آزادی مارچ ۔ کیا احتیاط ضروری ہے؟


میرے گھر کے پاس ان دنوں حکومت کے خلاف اپنے گھروں سے عازم اسلام آباد ہوئے آزادی مارچ کے شرکاء بیٹھے ہوئے ہیں جس کو منتظمین دھرنا کہنے سے گریزاں ہیں۔ جب تک لوگ چل رہے تھے اس کو بہ زبان انگریزی مارچ کہا گیا تو بات سمجھ میں آرہی تھی مگر لوگ جب اپنے مطالبات کے حق میں غیر معینہ مدت تک کہیں بیٹھے ہوئے ہوں تو اس کو دھرنا کے علاوہ کیا کہا جائیگا اس کے لئےکوئی اور اصطلاح ابھی تک وضع نہیں کی گئی ہے۔

 ناچیز کو اسلام آباد شفٹ ہوئے پندرہ سال سے زیادہ ہوئے اس دوران یہاں سیاسی و عوامی سرگرمیوں کا براہ راست مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔ لال مسجد کے واقعہ کو بھی مزاکرات سے اپریشن تک دیکھا اور اس کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کو بھی قریب سے مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔ بعد از خرابی بسیار مسجد اب بھی ادھر ہی ہے اور وہ خطیب بھی جس کے خلاف کاروائی میں کئی جانیں ضائع ہوئیں اور ملک کے کونے کونے میں وفاق کے خلاف بد اعتمادی اور بدگمانی پیدا ہوئی۔ لال مسجد سیاسی اور انتظامی طور پر مس ہینڈل کیا گیا سب سے بڑا واقعہ اور بعض لوگوں کے نزدیک ایک المیہ بھی ہے۔ مگر اس واقعہ سے بعد میں آنے والی سیاسی حکومتوں نے بہت کچھ سیکھا اور پھر ایسی صورت حال پیدا نہ ہوئی۔

جب مشرف کے دور میں عدلیہ بچاؤ تحریک چلی تو گویا تالاب میں پڑنے والے پہلے کنکر کی مثل کے ایک ارتعاش سا پیدا ہوا اور طلاطم پورے شہر اور پھر پورے ملک میں پھیل گیا۔ مشرف اور اس کے حواریوں نے کراچی سے اسلام آباد تک ہٹ دھرمی کی روش اپنائے رکھی مگر دوسری طرف عوام کا موڈ اور بدلتے موسموں کا مزاج دیکھ کر شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے چوپدری افتخار کے گھرکے سامنے کھڑے ہوکر ان کی حمایت کی اور وقت کے آمر کی مخاصمت کی قیمت ان کو اپنی جان دے کر چکانی پڑی۔

طاہر القادری کا پہلا انقلابی دھرنا پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں وارد ہوا اور نصف شب کو شیخ الا اسلام نے صدر، وزیر اعظم اور کابینہ سب کو فارغ کر کے انقلاب کا اعلان کر دیا۔ روایتی طور پر اگر یہ انقلاب تھا تو پھر دوسرے دن آصف زردای کا سر گردن پر نہیں ہونا چاہیئے تھا اور اگر یہ انقلاب کی ناکام کوشش تھی تو باغی کو آئین کے تحت کیفر کردار تک پہنچانا ریاست کی اولین زمہ داری تھی۔ مگر سیاسی حقائق سے باخبر صدر آصف علی زرداری خوب جانتا تھا کہ یہ ایک مزاحیہ ڈرامہ ہے جو ان کو ڈرانے کے لئے کھیلا جا رہا ہے۔ انھوں نے بھی اسی انداز میں ایسا جواب دیا کہ طاہر القادری اپنے انقلاب سمیت نو دو گیارہ ہو گیا۔

