اُس پار کے کشمیریوں کے نام ایک خط


 لوگ اِس پار خوش ہیں ماسوائے ان کے جو تمہارے پڑوس میں رہتے ہیں ۔ تم پر جب بھی کوئی مصیبت آن پڑتی ہے تو مجھ کو اپنی ذات سے بھی زیادہ تمہارا رنج ہوتا ہے اور رنج ہو بھی نہ کیوں کر کہ تم اور میں ایک جسم کی مانند ہیں ۔ میں تو اکثر یہ سوچتا رہتا ہوں کہ تمہارا کیا بنے گا ؟ اِس عالم کے آقاؤں نے تمہارا کیا فیصلہ کرنا ہے ؟ تم جو یہ جدوجہد کیے جارہے ہو اِس کا کیا حاصل ہے ؟ سات دہائیوں کی تمہاری قربانیاں کیا رنگ لائیں گی ؟ عالم کا پروردگار اب بھی تمہاری سنے گا کہ نہیں ؟ جب میں اپنی نظر سے اس سارے معاملے کو دیکھتا ہوں تو ڈر جاتا ہوں کہ تمہاری دنیا میں مصیبت پھر بھی باقی رہتی ہے بلکہ پہلے سے کئی درجے اور طاقتور ہو کر رہتی ہے ۔

تب سوچتا ہوں خدا کرے میرا یہ ڈر ڈر نہ رہے اور میری یہ نظر وہ نظر نہ رہے کہ جس کے توسط سے میں کل کو تمہارے لیے کچھ اچھا نہیں دیکھتا، کیا کروں ؟ میرے بس میں ہو تو میں کچھ برا بھی نہ دیکھوں ۔

دیکھے کاغذ پہ تڑپ جائے ہے بستی کو ہر اک

آ ادھر دیکھ میں کیا منظرِ تصویر لکھوں

میں جانتا ہوں کہ تم 80 دن کم ایک کرفیو کے گزار چکے ہو مگر میں یہ نہیں جانتا کہ یہ کرفیو کس بلا کا نام ہے ؟ میری خوش قسمتی سمجھو کہ میں اِس پار ہوں جہاں کرفیو جیسی بلا کو آج تک میری نظر نے نہ دیکھا مگر یہ جانتا ہوں کہ اس کرفیو کی بدولت غذائی قلت پوری شدت سے اس علاقے میں اپنا آپ دکھاتی ہے ۔

سوچتا ہوں تم نے اتنے ماہ اس بلا کو سر لیے کیسے گزار لیے ؟ کسے خبر تم نے کتنے کتنے دن فاقہ کشی کی اور کیے جا رہے ہو، ہائے ہائے اُس عالم کا تصور بھی کوئی گماں میں کیسے لائے کہ جب کھانے کو کچھ میسر آئے تو پینے کو کچھ نہ آئے اور جب پینے کو کچھ میسر آئے تو کھانے کو کچھ نہ آئے ۔یہ افلاس کی قیامت اپنی جگہ اور وہ قیامت اپنی جگہ کہ جب تمہارے اپنوں کے سر پھوڑ لیے جائیں اور وہ پھوڑے ہوئے سر لیے گھر آئیں ، لہو مسلسل بہتا ہو ، جس کا رنگ سرخ ہو اور تمہارے پاس اس لہو کو روکنے کے لیے کچھ نہ ہو ۔ کوئی دوا نہ ہو ۔ہاں دعا ہو لیکن وہ بھی قبول نہ ہو، وہی دعا جو آسماں پر جا لٹکے ۔

گلہ تجھ سےلیے لاکھوں چلے آئے تری جانب

کہ دیکھ آئیں ہماری کیوں نہیں سنتا خدا آخر ۔

یہ قیامت بھی اپنی جگہ لیکن اُس قیامت کا کیا کہ جب تمہارے اپنوں کے لاشے مسلح افراد اپنے کندھوں پر لیے تمہارے در آئیں اور تمہاری چیخیں نکل جائیں۔ زمیں یہ سب دیکھتے سنتے ہوئے بھی کچھ نہ بولے ، آسماں بھی چپ رہے اور آسماں والا بھی ،تمہاری سانس رک جائے اور جب وقت تجہیز وتکفین کا آئے تو اُس لاشے کو سفید رنگ کا کفن بھی نہ میسر آئے ۔ تم جو باہر نکلنے کا خیال کرو بھی تو باہر بندوقوں کی گولیاں تمہارے انتظار میں ہوں اور اہلِ بندوق تمہاری ہی تلاش میں ہوں ۔ تم جو چاروناچار تجہیز و تکفین کے لیے باہر نکلو بھی کہ وہ مسلح افراد بھی آخر انساں ہیں انہیں شاید اس حال میں تمہارا ترس آ جاوے لیکن پھر بھی کوئی تمہارا نہ ترس کھاوے ۔

سنو ! ایسے دردناک و کربناک مرحلوں میں تمہیں کوئی کیا کہے مگر میں یہ سوچتا ہوں کہ تمہارے لیے اول یہی بہتر ہے کہ تم جہاں ہو وہیں رہو مگر یہ رہنا تمہارا وہ رہنا نہ ہو ۔ تمہارے اور اُن میں یعنی ہندوستانیوں میں سب باتیں مشترک ہوں ، اگر ہندوستانیوں کے برابر تمہیں حق نہ بھی دیا جائے تو اتنا تو ہو کہ تمہارا حق بھی نہ مارا جائے ۔ یوں تم پر جو قیامت گزر رہی ہے وہ شاید ٹل جائے اور پھر تم اپنے روشن کل کے لیے آزادی و بھرپور توانائی سے جدوجہد کرو ۔

یہ وقت تمہارا اچھا وقت نہیں کیونکہ اس عالم کے آقا اس کھوج میں ہیں کہ تمہارا فیصلہ اس انداز و اس شاں سے کریں کہ وہ جو چاہتے ہیں انہیں وہ سب مل جائے ۔خیال رہے کہ وہ جو چاہتے ہیں اگر تمہاری آج کی جدوجہد سے کل انہیں مل گیا تو سمجھو کہ تمہارے ہاتھ میں کچھ نہ آیا اور تم اپنے مقصد میں کامیاب بھی نہ ہوئے ۔

کیا تم یہ چاہو گے تمہاری جدوجہد سے تمہاری کامیابی کوئی اور لے جائے ؟ سنو میں یہاں کا مفصل حال لکھتے ہوئے ڈرتا ہوں کیوں کہ یہاں بات اگر حق و سچ کی بنیاد پر کہی جائے یا لکھی جائے تو ایمانِ حب الوطنی رخصت اور غدار کا سہرا سر آئے، ایسے میں بھلا کون اپنی جاں نہ بچائے ۔خیر! حسرت تو یہ دعا کرتا ہے کہ کچھ ایسی بنے کہ ہم میں اور تم میں کوئی دیوار، کوئی سرحد نہ بنے ۔خدا تمہاری حفاظت کرے ، اگلے خط میں کچھ اہم باتیں اور لکھ بھیجتا ہوں ۔

محمد فیاض حسرت 5 نومبر  2019 ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).