فرانکو زیفی ریلی  کی فلمیں اور اوپرا


فرانکو زیفی ریلی سے میرا تعارف بروک شیلڈز نے کرایا تھا۔میرے کہنے کا یہ مطلب نہیں کہ بروک شیلڈز میری دوست تھی جومجھے فرانکو کے پاس لے گئی۔ فرانکو زیفی ریلی جو پندرہ جون دو ہزار انیس کو چھیانوے برس کی عمر میں وفات پا گئے اطالوی فلموں اور اوپرا کے بادشاہ تھے۔
یہ انیس سو اسی کے اوائل کی بات ہے جب بروک شیلڈز جیسی حسینہ پر کالج کے بہت سے لڑکے فدا تھے اور کالج کی کلاسیں چھوڑ کر بلو لیگون اور اینڈلیس لو (End less love) جیسی فلمیں دیکھنے جایا کرتے تھے۔ اس وقت تک ہم نے انگرڈ برگ مین اور صوفیہ لورین جیسی مایہ ناز اداکاراﺅں کی فلمیں نہیں دیکھی تھیں اسی لیے ہمیں بروک شیلڈز ہی سب سے خوبصورت لگتی تھی۔ فرانکوزیفی ریلی اینڈلیس لو کے ہدایت کار تھے۔ یہ فلم ان کی کوئی بہترین فلم نہیں تھی پھر بھی ہم نوجوانوں کو اچھی لگتی تھی۔

 اس وقت کراچی میں بے شمار سینما تھے اور صرف صدر کے آس پاس ایک دو کلومیٹر کے علاقے میں ہی ایک درجن سے زیادہ سینما گھر تھے۔ مثلاً بامبینو، کیپری، کیپٹول، لائٹ ہاﺅس، لیرک، ناز، نشاط، پیلس، پلازہ، پرنس، پرنسیس، اوڈین، ریگل، ریکس، ریو، پیراڈائز، اسکالا اورکئی دوسرے۔

 ان کے علاوہ بیرونی سفارت خانوں کے کتب خانے بھی تھے مثلاً امریکن سینٹر اور برٹش کونسل کے کتب خانے جہاں نہ صرف ہزاروں کتابیں تھیں بلکہ انسائی کلو پیڈیا اور ویڈیو کیسٹ کا خزانہ بھی تھا۔ نئے نئے آنے والے وڈیو کیسٹ نے گھروں میں فلمیں دیکھنا ممکن بنا دیا تھا۔

فرانکو زیفی ریلی کے کام اورزندگی کے بارے میں تجسس مجھے ان کی مزید دو فلموں تک لے گیا جو شیکسپیئر کے ڈراموں پر مبنی تھیں۔ یعنی 1968ءمیں بننے والی فلم رومیو اور جولیٹ اور 1967 کی فلم (The Taming of the shrew) یہ دونوں فلمیں شیکسپیئر کے ڈراموں کی بہترین عکاسی کرتی ہیں۔ گوکہ رومیو جولیٹ پر کئی فلمیں بن چکی ہیں لیکن اس فلم کو اب تک ایک کلاسک فلم کا درجہ حاصل ہے۔ اسی طرح ٹیمنگ آف دا شرو میں الزبتھ ٹیلر اور رچرڈ برٹن نے شاندار کردار نگاری کی ہے۔ یہ دونوں اس وقت اپنے عروج پر تھے۔ گوکہ شیکسپیئر کے کئی ڈراموں پر اب صنفی لحاظ سے تنقید بھی کی جارہی ہے لیکن پھر بھی یہ آج تک ناظرین میں مقبول ہیں۔

فرانکو زیفی ریلی نے صرف پیار محبت کے موضوعات پر ہی فلمیں نہیں بنائیں۔ تاریخی واقعات اور شخصیات پر بھی ان کی کئی فلمیں اور ٹی وی سیریز خاصی معلوماتی ہیں۔ مثلاً ان کی ایک فلم برادر سن، سسٹر مون جو 1972 میں بنی سینٹ فرانسیس آف اسیسی (Saint Francis of Assisi) کے بارے میں ہے جو تیرہویں صدی عیسوی کے ایک مال دار تاجر کے بیٹے تھے مگر روحانیت کے زیر اثر عیش و عشرت کی زندگی سے تائب ہوگئے تھے۔ زیفی ریلی نے اس فلم کو قدیم کلیساﺅں میں فلمایا ہے جنہیں دیکھ کر آپ تقریباً ہزار سال پہلے کے یورپ کی زندگی کو سمجھ سکتے ہیں۔ اگر آپ اس دور کے بارے میں مزید جاننا چاہتے ہیں تو ایک اور فلم (The Name of The Rose) ہے جس میں شان کونری کی شاندار اداکاری ہے۔ یہ فلم اطالوی مصنف امبرتوایکو کے ناول پر مبنی ہے۔

اسی طرح فرانکو کی ایک ٹی وی منی سیریز کا نام جیزز آف نزارتھ (Jesus of Nazareth) ہے جو 1977 میں پیش کی گئی تھی۔ اس کے لکھنے والوں میں مشہور مصنف انتھونی برگیس شامل تھے جن کے ایک ناول ”کلاک ورک اورینج“ پر اسٹینلے گبرگ 1971ءمیں فلم بنا چکے تھے۔

فرانکو زیفی ریلی کی ایک اور فلم اسپیرو یا چڑیا ہے جو 1993ءمیں بنائی گئی ۔ اس کی کہانی بھی ایک اطالوی مصنف گیووانی ورگا (Verga) کے ناول سے ماخوذ ہے۔ اس فلم میں اکیسویں صدی کا سسلی دکھایا گیا ہے جہاں ہیضہ پھیل چکا ہے۔ ایک سولہ سالہ لڑکی اپنا اسکول چھوڑ کر گھر جانے پر مجبور ہوجاتی ہے تاکہ ہیضے کی وباءسے بچ سکے۔ گھر کے پڑوس میں ایک لڑکے سے اسے محبت ہوجاتی ہے مگربالآخر اسے اپنی محبت قربان کرکے اپنے اسکول واپس جانا پڑتا ہے۔

مصنف ورگا کی ایک اور کہانی ”دیہاتی بہادری“ یا (Rustic Chivalry) ہے جس پر ایک اور اطالوی اوپرانگار مسکانی اے (Mascagni) نے ایک اوپرا لکھا اور پھر اس پر زیفی ریلی نے فلم بنائی۔ یہ کہانی بھی سسلی کے ایک گاﺅں میں چلتی ہے جہاں کی دیہی زندگی کی فلم میں بہترین عکاسی کی گئی ہے اور فلم دیکھتے ہوئے ایسا معلوم ہوتاہے کہ آپ خود اسی گاﺅں میں رہ رہے ہیں۔ اگر آپ مغربی موسیقی کے شوقین ہیں تو یقینا آپ کو اوپرا کے گانے پسند آئیں گے۔

اگر آپ اٹلی کے بارے میں مزید کچھ دیکھنا چاہیں تو برٹ لنکاسٹر اور ایلسن ڈیلوں کی فلم دی لیپرڈ The Leopard ضرور دیکھیں جو 1963ءمیں زیفی ریلی کے استاد لوکی نوو یس کونٹی (Luchino visconti) نے بنائی تھی۔ اٹلی میں اشرافیہ یا ارسٹو کریسی کے زوال پر یہ ایک بہت اچھی فلم ہے۔

زیفی ریلی نے اپنے فلمی سفر کا آغاز ویس کونٹی کی سرپرستی میں کیا تھا۔ جب 1948ءمیں ویسی کونٹی اپنی فلم Terra Trema بنا رہے تھے جس میں زیفی ریلی نے ویس کونٹی کے نائب ہدایت کار کی حیثیت سے کام کیا تھا۔ ویس کونٹی کو اطالوی سینما کی جدید حقیقت نگاری کا بانی سمجھا جاتا ہے۔ کیوں کہ وہ سینما، اوپرا اور تھیٹر تینوں میں اپنے اثرات چھوڑ رہے تھے اور زیفی ریلی کو بھی ان تینوں سے ہی شغف پیدا ہوا۔


اب ہم اوپرا کی طرف آتے ہیں۔ گوکہ زیفی ریلی کاکام بڑا وسیع ہے۔ یہاں ہم صرف ان اوپرا کا ذکر کریں گے جن کے خاص سیاسی و سماجی پیغام بہت وسیع ہیں۔ اطالوی اوپرا نگاروں میں پوچی نی (Puccini) کا بڑانام ہے۔ ان کے تین اوپرا بہت مشہور ہوئے جن کو ریفی ریلی کی ہدایت کاری میں بار بار پیش کیا گیا۔ ان میں سے ایک اوپراکا نام ہے ٹوسکا (Tosca) جو 1800 کے لگ بھگ کے روم کی کہانی پیش کرتا ہے۔ دوسرا اوپر لابوہیم (La boheme) ہے جس میں 1830ءکے پیرس کی کہانی ہے اور تیسرا مادام بٹر فلائی ہے جو انیسویں صدی کے اواخر میں ناگا ساکی تصویر پیش کرتا ہے۔ یہ تینوں اوپرا یوٹیوب پر موجود ہیں اور مفت دستیاب ہیں۔
ٹوسکا روم کے ایک سیاسی قیدی کی کہانی ہے۔ اس وقت روم پر تشدد اور خوف کا راج ہے۔ ری پبلکن گروہ پسپائی کا شکار ہے اور شاہ پرست حملہ آور زور آور ہیں۔ اسکارپیا نامی ایک جنرل ہے جو خفیہ پولیس کا سربراہ ہے اور کٹر شاہ پرست ہے۔ یہ جنرل چن چن کر جمہوریت پسندوں کو جیلوں میں ٹھونستا ہے اور تشدد کا نشانہ بناتا ہے۔ ایک قیدی کسی طرح فرار ہوکر اپنے ایک فن کار دوست کے پاس پناہ لیتا ہے۔ اب یہاں سے فن اور آزادی کی تڑپ کا تعلق دکھایا گیا ہے۔ اس اوپرا کو پڑھ کر یا دیکھ کر آپ ضرور پاکستان کے حالات کو یا د کریں گے۔
دوسرااوپر”لابوہیم“ آپ کو 1830ءکے پیرس لے جاتا ہے۔ اس اوپرا کے چار مرکزی کردار ہیں ایک پینٹر مارسیلو، ایک شاعر روڈ ولفو، ایک فلسفی شانارڈ اور ایک موسیقار۔ پھر ایک کنجوس مالک مکان ہے اور ایک سلائی کرنے والی لڑکی میمی۔ ان کرداروں کے ساتھ آپ سوچ سکتے ہیں کہ اوپرا میں کیا کچھ ہوگا۔

جب اوپر اشروع ہوتا ہے تو پہلے منظر میں ہم دیکھتے ہیں کہ غریب فن کار مارسیلو اور شاعر روڈ ولفو خود کوکرسمس کی شام سردی سے بچانے کے لیے روڈ ولفو کے لکھے ہوئے ڈرامے کے صفحات پھاڑ پھاڑ کر آگ میں جھونکتے ہیں۔ پھر فلسفی بھی اپنی کتابیں لے کر آجاتا ہے اور انہیں بھی پھاڑ پھاڑ کر آتش دان میں پھینکنے پرمجبور ہوجاتا ہے۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ جب ملک پر عوام دشمن قوتوں کا راج ہوتو ڈراما، شاعری اور فلسفہ سب آگ میں جھونک دیے جاتے ہیں۔

اب آخر میں مادام بٹرفلائی کا کچھ ذکر جو بڑی عالمی طاقتوں پر ایک کڑا طنز ہے۔ امریکی بحریہ کا ایک افسرناگا ساکی میں ایک جاپانی عورت سے شادی کرتا ہے اور پھر اپنی حاملہ بیوی کو چھوڑ کر امریکا واپس چلا جاتا ہے۔ جب وہ واپس آتا ہے تو اس کی جاپانی بیوی سے ہونے والا بیٹا تین سال کا ہوچکا ہے لیکن امریکی افسر اپنے ملک سے اپنی امریکی بیوی کو بھی لے کر آتا ہے۔ اس پر جاپانی عورت کا دکھ دیکھنے والا ہے۔

اسی طرح کی کہانی پر جنگ ویت نام کے پس منظر میں ایک ڈرامہ ”مس سائیگان“ بھی لکھا گیا تھا۔ اور پھر 1993 ءمیں ایک ہالی ووڈ فلم بھی بنی تھی جس کا نام ہے ہیون اینڈ ارتھ (Heaven and Earth) اور جس کی ہدایات مشہور ہدایت کار اولیور اسٹون نے دی تھیں۔
یہاں بھی ہمیں پاکستان جیسے ممالک سے مماثلت نظر آتی ہے۔ جہاں دہشت گرد پیدا کرنے والا باپ واپس چلا جاتا ہے۔ ماں بچے پالتی ہے اور دکھ جھیلتی ہے اور بالآخر خود کشی کے دہانے پر پہنچ جاتی ہے۔
یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ کراچی، لاہور، فیصل آباد کے شہروں میں ایک بھی اوپرا ہاﺅس نہیں ہے جہاں ایسی فن کارانہ پیش کشیں دکھائی جاسکیں۔ ہم نے اپنی نسلوں کو فن ثقافت اور تاریخ سے بالکل دور رکھا ہے۔ پون صدی سے ہم اسلحہ اور گولہ بارود بنا رہے ہیں۔ جنگی ہیرو کے نغمے گا رہے ہیں اور طبلِ جنگ بجا رہے ہیں۔ اسی لیے ہم میں کوئی فرانکو زیفی ریلی نہیں ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).