طاہر القادری کی پہلی ریہرسل کے بعد ایک بار پھر کنٹینر میں بیٹھا کرعمران کے ساتھ جوڑی بنا کر ان کو اسلام آباد کی شاہراہ دستور کے ڈی چوک پر سیاسی کزن بن جانے کا اعلان کردیا گیا تو یہ آگ اور پانی کا ملاپ تھا جو صرف جادو سے ہی ممکن تھا۔ اس بار ڈرامہ ایک قدم اور آگے بڑھا دیا گیا قبریں کھودی گیئں، کفن تیار ہوئے اور وصیت نامے لکھے گئے۔ بچوں کا جنم یہی پر لگائے خیموں میں ہوا ، جنت میں داخلےاور دنیا میں غلبے کی بشارتیں دی گئیں۔ جب تمام راستے بند ہوگئے تو پارلیمان کا راستہ دن رات کھولے رکھا گیا اور سیاسی عمل جاری رہا۔ اچانک بستر لپیٹ دئے گئے، خیمے اکھاڑے گئے اور شیخ الاسلام اپنے کزن کو اسلام آباد کی سرد راتوں میں اکیلا دھرنا سجانے کے لئے چھوڑ کر ایک بار پھر اپنا اتہ پتہ بتائے بغیرغائب ہو گیا۔

ان دنوں آزادی مارچ کے نام پر ایک بار پھر اسلام آباد کی سڑکوں پر ہلچل ہے۔ ملک بھر سے لوگ جمع ہیں جن کی امامت حضرت فضل الرحمان جو اپنے نام سے منسوب جمیعت علمائے اسلام کے دھڑے کے سربراہ بھی ہیں کر رہے ہیں۔ میری مجبوری ہے کہ میں ہر تقریر سنوں کیونکہ ان کے لاؤڈ سپیکر کی آواز پر پابندی ابھی تک فردوس عاشق اعوان اور پیمرا کی دسترس سے باہر ہے ۔ کبھی گھر سے نکل کر کشمیر ہائی وے تک چلا جاتا ہوں اور ملک کے کونے کونے سے ہمارے شہر میں آئے مہمانوں سے بات چیت کر لیتا ہوں۔

کشمیر ہائی وے دو رویہ سڑک ہے جس کا ایک کیرج وے سو فٹ چوڑا ہے اور دوسرا سو فٹ کا ہے۔ اسلام آباد کا ہر سب سیکٹر ایک کلو میٹر لمبا اور ایک کلو میٹر چوڑا ہو تا ہے۔ سب سیکٹر جی نائن ون کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک اس مارچ کے شرکاء بغیر کرسیوں کے زمین پر ہی بیٹھے ہوئے ہیں۔ جی نائن ون کے اختتام کے بعد شرکاء کی گاڑیاں کھڑی ہیں۔ دوسری جانب پشاور موڑ کی طرف جی نائن ٹومیں اسٹیج کا کنٹینر اور اس کے سامنے انصار السلام کے سالار کا حصار ہے۔

دو سو فٹ چوڑی کشمیر ہائی وے کا رقبہ سب سیکٹر جی نائن ون کی حدود میں دو لاکھ مربع فٹ بنتا ہے۔ اس رقبے میں جتنے لوگ سما سکتے ہیں وہ اس مارچ کے شرکاء کا تخمینہ بنتا ہے۔ اگر دو مربع فٹ میں ایک آدمی کا حساب لگایا جائے اور ان انصار الاسلام کے رضا کار اور آس پاس کھڑے لوگوں کو اس میں شامل کیا جائے تو تعداد کا تخمینہ ایک سے ڈیڑھ لاکھ افراد کا بنتا ہے۔

میرے لئے ان لوگوں کی تعداد اہم نہیں جتنا یہاں آئے لوگوں کا عزم اور شعور اہمیت کا حامل ہے۔ اگر کسی بھی شخص سے بات کریں خاص طور پر بلوچستان سے آئے شرکاء سے تو معلوم یہ ہوتا ہے گو کہ ان میں بیشترلوگ اسلام آباد، لاہور اور کراچی میں پہلی بار آئے ہیں لیکن ملک کی سیاسی حرکیات کے بارے میں ہم سے زیادہ نہ صرف آگاہ ہیں بلکہ وہ اپنی ایک رائے بھی رکھتے ہیں۔

