فوج کی خواہش پر حکومت اور اپوزیشن میں پیش رفت


آزادی مارچ کا تسلسل، پاک فوج کی 226 ویں کور کمانڈر کانفرنس کا اعلامیہ اور حکومتی کمیٹی کی اپوزیشن کی رہبر کمیٹی سے ملاقات کے بعد دوبارہ ملنے کا وعدہ، آج وقوع پذیر ہونے والے اہم ترین واقعات ہیں۔ ان میں سب سے اہم کور کمانڈر کانفرنس کے بعد جاری ہونے والا اعلامیہ ہے جس میں آئین کے مطابق ’تمام قومی اداروں کی حمایت‘ جاری رکھنے کا اعلان کیا گیا ہے لیکن آئی ایس پی آر کے جاری کردہ مختصر اعلامیہ کی آخری سطر میں ’ اہم قومی معاملات پر تمام اسٹیک ہولڈرز کے درمیان ہم آہنگی دشمن کو شکست دینے کے لئے ضروری ‘ قرار دی گئی ہے۔
یہ سمجھنے میں غلطی کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ کور کمانڈرز کانفرنس کے اعلامیہ میں دیے جانے والا مشورہ ہی دراصل حکومت کے نمائیندوں کی اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کے ساتھ ملاقات کا محرک ثابت ہؤا ہے۔ اس ملاقات میں حکومتی کمیٹی کے سربراہ پرویز خٹک کا رویہ جارحانہ کی بجائے مفاہمانہ تھا اور انہوں نے یہ اصرار کرنا ضروری نہیں سمجھا کہ اپوزیشن کی طرف سے وزیر اعظم کے استعفیٰ اور نئے انتخابات کے مطالبات پر بات نہیں ہوسکتی۔ دوسری طرف جمیعت علمائے اسلام کے نمائیندے سینیٹر عبدالغفور حیدری نے صحافیوں کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے وزیر اعظم کے استعفیٰ کے بارے میں کہا کہ ’مصالحت کرتے ہوئے کچھ مطالبات منوا کر کچھ رعایت دینا پڑتی ہے‘۔ اپوزیشن اگر پارلیمنٹ کو فیصلوں کا محور بنوانے کا مطالبہ منوا کر وزیر اعظم کے استعفیٰ کا مطالبہ واپس لے لیتی ہے تو یہ مہنگا سودا نہیں ہوگا۔ اس وقت قومی سطح پر یہ اتفاق رائے موجود ہے کہ آزادی مارچ کے نتیجہ میں انتشار کو دعوت دینے کی بجائے مفاہمت و مصالحت کا راستہ تلاش کرنا ہی سب سے بہترین طریقہ ہوگا۔ حکومت اپنا رویہ تبدیل کرے اور اپوزیشن احتجاج اور دشنام طرازی کی بجائے قومی مسائل حل کرنے میں مثبت کردار ادا کرنے کا آغاز کرے۔
اس وقت تک پارلیمانی تعطل اور حکومت و اپوزیشن کے درمیان محاذ آرائی کی سب سے بڑی وجہ حکومت کا غیر مصالحانہ رویہ اور عمران خان کی طرف سے ’این آر او‘ نہیں دوں گا کی تکرار تھا۔ گزشتہ برس ہونے والے انتخابات کے بعد حکومت سنبھالنے والی تحریک انصاف اور اپوزیشن کی تمام اہم پارٹیاں کسی اصولی معاملہ پر ایک دوسرے سے برسر پیکار نہیں رہیں۔ بلکہ اختلاف کی بنیاد ضد، عناد، شخصیت پرستی اور باہمی اعتماد کا فقدان تھا۔ عمران خان نے حکومت سنبھالنے اور ’ایک پیج‘ کی طاقت کا اندازہ کرنے کے بعد اپوزیشن کے بارے میں سخت گیر اور عدم تعاون کا طرز عمل اختیار کرنا ضروری سمجھا۔ ملک کی اہم اپوزیشن پارٹیوں کی قیادت کے خلاف کارروائیوں کے علاوہ حکومت نے آئین کے تقاضوں کے مطابق بھی اپوزیشن کے ساتھ تعاون سے گریز کیا۔
اس کی سب سے نمایاں مثال الیکشن کمیشن آف پاکستان کے دو نمائندوں کی تقرری کا معاملہ رہا۔ وزیر اعظم نے آئین کے تحت اپوزیشن لیڈر سے مشاورت کرنے اور مل جل کر سندھ اور بلوچستان کے نمائندوں کی خالی ہونے والی نشستوں پر نامزدگی کا آئینی طریقہ اختیار کرنے کی بجائے یک طرفہ طور سے صدر کے ذریعے ان دو خالی جگہوں کو پر کرنےکے لئے صدارتی نوٹی فیکیشن جاری کردیا گیا۔ اس پر الیکشن کمشنر نے اگست میں اس صدارتی حکم کے تحت نامزد ہونے والے ارکان سے حلف لینے سے انکار کیا اور کہا کہ یہ تقرری آئین کی متعلقہ شقوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کی گئی ہے۔ آج اسلام آباد ہائی کورٹ نے صدارتی حکم کو معطل کرتے ہوئے چئیرمین سینیٹ اور اسپیکر قومی اسمبلی کو یہ معاملہ پارلیمنٹ میں حل کرنے کا مشورہ دیا ہے۔
تعاون کی بجائے مقابلہ بازی اور الزام تراشی کے اس ماحول میں یوں لگتا رہا ہے کہ حکمران اور اپوزیشن لیڈر سب مل کر اپوزیشن کا رول ہی ادا کرنے پر اصرار کررہے ہیں۔ نہ حکومت تحمل اور سیاسی سمجھ بوجھ کا مظاہرہ کرنے پر تیار تھی اور نہ اپوزیشن نے کسی حد تک پارلیمنٹ کو فعال بنانے کے لئے مثبت کام کرنے کی ضرورت محسوس کی۔ تصادم کی اس فضا میں پیدا ہونے والے سیاسی خلا میں مولانا فضل الرحمان کی قیادت میں ایک چھوٹی سیاسی جماعت نے آزادی مارچ کے نام پر ایک بڑا ہجوم اسلام آباد میں جمع کرلیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی قیادت نہ چاہتے ہوئے بھی اس احتجاج کی تائید کرنے پر مجبور ہیں اور حکومت بھی دھمکیوں اور تمسخر اڑانے کے بعد اب مذاکرات کرنے اور بیچ کا کوئی راستہ نکالنے پر آمادہ نظر آتی ہے۔ اگر فریقین نے اسی مزاج کے ساتھ پیش رفت جاری رکھی تو ایک دو روز میں اسلام آباد کا احتجاج ختم ہونے کا امکان پیدا ہوچکا ہے۔
ملک میں ایسے ’باخبر‘ صحافیوں اور اینکرز کی کمی نہیں ہے جو ’اندر ‘ کی خبر نکال لانے میں ید طولیٰ رکھتے ہیں لیکن حکومت اور اپوزیشن کے درمیان باہمی احترام اور مفاہمانہ لب و لہجہ پر غور کرتے ہوئے ، کسی سراغ رساں رپورٹر کی خدمات حاصل کرنا ضروری نہیں بلکہ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی طرف سے 226 ویں کور کمانڈر کانفرنس کے بعد جاری ہونے والے اعلامیہ کو بغور پڑھنے سے بہت سے راز از خود فاش ہوجاتے ہیں۔ آزادی مارچ اور حکومت و اپوزیشن کے مناقشہ کی صورت حال کو کور کمانڈر کانفرنس نے ان دو فقروں میں سمیٹ دیا ہے:
1)پاک فوج آئین کے مطابق تمام قومی اداروں کی حمایت جاری رکھے گی۔
2)اہم قومی معاملات پر تمام اسٹیک ہولڈرز کے درمیان ہم آہنگی دشمن کو شکست دینے کے لئے ضروری ہوگی۔
سب سے پہلے تو یہ بات نوٹ کرنے کی ضرورت ہے کہ اس اعلامیہ میں اس ضد اور انتباہ کی جھلک موجود نہیں ہے جس کا تاثر دو روز قبل آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور کے بیان میں دیا گیا تھا۔ انہوں نے مولانا فضل الرحمان کی طرف سے انتخابات میں اداروں کی مداخلت کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ مولانا سینئر اور ذمہ دار لیڈر ہیں ، انہیں وضاحت کرنی چاہئے کہ وہ کس ادارے کی بات کررہے ہیں۔ انہوں نے اپوزیشن کو یہ مشورہ بھی دیا کہ وہ سڑکوں پر احتجاج کرنے کی بجائے اپنی شکایت لے کر متعلقہ ادارے کے پاس جائیں۔ میجر جنرل آصف غفور نے متنبہ کیا تھا کہ ملک میں انتشار پیدا کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
