مولانا کا پیش کردہ شارٹ کٹ اور جمہوریت کے نادان عاشق


دیکھنے میں فارمولا تو بہت سادہ ہے۔ نواز لیگ جمہوری قوتوں اور عمل کی نمائندہ ہے۔ اگر مولانا کے ساتھ یہ قدم سے قدم اور کندھے سے کندھا ملائے تو بیڑے پار۔ گمان سے بھی زیادہ فوائد اور کامیابی بالکل صاف سامنے دھری ہے۔ پانامہ کے کیس کے بعد سے آج مریم نواز کی ضمانت تک ، شریف فیملی اور وابستگان کے خلاف کوئی ایک بھی کیس شفاف اور آزاد ٹرائل کے سامنے ٹک نہیں سکا۔ خنیف عباسی کو رات بارہ بجے سزا سُنانے کے بعد جس خاموشی سے رہائی نصیب ہوئی کیسز کے میرٹ پر یہ رہائی ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ فواد حسن فواد، احد ملک، حمزہ شہباز ، شاہد خاقان عباسی، ایک لمبی فہرست ہے جن پر کیسز کی بھرمار ہے ۔ ایک میں ضمانت ہوتی نہیں اور دوسرا کیس پہلے سے تیار مگر نیتجہ۔۔۔۔ صفر۔

ان مشکل حالات میں مولانا کی جانب سے مارچ اور دھرنا ن لیگ کے لئے ایک غیبی امداد نہیں تو اور کیا ہے۔ آج اگر ن لیگ اپنا وزن مولانا کے پلڑے میں ڈال دے توسارے مسائل سے فوری چھٹکارا۔ درجنوں، بیسیوں دلائل اس ضمن میں دئیے جا سکتے ہیں مگر ایک سوال جو ان دلائل سے زیادہ اہم ہے۔ اور وہ یہ کہ اگر مولانا کے قدم اُٹھانے، مولانا کے قدم بڑھانے اور مولانا کی افرادی قوت کے سر پر ن لیگ کے معرکہ جیتنے کے بعد ہیرو چُننے کی باری آئے گی تو ہیرو بنے گا کون ؟ظاہر ہے ” مولانا فضل الرحمان”۔ کیا ن لیگ قیادت اور اراکین کی سیاست کا محور یہ ہے کہ وہ مولانا فضل الرحمان کو ہیرو بنا دیں؟ کیا کوئی بھی سیاسی جماعت اس لئے سیاست کرتی ہے کہ صعبتیں اور قید وبند برداشت کرنے کے بعد ہیرو بننے کریڈٹ کلیم کرے کی باری آئے تو وہ کسی اور کو آگے کر دے ؟ کیا ایسے بھی سادہ ہمارے ہاں موجود ہیں جو دل سے ایسا سمجھتے ہیں؟

پہلے دن سے نواز شریف حکومت گرانے کے مخالف ہیں چونکہ انکے مطابق جو حکومت خود اپنے بوجھ سے گر رہی ہو اسے دھکا دے کر بُرا بننے کی کیا ضرورت ہے؟ اس سے زیادہ اہم حقیقت یہ ہے کہ پچھلے الیکشن سے پہلے چور اور ڈاکو کا جو ماحول بنا اور جس بُرے طریقے سے ن لیگ کو سنگل آؤٹ کرنے کے بعد کرپٹ، سٹیٹس کو کا نمائندہ اور تبدیلی کی راہ کی بنیادی رکاوٹ کے طور پر پیش کیا گیا اسکے بعد منطقی طور پر یہ ضروری ہے کہ لوگ اگزاسٹ ہوں۔ لوگوں کو تجربے سے یہ سمجھ آئے کہ نعرے مارنے اور دوسرے پر الزام تراشی سے کارکردگی کو ممکن نہیں بنایا جا سکتا۔ کارکردگی کی سائنس فرق ہے اور اب عمران خان کے پاس یہ موقع ہے کہ وہ کر کے دکھا دے۔ چونکہ ابھی تک ایسا کچھ ہوتا نظر نہیں آیا لہذا صبر کے ساتھ انتظار کی نواز پالیسی قابل فہم ہے۔

بلاول بھٹو کے مطابق خواتین کے حوالے سے مولانا کی جماعت کا رویہ اور نقطہ نظر، مذہبی افکار اور بنیاد پرستانہ تصورات پر مبنی سیاسی ویژن کسی بھی طرح پیپلز پارٹی کی سوچ سے ہم آہنگ نہیں۔ ساتھ ہی ساتھ وزیر اعظم کا استعفی پیپلز پارٹی کو بھی سوٹ نہیں کرتا چونکہ فوری الیکشن میں پارٹی کے جیتنے کے امکانات ناپید ہیں۔

اسکے باوجود مولانا کا مارچ پر ڈٹ جانا اور کثیر تعداد میں لوگوں کو لے کر اسلام آباد جا بیٹھنا بنیادی طور پر ایک آزاد اور خودمختار فیصلہ معلوم ہوتا ہے۔ بظاہر مولانا یہ تاثر دیتے ہیں کہ سیاسی جماعتیں انکے ساتھ دوہرے رویہ اختیار کر رہی ہیں مگر حقیقت میں مولانا کا ڈیزائن، مولانا کے مقاصد اور مولانا کی حکمت عملی ایک آزاد عمل ہے جسے دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کی حمایت یا مخالفت سے الگ دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔

ابھی تک یہ فیصلہ کرنا بڑا مشکل ہے کہ کس سازشی نظریے کی روشنی میں مولانا کی اس پریڈ کو دیکھا جائے مگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ وعدے وعید یا ان وعدوں کی پاسداری نا کرنے جیسے الزامات یا تاثر خالیہ صورتحال کو سمجھنے کے لئے ناکافی اور گمراہ کُن ہیں۔

چونکہ بہت سے لوگ جمہوریت اور سیاسی عمل کے تسلسل کو مولانا کے آفر کردہ شارٹ کٹ کیے ذریعے حاصل کرنے پر آمادہ ہیں جس کی وجہ طبیعتو ں میں پایا جانے والا جلدی اور شارٹ کٹ کا عنصر ہے۔ پاکستان میں جمہوری عمل کا تسلسل جمہوری روایات کی آبیاری اور انتخابات میں شفافیت اور آزادی ایک ایسا مقصد ہے جو ایک دم سے کسی شارٹ کٹ کے ذریعے حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ اس لئے جمہوریت سے محبت کرنے والے نسبتاً اتاولے دوستوں سے صبر اور انتظار کی درخؤاست ہے۔ بہتر ہو گا کہ مولانا سے نا تو بہت زیادہ امیدیں وابستہ کی جائیں اور ساتھ ہی ساتھ نا اُمیدی سے بھی خؤد کو بچایا جائے۔ آنے والے کچھ دنوں یا ہفتوں میں خؤد بخود پتہ چل جائے گا کہ مولانا کا گرینڈ ڈیزائن اصل میں کیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).