اس کی مثال یوں سامنے آئی جب ایک رپورٹر نے ایک شخص سے گفتگو کرتے ہوئے ان دنوں عام پوچھا جانے والا وہی سوال دہرایا کہ ًآزادی مارچ سے پہلے کسی نے پارلیمنٹ ، الیکشن کمیشن یا عدالتِ سے رجوع کیوں نہیں کیا؟ً جواب دینے والے نے حیرت سے سوال کرنے والے کی طرف دیکھا اور کہا ً ایک دو جگہوں پر شکایت ہوتی تو رجوع کیا جاسکتا تھا مگر پورے الیکشن کا سوال ہو تو رجوع کرنے کا کیا فائدہ؟ جب تک فیصلہ آئے گا یہ حکومت اپنی مدت آرام سے پوری کر چکی ہوگیً ۔ پوچھنے والا اپنا کیمرہ لپیٹ کر چلا گیا مگر میں اب تک سوچ رہا ہوں کہ جو بات لورا لائی کے ایک مدرسے کے طالب علم کو سمجھ میں آتی ہے وہ شہروں میں انگریزی بولتے دانشوروں اور اینکروں کو سمجھ میں آتی نہیں یا جان بوجھ کر سمجھنا نہیں چاہتے۔

ملک کے کونے کونے سے آئے یہ لوگ ایک ضابطے کے تحت اپنے متعلقہ امیر کی زیر قیادت و نگرانی ہوتے ہیں۔ رات نو بجے سڑک کے کنارے سبزے، میٹرو بس کے ڈپو اور جلسے کے میدان میں ہی سو جاتے ہیں۔ صبح اذان کے ساتھ بیدار ہوتے ہیں اور نماز پڑھنے کے بعد ان کے دن کا آغاز ہو جاتا ہے۔ بعض اپنے رشتے داروں کے پاس بھی چلے جاتے ہیں، گھومنے پھرنے بھی نکلتے ہیں مگر جیسے ہی جلسہ شروع ہو جاتا ہے جلسہ گاہ میں حاضر ہو جاتے ہیں۔ ہمارے گھروں کے پاس یہ جلسہ جاری ہے مگر ابھی تک کسی قسم کی شکایت نہیں آئی اور نہ ہی کسی کو بلا وجہ کہیں محلے گلیوں میں گھومتے پھرتے دیکھا گیا ۔

آزادی مارچ کے روح رواں فضل الرحمان صاحب نے اپنے مطالبات کی منظوری کے لئے دو دن کا الٹی میٹم دینے کے بعد اگلی منزلوں کی طرف روانگی کا اشارہ دیا ہے۔ ہماری طرح مارچ کے شرکاء کو بھی نہیں معلوم کہ اگلی منزل کون سی ہوگی اور ان کا سفر کتنا کھٹن ہوگا مگر ان کو کامل یقین ہے کہ اپنے امیر الامراء کے حکم کی تعمیل میں ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

آزادی مارچ کے شرکاء کی سلامتی کی ذمہ داری نہ صرف ان کے امیراور منتظمین پر عائد ہوتی ہے بلکہ حکومت اور مقتدر قوتوں پر بھی لازم ہے کہ ملک کے طول و عرض سے آزادی مارچ کے نام پر دارالحکومت آئے لوگوں کی واہسی ایک اچھے احساس اور تصور کے ساتھ ممکن بنا دیں تاکہ ریاست اور شہریوں کے بیچ رشتے مضبوط ہوں جو کسی ملک کے طاقت کی اصل ضمانت ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ وفاق اور صوبوں، ریاست اور شہریوں، حکمرانوں اور عوام کے مابین فاصلے اور بڑھ جائیں اور رشتے کمزور ہو جائیں۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan