاقی کابینہ سے ان کے موکل کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کی منظوری نہیں لی گئی۔

اُنھوں نے کہا کہ ججز کے خلاف کارروائی آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت عمل میں لائی جاتی ہے اور آئین کا یہ آرٹیکل سپریم کورٹ کے جائزہ لینے کے اختیار کو ختم نہیں کرتا۔

اُنھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کو آئین کے آرٹیکل 211 کے تحت ریفرنس کے درست ہونے یا نہ ہونے کا ضرور جائزہ لینا چاہیے۔

بینچ میں موجود جسٹس منیب اختر نے سوال اٹھایا کہ اگر کونسل سمجھے کہ ریفرنس بد نیتی پر مبنی ہے تو کیا کونسل اس پر اپنی رائے نہیں دے گی اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ سپریم جوڈیشل کونسل کے اختیارات کو محدود کر رہے ہیں، جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل کا کہنا تھا کہ دائرہ اختیار یا بد نیتی کے معاملے پر سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکٹایا جا سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32488 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp