’’سول بالادستی کا مطالبہ درست لیکن مولانا کے طرز سیاست سے اختلاف ہے‘‘


’’اسلام آباد کے سیکٹر ایچ نائین میں سوال سیاست میں مداخلت کا ہے، سیاسی انجینئرنگ کا ہے، منظم دھاندلی کا ہے، اور لوگوں کو ان کے حق حکمرانی سے محروم کرنے کا ہے۔ اس پر ہمارا ان سے اتفاق ہے۔” وجاہت مسعود

ان دنوں سوشل میڈیا پر ایک سوال توراتر کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔ مولانا فضل الرحمان مذہبی سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں۔ پھر ملک کے بعض لبرل حلقے ان کے ’آزادی مارچ’ کی حمایت کیوں کر رہے ہیں؟

وائس آف امریکہ نے سینئر صحافی اور دانشور وجاہت مسعود سے یہ سوال کیا۔ انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن کے مطالبات میں کسی ریاستی ادارے کی جانب سے مداخلت سے پاک اور شفاف انتخابات کا نکتہ شامل ہے۔ اس سے کسی جمہوریت پسند شخص کو کیا اختلاف ہو سکتا ہے؟

انہوں نے مولانا کی حمایت کے سوال پر کہا کہ ہم مولانا کے اس مطالبے سے اتفاق کرتے ہیں کہ اس ملک کے لوگوں کو حق حکمرانی واپس ملنا چاہئیے۔

انہوں نے کہا کہ مولانا کی سیاسی اقدار سے ہمیں اختلاف ہے۔ ہمارا سیاسی نظریہ ان سے مختلف ہے۔ لیکن اس اختلاف رائے سے ہم ان قوتوں کو فائدہ نہیں دے سکتے جو پاکستان کے لوگوں کے حق حکمرانی کو تسلیم نہیں کرتے۔

تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اصغر خان صاحب نے پی این اے کی تحریک میں یہ نعرہ لگایا کہ میں بھٹو کو کوہالہ کے پل پر پھانسی دوں گا۔ تاہم 1981 میں بیگم نصرت بھٹو نے جب ایم آر ڈی بنائی تو اس میں اصغر خان کو اپنے ساتھ بٹھایا تھا۔

صحافی اور سماجی کارکن ماروی سرمد نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جمہوریت صرف شفاف انتخابات اور سول بالادستی تک محدود نہیں ہے۔ جمہوریت وسیع تر مفہوم رکھتی ہے۔

“وہ جمہوریت تو جمہوریت نہیں ہو سکتی جس میں نسلی، مذہبی اور صنفی اقلیتیں شامل نہ ہوں۔ کیا اس مارچ میں ایل جی بی ٹی کیو سے تعلق رکھنے والے افراد جا سکتے ہیں یا خواتین اپنی مرضی کا لباس پہن کر جا سکتی ہیں؟”

’’جب تک ہمہ جہتی نہیں ہو گی، جمہورت حقیقی معنوں میں جمہوریت تصور نہیں کی جائے گی۔”

انہوں نے وضاحت کی کہ لبرل اور ترقی پسند طبقات یکساں نظریات کے حامل نہیں ہوتے ہیں۔ انہیں ایک جماعت اور گروہ نہیں کہہ سکتے۔ ان سب کی اپنی اپنی سوچ ہے۔

’’مولانا کا سول بالا دستی کا مطالبہ درست ہے، مگر ان کی طرز سیاست سے ہمارا اختلاف ہے۔”

مولانا سے پوچھا جائے کہ جو لوگ دین کو سیاست سے الگ کرنے کی بات کرتے ہیں کیا انہیں وہ سٹیج پر جگہ دیں گے۔ ہمیں تو کافر اور دوسرے القابات سے نوازا جاتا ہے۔

معلم اور لکھاری حاشر بن ارشاد نے کہا کہ جیسے اسٹیبلشمنٹ کا سیاست میں رسوخ جمہوری اقدار کے لیے زہر قاتل ہے، ویسے ہی وہ مذہب کی سیاست میں دخل اندازی کو بھی مناسب خیال نہیں کرتے۔

انہیں خدشہ تھا کہ اس دھرنے کے نتیجے میں مولانا کے کامیاب ہونے سے انہیں اگر کوئی سیاسی سپیس ملتی ہے تو اس کا مطلب ہو گا کہ اس ملک میں مذہبی قوتیں مزید مضبوط ہوں گی۔

صحافی زیاد فیصل نے یہ سوال اٹھایا کہ اگر چند ترقی پسند اور لبرل افراد مولانا کے چند نکات سے اتفاق کرتے ہوئے ان کے مارچ کی حمایت کر رہے ہیں تو یہ تاثر کیوں جنم لے رہا ہے کہ تمام بائیں بازو کے طبقات نے باجماعت مولانا کی تحریک کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے؟

ان کا کہنا تھا کہ حکمراں جماعت اور ان کے حامیوں کے شاید ڈی این اے میں یہ بات شامل ہے کہ جو بھی مسئلہ درپیش ہو تو وہ اسے لبرل طبقات پر تھوپ دیتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مذہب کو سیاسی حربے کے طور پر استعمال کرنا، تعصب اور امتیاز کی سیاست کرنا اور کسی کے عقیدے کو نشانہ بنانا ہمارے سیاسی کلچر کا حصہ بن چکا ہے۔ بہت سی چیزیں تو بد قسمتی سے ہمارے آئین کا بھی حصہ بن چکی ہیں۔ لہذا جو سیاسی پارٹی ایسا طرز عمل اختیار کرتی ہے وہ ایک طرح سے اسی معاشرے کا پراڈکٹ ہے۔

“حکومت نے اس طرز عمل کو ختم کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا بلکہ 2017 میں اس وقت کی حکومت کے خلاف استعمال کیا۔ اب وہ ’مدینہ کی ریاست’ کا نعرہ استعمال کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ مذہب کا سیاسی استعمال غلط ہے۔”

ان کا تجزیہ تھا کہ موجودہ حکمراں جماعت کی غلطیوں کی وجہ سے ہی ہم اس جگہ کھڑے ہیں۔

بشکریہ وائس آف امریکہ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).