کیا آپ خود کشی کرنا چاہتے ہیں؟


ہمارے یہاں جسمانی بیماریوں کو تو بیماری تسلیم کیا جاتا ہے، نفسیاتی بیماریوں کو نہیں۔ نفسیاتی بیماریوں کی علامات واضح بھی ہوں اور جان بھی لیا جائے کہ یہ نفسیاتی عارضہ ہے پھر بھی اس سے آنکھیں چرائی جاتی ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ نفسیاتی بیماریوں کو باعثِ شرم جانا جاتا ہے۔

وقتہََ فوقتہََ ہم سب اداسی، مایوسی اور بیزاری میں مبتلا ہوتے ہیں۔ عموماً یہ علامات ایک یا دو ہفتے میں ٹھیک ہو جاتی ہیں اور ہماری زندگیوں میں ان سے بہت زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ کبھی یہ اداسی کسی وجہ سے  شروع ہوتی ہے اور کبھی بغیر کسی وجہ کے۔  عام طور پہ ہم خود ہی اس اداسی کا مقابلہ کر لیتے ہیں۔ بعض دفعہ دوستوں سے بات کرنے ہی سے یہ اداسی ٹھیک ہو جاتی ہے اور کسی علاج کی ضرورت نہیں پڑتی۔ لیکن طبّی اعتبار سے اداسی اس وقت ڈپریشن کی بیماری کہلانے لگتی ہے جب:
اداسی کا احساس بہت دنوں تک رہے اور ختم ہی نہ ہو۔
اداسی کی شدت اتنی زیادہ ہو کہ زندگی کے روز مرہ کے معمولات اس سے متاثر ہونے لگیں۔

ڈپریشن کی بیماری کی  شدت عام اداسی کے مقابلے میں جو ہم سب وقتہََ فوقتہََ محسوس کرتے ہیں  کہیں زیادہ گہری اور تکلیف دہ ہوتی ہے۔  اس کا دورانیہ بھی عام اداسی سے خاصا زیادہ ہوتا ہےاور مہینوں تک چلتا ہے۔ درج ذیل علامات ڈپریشن کی نشان دہی کرتی ہیں۔ ضروری نہیں کہ ہر مریض میں تمام علامات موجود ہوں لیکن اگر آپ میں ان میں سے کم از کم چار علامات موجود ہوں تو اس بات کا امکان ہے کہ آپ ڈپریشن کے مرض کا شکار ہوں

1۔ ہر وقت یا زیادہ تر وقت اداس اور افسردہ  رہنا
2۔ جن چیزوں اور کاموں میں پہلے دل چسپی ہ، ان میں دل نہ لگنا، کسی چیز میں مزا نہ آنا
3۔ جسمانی یا ذہنی کم زوری محسوس کرنا، بہت زیادہ تھکا تھکا محسوس کرنا
4۔ روزمرہ کے کاموں یا باتوں پہ توجہ نہ دے پانا
5۔ اپنے آپ کو اوروں سے کم تر سمجھنے لگنا، خود اعتمادی کم ہو جانا
6۔ ماضی کی چھوٹی چھوٹی باتوں کے لیے اپنے آپ کو الزام دیتے رہنا، اپنے آپ کو فضول اور ناکارہ سمجھنا
7۔ مستقبل سے مایوس ہو جانا
8۔ خود کشی کے خیالات آنا یا خود کشی کی کوشش کرنا
9۔ نیند خراب ہو جانا
10 بھوک کا نہ لگنا یا بھوک کا معمول خراب ہونا

بعض افراد میں ڈپریشن کی کوئی خاص وجہ ہو بھی سکتی ہے اور نہیں بھی۔ بہت سے لوگوں کو جو اداس رہتے ہیں اور ڈپریشن کا شکار ہوتے ہیں اپنی اداسی کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی۔ اس کے باوجود ان کا ڈپریشن بعض اوقات اتنا شدید ہو جاتا ہے کہ انھیں مدد اور علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔

بعض تکلیف دہ واقعات مثلا کسی قریبی عزیز کے انتقال، طلاق، یا نوکری ختم ہوجانے کے بعد کچھ عرصہ اداس رہنا عام سی بات ہے۔ اگلے کچھ ہفتوں تک ہم  لوگ اس کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں اور بات کرتے رہتے ہیں۔پھر کچھ عرصے بعد ہم اس حقیقت کو تسلیم کر لیتے ہیں اور اپنی روز مرہ کی زندگی میں واپس آ جاتے ہیں۔ لیکن بعض افراد اس اداسی سے باہر نہیں نکل پاتے اور ڈپریشن کی بیماری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح اگر ہم تنِ تنہا ہوں، ہمارے آس پاس کوئی دوست نہ ہوں، ہم ذہنی دباؤ کا شکار ہوں، یا ہم بہت زیادہ جسمانی تھکن کا شکار ہوں، ان صورتوں میں ڈپریشن کی بیماری ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

جسمانی طور پر بیمار لوگوں میں ڈپریشن ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ یہ بیماریاں ایسی بھی ہو سکتی ہیں، جو زندگی کے لیے خطرناک ہوں مثلا کینسر یا دل کی بیماریاں، یا ایسی بھی ہو سکتی ہیں، جو بہت طویل عرصے چلنے والی اور تکلیف دہ ہوں مثلاً جوڑوں کی تکلیف یا سانس کی بیماریاں۔ نوجوان لوگوں میں وائرل انفیکشن مثلاً فلو کے بعد ڈپریشن ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔

شخصیت کا ڈپریشن کے مسائل سے گہرا تعلق ہے ۔ کسی کو کسی بھی وقت ہو سکتا ہے، لیکن حساس طبیعت کے لوگوں میں جو  حالات و تجربات کا گہرا اثر لیں ان میں ڈپریشن میں مبتلا ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔ اسی طرح خواتین میں  ڈپریشن ہونے کا امکان مردوں سے زیادہ ہوتا ہے۔

ڈپریشن ایک موروثی مرض بھی سمجھا جاتا ہے۔ یہ بیماری بعض خاندانوں میں زیادہ ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ کے والدین میں سے کسی ایک  کو ڈپریشن کی بیماری ہے تو آپ کو ڈپریشن ہونے کا خطرہ اور لوگوں کے مقابلے میں آٹھ  گنا زیادہ ہے۔

ماہرِین نفسیات کا کہنا ہے کہ اگر ڈپریشن کی نوعیت زیادہ نہیں اور آپ بہت زیادہ مسائل کا شکار نہیں ہیں تو اس صورت میں آپ اپنی خوراک ٹھیک رکھ کر، نیند پوری کر کے اور باقاعدگی سے ورزش کر کے خود بھی اسے ٹھیک کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر ڈپریشن کی علامات میں شدت اتنی ہے کہ آپ کے روزمرہ کے معمولات متاثر ہو رہے ہیں یا گھر والے، دوست یا آس پاسں کے افراد کہہ رہے ہیں کہ آپ میں کوئی واضح تبدیلی آئی ہے تو اس کی صحیح تشخیص کے لیے آپ کو پروفیشنل کی مدد لینی چاہیے۔ وہ پروفیشنل آپ کا جنرل فزیشن، ماہرِ نفسیاتی امراض، نفسیاتی امراض کا ڈاکٹر یا تھراپسٹ بھی ہو سکتا ہے۔

سائیکالوجسٹ عام طور پر سائیکوتھراپی، کونسلنگ یا سائیکالوجیکل سیشن سے علاج کرتے ہیں، جب کہ سائیکائٹرسٹ کچھ مخصوص ٹیسٹوں کے بعد آپ کے لیے دوائی تشخیص کرتے ہیں۔ عام طور پر ان دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں علاج ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔

کیا سوشل میڈیا ڈپریشن میں کمی یا اضافے کا باعث ہوسکتا ہے؟ اس سلسلے میں دنیا بھر میں وسیع پیمانے پر تحقیق ہوتی رہتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ روز مرہ زندگی میں در پیش کسی بھی مشکل کا اظہار فائدہ مند ہوتا ہے، کیوں کہ ایسا کرنے سے آپ کا بوجھ ہلکا ہوتا ہے۔ ان کے بقول اپنے احساسات کا سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر اظہار کرنے کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ جس کے ساتھ بات کر رہے ہیں وہ کس حد تک آپ کو سمجھ پا رہے ہیں اور اُن کا ردِ عمل کیا ہے۔ یہ بہت اہم ہے۔ آپ کو یہ بھی سننے کو مل سکتا ہے، یہ تو کچھ بھی نہیں سب کو ایسے ہی لگتا ہے۔ نماز پڑھو اپنا عقیدہ ٹھیک کرو۔ سب ٹھیک ہو جائے گا، یا یہ ایک ایسی بیماری ہے جس کا کوئی علاج نہیں۔ اس کے علاج کے لیے دی جانی والی دوائیاں نشہ آور ہیں اور ان دوائیوں کو ساری زندگی استعمال کرنا پڑتا ہے۔

ہمارے معاشرے میں ڈپریشن اوراس کے علاج سے متعلق بہت توہمات پائی جاتی ہیں۔ آپ کسی سے ذکر کریں کہ آپ ڈپریشن کا شکار ہیں یا اس کا علاج کروا رہے ہیں تو آپ کو اکثر یہ سننے کو ملتا ہے کہ ڈپریشن کوئی بیماری نہیں بلکہ کردار کی کم زوری ، مذہب سے دوری یا گناہ کا احساس ہے۔

ڈپریشن کے مرض کے علاج میں قریبی دوستوں اور اہل خانہ کا کردار بہت اہم ہے مریض پر نظر رکھنے اور انہیں مائل کرنے کی ضرورت رہتی کہ وہ کسی ماہر نفسیات یا پروفیشنل سے مدد لینے پر مان جائیں۔ لیکن اگر وہ ایسا کرنے سے گریزاں ہیں تو دوست یا اہل خانہ خود جا کر کسی معالج سے مشورہ کر سکتے ہیں اور پوچھ سکتے ہیں کہ اس صورت میں انھیں کیا کرنا چاہیے۔

ڈپریشن کے مریض جسمانی طور پر بظاہر تن دُرست اور صحت مند دکھائی دیتے ہیں لیکن یہ ہماری توجہ اور محبت کے بالکل اسی طرح حق دار ہیں، جیسے کسی عام بیماری میں مبتلا مریض۔ اگر غور کیا جائے تو ارد گرد چلتے پھرتے، جیتے اور سانس لیتے کئی لوگ نظر آئیں گے، جو اس خاموش قاتل سے نبرد آزما ہیں۔ انھیں پہچاننے میں تاخیر نہ کیجیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).