اس بیان پر حکومت نے سکھ کا سانس لیتے ہوئے اپوزیشن کے بارے میں سخت گیر رویہ جاری رکھااور مولانا فضل الرحمان نے اسے سیاسی بیان قرار دے کر مسترد کردیا تھا۔ انہوں نے کہا تھاکہ پاک فوج کے ترجمان نے فوج کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی ہے۔ تاہم دو روز بعد آج کور کمانڈر کانفرنس کے اعلامیہ میں فوج نے بظاہر اپنے ترجمان کے بیان سے پسپائی اختیار کی ہے۔ اس میں اگر آئین کے مطابق قومی اداروں (یعنی حکومت) کی حمایت جاری رکھنے کی بات کہی گئی ہے تو ساتھ ہی دشمن سے نبرد آزما ہونے کے لئے ’اسٹیک ہولڈرز‘ (حکومت و اپوزیشن) کو ہم آہنگی پیدا کرنے کا مشورہ بھی دیا گیا ہے۔ پرویز خٹک اسی ’ہم آہنگی‘ کے لئے آج اکرم درانی کے گھر پہنچے ۔ ان کے مطالبات سنے ، اپنی گزارشات پیش کیں اور کل دوبارہ ملنے کا وعدہ کرکے چلے گئے۔ دوسری طرف اپوزیشن نے ’کچھ لو اور کچھ دو‘ کے اصول کو ماننے کا اعلان کرتے ہوئے ڈی گراؤنڈ کی طرف جانے سے گریز کیا ہے۔ اس طرح براہ راست تصادم سے معاملہ اب بات چیت تک پہنچ گیا ہے۔ فوج نے اگر فریقین کو ’غیر جانبدار‘ رہنے کی یقین دہانی کروائی ہے تو ایک دو روز میں حکومت اور اپوزیشن میں مفاہمت پیدا ہونے کے امکانات روشن ہو چکے ہیں۔
کور کمانڈر کانفرنس کے ہدایت نامہ کا کمال ہے یا مولانا فضل الرحمان کی جادو بیانی کا ، کہ آزادی مارچ کے مستقبل کالائحہ عمل تیار کرنے کے لئے بلائی گئی آل پارٹیز کانفرنس میں اگرچہ شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری تو شریک نہیں ہوئے لیکن اپوزیشن کی ’سب پارٹیوں نے احتجاج‘ جاری رکھنے اور مولانا کا مکمل ساتھ دینے کا اعلان کردیا۔ اسی لئے مولانا نے رات گئے آزادی مارچ کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن میں افتراق اور اختلاف کی سب افواہیں دم توڑ گئی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ معنی خیز جملہ بھی کہا ہے کہ ’عمران خان پہلے نامزد (سیلکیٹڈ) تھا اب مسترد (ری جیکٹڈ) ہوچکاہے۔ عمران خان کو اگر فوج سے مسترد کروانا ہی آزادی مارچ کا مقصود تھا تو شاید مولانا کا یہ بیان آدھا سچا ہو لیکن یہ ان کے گزشتہ دنوں کے دوران سامنے آنے والے ان مطالبوں سے یو ٹرن لینے کے مترادف ہے کہ فوج سیاست میں مداخلت بند کرے اور ادارے اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے کام کریں۔
آج ملک کے سیاسی منظر نامہ پر ابھرنے والے اشارے تو یہی کہانی سنا رہے ہیں کہ ہم ہوئے ، تم ہوئے کہ میر ہوئے / اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے۔ کور کمانڈر کانفرنس کے اعلامیہ کا ایک جملہ، بھاری بھر کم تقریروں ، بلند بانگ دعوؤں اور سینکڑوں میل کا سفر کرکے آنے والے ہزاروں لوگوں کی تکلیفوں پر بھاری رہا۔ عسکری ہدایت نامہ کے بعد حکومت اور اپوزیشن کی پھرتیاں اس اندیشے کو یقین میں بدلتی ہیں کہ ’ووٹ کو عزت دو‘ کا سفر ابھی بہت طویل ہے۔ اس نعرے کی تفہیم کے لئے ابھی ایک پوری نسل کو خون جگر جلانا پڑے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali