افغانستان، پاکستان تعلقات میں کشیدگی: کابل میں پاکستانی سفارت خانے کی بندش کے پیچھے کیا کہانی ہے؟


پاکستان

کابل میں پاکستانی سفارت خانہ جو حکومتِ پاکستان نے غیر معینہ مدت کے لیے بند کر دیا ہے

پاکستان نے پڑوسی ملک افغانستان کے دارالحکومت کابل میں واقع اپنے سفارت خانے کے ویزہ سیکشن کو غیر معینہ مدت تک بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس اعلان کے بعد افغان شہریوں کو ویزے کا اجرا بھی روک دیا گیا ہے۔ اسلام آباد کی طرف سے ویزہ سیکشن کی بندش کی وجہ سکیورٹی خدشات بتائے گئے ہیں۔

یہ اعلان ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب حال ہی میں کابل میں افغان حکام کی طرف سے پاکستانی سفارت کاروں کو ہراساں کرنے کے دو واقعات پیش آئے۔

اس کے علاوہ چند دن پہلے پاک افغان سرحد پر دونوں ممالک کی افواج کی طرف سے فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوا جس میں پاکستانی علاقوں میں پانچ افراد زخمی ہوئے تھے۔

اشرف غنی پاکستان میں: پاک افغان تعلقات بہتر ہو سکیں گے؟

پاکستان، افغانستان کا مشترکہ مقاصد کے لیے تعاون پر اتفاق

افغان طالبان: ’پاکستان دعوت دے تو جائیں گے‘

پاکستانی سفارت خانہ کیوں بند ہوا؟

کابل میں پاکستانی سفارت خانے کی طرف سے جاری کردہ ایک مختصر بیان میں کہا گیا کہ سکیورٹی خدشات کے باعث پیر سے ویزہ سکیشن بند جا رہا ہے، تاہم اس بیان میں مزید وضاحت نہیں کی گئی۔

سفارت خانہ

پاکستان جانے کے لیے ویزہ حاصل کرنے کے کی تگ و دو کرنے والے افغان شہری کابل میں پاکستانی سفارت خانے کے باہر انتظار کرتے ہوئے

دو دن قبل افغانستان میں تعینات پاکستانی سفارت کاروں کی طرف سے الزام لگایا گیا تھا کہ کابل میں افغان حکام انھیں ہراساں کر رہے ہیں اور کئی مرتبہ پاکستانی سفارت کاروں کی گاڑیوں کو زبردستی روک کر انھیں واپس سفارت خانے جانے کو کہا گیا ہے۔

پاکستانی حکام کی طرف سے اس ضمن میں ذرائع ابلاغ کو ایک وڈیو کلپ بھی جاری کی گئی تھی جس میں افغان حکام پاکستانی ڈپٹی ہیڈ آف دی مشن حسن وزیر اور ایک اور سفارت کار کی گاڑی کو روکتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

پاکستانی سفارت کاروں کے مطابق کابل میں انھیں سفارت خانے سے باہر جانے کی آزادانہ اجازت بھی نہیں دی جارہی جس سے انھیں کئی قسم کی مشکلات کا سامنا ہے۔

پاکستان نے بعدازاں اسلام آباد میں مقیم افغان سفارتی نمائندے کو دفتر خارجہ طلب کر کے سفارت کاروں کو ہراساں کرنے کے واقعات پر اپنی تشویش سے آگاہ کیا تھا۔

تاہم پیر چار نومبر کی شام افغانستان کی وزرات خارجہ کی طرف سے جاری ایک بیان میں اس بات کا دعویٰ کیا گیا کہ پاکستان میں تعینات افغان سفیر کو ملک کے خفیہ ادارے کی طرف سے طلب کر کے ان سے مبینہ طور پر بدتمیزی کی گئی ہے۔

پاکستان کی طرف سے تاحال اس الزام پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے اور نہ ہی کسی قسم کی کوئی تصدیق یا تردید سامنے آئی ہے۔

پاکستان

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پشاور میں واقع افغان سفارت خانہ بھی تقریباً تین ہفتوں سے بند ہے جسکی وجہ سے افغانستان جانے والے پاکستانیوں کو ویزے کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے۔

افغان حکومت کا موقف یہ رہا ہے کہ قونصل خانہ پشاور میں واقع افغان مارکیٹ سے پولیس کی طرف سے افغانستان کا پرچم اتارنے کی کارروائی پر احتجاجًا بند کیا گیا ہے۔

افغان حکومت کا دعویٰ ہے کہ افغان مارکیٹ عرصہ دراز سے ان کی ملکیت رہی ہے جبکہ دوسری طرف ایک پاکستانی شہری کا دعوی ہے کہ ان کے آباؤ اجداد کی طرف سے یہ مارکیٹ افغان حکومت کو کرائے پر دی گئی تھی تاہم بعد میں یہ معاملہ عدالت جا پہنچا جہاں فیصلہ پاکستانی شہری کے حق میں دیا گیا۔

تعلقات میں تناؤ کی وجہ؟

پاکستان اور افغانستان کے درمیان بیشتر اوقات سفارتی تعلقات تناؤ کی زد میں رہے ہیں۔

اگر تاریخی طورپر دیکھا جائے تو کچھ ایسے معاملات ہیں جو بدستور حل طلب ہیں اور جس پر دونوں پڑوسیوں کے ہمیشہ سے الگ الگ موقف رہے ہیں۔

یہ ابھی اکثر اوقات دیکھا گیا ہے کہ زیادہ تر مسائل ان ہی حل طلب مسائل کے اردگرد گھومتے رہے ہیں اور جس کی وجہ سے کبھی کبھار حالات سنگینی کی حد تک بھی جاتے رہے ہیں۔

پاکستان افغانستان

پاکستانی فوجی افغان سرحد پر چاق و چوبند کھڑا ہے

سرحد پر کشیدگی

ان حل طلب معاملات میں سرفہرست پاک افغان سرحد ڈیورنڈ لائن کا ہے جو دونوں ممالک کے مابین ایک مستقل تنازعہ سمجھا جاتا ہے۔

افغانستان ابتدا ہی سے اس سرحد کو تسلیم کرنے سے انکار کرتا رہا ہے جبکہ پاکستان کا موقف ہے کہ یہ ایک بین الاقوامی سرحد ہے جسے پوری دنیا تسلیم کرتی ہے۔

طویل سرحد ہونے کے باعث ڈیورنڈ لائن کے آر پار دہشت گردوں کے موجود ٹھکانے اور ایک دوسرے کے ممالک میں شدت پسندوں کا آزادانہ طورپر آنے جانے اور حملوں کے الزامات بھی سامنے آتے رہے ہیں۔

تاہم دسمبر 2014 میں پشاور میں آرمی پبلک سکول پر ہونے والے حملے کے بعد پاکستان نے سرحد پر انتظامات بہتر بنانے کےلیے کئی اقدامات کیے جس میں پاک افغان سرحد پر خار دار تار لگانے اور افغان شہریوں کی آمد ورفت کو قانون کے مطابق کرنا شامل ہے۔

تاہم اس کے باوجود سرحد پر کشیدگی میں کمی کے آثار نظر نہیں آرہے۔ حالیہ دنوں میں ایک مرتبہ پھر پاک افغان سرحد پر دونوں ممالک کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا ہے جس میں پاکستانی علاقوں میں پانچ افراد زخمی ہوئے۔

پاکستان نے بھی جوابی کارروائی کرتے ہوئے افغان علاقوں پر شدید گولہ باری کی تاہم سرحد پار سے تاحال نقصانات کی کوئی اطلاعات نہیں ملی ہے۔

افغان امریکہ تعلقات

افغان جنگ

افغانستان پر تحقیق کرنے والے بیشتر صحافیوں اور تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ جب سے افغانستان میں جنگ کا آغاز ہوا ہے اس کے بعد سے دونوں ممالک میں سفارتی طورپر تعلقات کبھی مستقل نوعیت کے نہیں رہے ہیں۔

تاہم اس میں مزید شدت اس وقت دیکھنے میں آئی جب نائن الیون کے واقعے کے نتیجے میں افغانستان میں طالبان حکومت کا خاتمہ کردیا گیا۔

افغان امور پر نظر رکھنے والے سینئیر صحافی طاہر خان کا کہنا ہے کہ جنگ کی وجہ سے دونوں طرف شدید بداعتمادی کی فضا ہے اور اس معاملے کو کبھی سنجیدگی سے حل کرنے کی کوشش نہیں کی گئی جس سے مسائل بڑھتے ہی جارہے ہیں ۔

انھوں نے کہا کہ ‘ ایک اور بدقسمتی یہ ہے کہ افغانستان میں ہر برے کام کےلیے پاکستان پر الزام تراشی کی جاتی ہے حالانکہ ایسا بالکل نہیں ہے اور اس طرح یہاں بھی کچھ اچھے جذ بات نہیں پائے جاتے۔’

طاہر خان کےمطابق کابل اور اسلام آباد نے اس بد اعتمادی کے فضا کے خاتمے کےلیے گذشتہ سال مختلف کمیٹیاں تشکیل دی تھیں جس کا مقصد دو طرفہ مسائل کو مل جل کر اور مذاکرات کے ذریعے سے حل کرنا تھا لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہوا۔

بین الاقوامی ذرائع ابلاغ سے وابستہ صحافی سمیع یوسفزئی کا کہنا ہے کہ حالیہ دنوں میں دونوں ممالک کے مابین کچھ ایسے معاملات سامنے آئے ہیں جس سے کشیدگی میں بتدریج اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

انھوں نے کہا کہ پہلے پشاورمیں افغان سفارت خانہ بند کیا گیا جس کے جواب میں اب لگتا ہے کہ پاکستان نے کابل میں اپنا سفارت خانہ بند کردیا گیا ۔

انھوں نے کہا کہ کابل میں پاکستانی سفارت خانہ روزانہ تقریباً 1800 افغان شہریوں کو ویزے جاری کرتا ہے اور اگر یہ سلسلہ کچھ دن مزید بند رہتا ہے تو افغان شہریوں کےلیے کئی قسم کے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔

سمیع یوسفزئی کے بقول ‘شاید افغان ریاستی ادارے یہ نہیں چاہتے کہ دونوں ممالک کے عوام میں تعلقات خراب حد تک جائیں لیکن حکومت میں شامل بعض ایسے عناصر ضرور موجود ہیں جو پاکستان مخالف لابی سے ملے ہوئے ہیں اور جو کسی صورت نہیں یہ چاہیں گے کہ یہ تعلق کسی طریقے سے بہتر ہوں۔’

طالبان امن

طالبان رہنما ماسکو میں

امریکہ، طالبان امن مذاکرات

افغان طالبان اور امریکہ کے مابین کچھ عرصے سے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امن مذاکرات کے کئی دور ہوچکے ہیں تاہم ابھی تک اس کا کوئی قابل ذکر نتیجہ سامنے نہیں آسکا ہے۔

افغان حکومت ابتدا ہی سے اس بات چیت کے عمل کا حصہ نہیں رہی ہے۔ حالیہ مذاکراتی عمل امریکہ کے کہنے پر پاکستان کی کوششوں سے شروع ہوا جس پر صدر اشرف غنی، افغان حکومت اور دیگر افغان رہنماؤں کی طرف سے وقتاً فوقتاً شدید ناراضگی اور تحفظات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔

افغان حکومت کی طرف سے رواں سال فروری کے مہینے میں اقوام متحدہ کے سلامتی کونسل کو ایک خط لکھا گیا تھا جس میں امن مذاکرات میں پاکستان کے کردار پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے افغانستان میں مداخلت سے تعبیر کیا گیا تھا۔

افغانستان نے طالبان مذاکراتی ٹیم کی طرف سے پاکستان کا دور کرنے کی بھی شدید الفاظ میں مخالفت کی تھی جس پر بعد میں طالبان نے اپنا دورہ اسلام آباد موخرکرنے کا اعلان کیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32466 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp